• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

عزیز قارئین! اس مرتبہ ہم مغل پورہ ریلوے اسٹیشن (جس کا پہلا نام میاں میر ریلوے اسٹیشن بھی رہا ہے) کوئی 40برس بعد دیکھنے چلے گئے۔ پہلےتو مغل پورہ ریلوے اسٹیشن کو تلاش کرنے میں کوئی تیس منٹ لگ گئے۔ ریلوے کی لائنیں اور ڈرائی پورٹ تو نظر آئی مگر مغل پورہ ریلوے اسٹیشن کی تاریخی عمارت کہیں نظر نہ آئی۔ کئی دکانداروں سے پوچھ پوچھ کر اس سڑک پر آئے۔ جہاں پر ٹرک ہی ٹرک کھڑے تھے۔ خیر ہم اس تاریخی عمارت تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ جس زمانے میں ہم نے یہ ریلوے اسٹیشن دیکھا تھا۔ بڑا خوبصورت اور رواں دواں ہوتا تھا۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ یہاں سے روزانہ پچاس کے قریب ریل کار گزر کر جلو اور واہگہ ریلوے اسٹیشن جایا کرتی تھیں۔ یہ ریل کار ایک سے چار ڈبوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ ہر ریل کار کے ڈبے میں انجن ڈرائیور دونوں طرف بیٹھ کر اس کو چلا سکتا تھا۔ ان ریل کاروں میں اتنا رش ہوتا تھا کہ دیہاتی اور ملازمت کرنے والے بابو اس کی چھت پر بیٹھے ہوتے تھے۔ کسی زمانے میں لاہور سے گوجرانوالہ بابو ٹرین (بائو ٹرین) بھی چلا کرتی تھی۔

ہمارے پاس کسی زمانے میں ٹویاٹا کورونا نیلے رنگ کی بڑی سی لگژری موٹر کار ہوتی تھی۔ ہم اس موٹر کار پر نہر کا جہاں سے آغاز ہوتا ہے وہاں سے جلو تک اور ان سڑکوں پر جایا کرتے تھے جن کے ایک طرف پاکستان اور سڑک کے دوسری طرف بھارت کی زمین ہے۔ اس کے بارے میں بھی آئندہ کسی کالم میں بتائیں گے۔ ہاں کیاخوبصورت لاہور تھا۔ کورونا گاڑی کا نام تھا۔ اب کورونا بیماری ہے۔ شام کے بعد برکی بیدیاں اور واہگہ گائوں میں کوئی لاہور شہر سے نہیں جایا کرتا تھا۔ ڈاکو آ جاتے تھے۔ تب کوئی اور ڈاکو تھے۔ آج کوئی اور ڈاکو ہیں۔ یہ سارے دیہات لاہور شہر کے 13دروازوں سے صرف دس سے 15میل کے فاصلے پر واقع تھے۔

1985تک مغل پورہ ریلوے اسٹیشن بڑا بھرپور ریلوے اسٹیشن رہا۔ پھر آہستہ آہستہ یہاں پر ٹرینوں کی آمد و رفت کم ہونا شروع ہو گئی۔ اور 1992میں صرف ایک ٹرین آیا کرتی تھی۔ پھر وہ بھی بند ہو گئی۔ اس ریلوے اسٹیشن کی ریلوے لائن کو انڈیا لائن بھی کہتے ہیں۔ یہ ریلوے لائن براستہ واہگہ امرتسر جاتی ہے۔ کبھی اس ریلوے لائن پر سمجھوتہ ٹرین بھی چلا کرتی تھی۔ خیرجناب ہم اس ریلوے اسٹیشن کی تاریخی عمارت میں داخل ہوئے۔ جو 1860یا بعض حوالوں کے مطابق 1912میں تعمیر ہوئی تھی۔ یہ تاریخی عمارت جس کو ایک سو ساٹھ برس ہو چکے ہیں وہاں اب اسٹیشن ماسٹر محمد اسلم کا کمرہ ہی کھلا ہوتا ہے جو انتہائی پرانی دیار کی لکڑی کی میز پر سو برس قدیم ٹیلی فون ایکسچینج اور کچھ دیگر پرانے آلات کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کمرے کی چھت کم از کم 25فٹ بلند تھی۔ چھت دیار لکڑی کی بھالوں والی تھی جو آج بھی بغیر منٹیننس کے کام دے رہی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بارش کے دنوں میں چھت ٹپکنے لگتی ہے۔ اس چھت پر مٹی کی لپائی کی جاتی ہے اور لاہور کے قدیم گھروں کی چھتیں بھالوں کی ہوا کرتی تھیں۔ اب بھی ایسے مکان اور کوٹھیاں لاہور میں موجود ہیں ۔ کمرے میں داخل ہوئے تو کسی انگریزی HORROR MOVIEکا منظر نظر آ رہا تھا۔ اندھیرا کمرہ ایک مدھم سی روشنی ایک آتش دان جس پر لکڑیوں کے جلنے کے اور دھواں کے نشانات تھے۔

عزیز قارئین یقین کریں کہ اس ریلوے اسٹیشن کا بیرونی اور اندرونی منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے کچھ دیر کے لئے ہمیں یہ محسوس ہواکہ ہم ولایت کے کسی گائوں کے ریلوے اسٹیشن پر کھڑے ہیں۔ ٹرین کی آمد پر گھنٹی والی سلیٹ اور بجانے والی چھوٹی سی لوہے کی اسٹک بھی لٹکی ہوئی تھی ہم بہت دیر تک اس تاریخی ریلوے اسٹیشن کی یادوں میں کھوئے رہے۔

یہی تاریخی ریلوے اسٹیشن 1992تک مسافروں کی آمد و رفت کا ذریعہ رہا۔ پھر مسافر ٹرینیں بند کر دی گئیں ریلوے کو نقصان ریلوے کے بعض انتہائی کرپٹ افسروں اور ٹرانسپورٹ مافیا نے مل کر پہنچایا۔ اگر 1985ء تک پچاس کے قریب ٹرینیں روزانہ چل سکتی تھیں تو آج ان کی تعداد دوگنی ہونی چاہئے تھی کبھی یہاں سے واہگہ بارڈر تک اسپیشل ٹرین بھی چلا کرتی تھی۔ جب ہم مدتوں بعد اس ریلوے اسٹیشن کی عمارت کو دیکھ رہے تھے تو اسٹیشن ماسٹر محمد اسلم نے بڑی خوبصورت اور کارآمد بات کہہ دی اور ہم سوچ میں پڑ گئے۔ آج تک کسی بیورو کریٹ، وزیر اور ریلوے کے اعلیٰ افسر کے ذہن میں یہ بات کیوں نہ آئی۔ اسٹیشن ماسٹر محمد اسلم نے کہا کہ اگر اس تاریخی اور دیگر تاریخی ریلوے اسٹیشنوں پر فوڈ اسٹریٹ کی طرز پر کچھ سرگرمیاں شروع کر دی جائیں تو اس سے آمدنی بھی ہو گی اور ان تاریخی ریلوے اسٹیشنوں کی عمارت کی منٹیننس کے لئے اخراجات بھی حاصل ہو جائیں گے۔ ہمارے خیال میں ایک ایسی ٹرین چلائی جائے جو لاہور اور اس کے گرد و نواح میں بند ریلوے اسٹیشنوں کے درمیان چلے۔

جس طرح بھارت میں راجستھان ٹرین روایتی انداز میں سجا کر اور اندرونی ماحول کو بڑا خوبصورت بنا کر چلائی جاتی ہے۔ مغل پورہ ریلوے اسٹیشن کبھی میاں میر چھائونی سے لاہور میں داخل ہونے کا پہلا ریلوے اسٹیشن بھی ہوا کرتا تھا۔ ارے دوستو اس تاریخی ریلوے اسٹیشن کی عمارت اور ماحول انسان کو ایک سحر میں مبتلا کر دیتاہے اگرچہ اب یہ اسٹیشن اس طرح آپریشنل نہیں رہا۔ اب صرف مغل پورہ ورک شاپس جانے کے لئے اس کی یہ دو لائنیں استعمال ہوتی ہیں۔ ایک سو بیس ایکڑ 120رقبے پر یہ تاریخی ریلوے اسٹیشن اب تک قبضہ مافیا سے بہت حد تک بچا ہوا ہے۔ تین کمروں کا یہ ریلوے اسٹیشن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس تاریخی ریلوے اسٹیشن کا ویٹنگ روم بھی ہے۔ جو اب گودام بن چکا ہے کاش ریلوے کے موجودہ سیکرٹری حبیب گیلانی جو کہ خود پرانی عمارات کے دلدادہ ہیں اسی تاریخی ریلوے اسٹیشن کی عمارت کو محفوظ کرنے کے لئے کچھ اقدامات کر سکیں۔

(جاری ہے)

تازہ ترین