• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں سے ملنے ملانے کا دن۔ کہئے عید کیسی گزری۔ کووڈ19 میں آنے والی دوسری عیدِ قرباں۔ ﷲ تعالیٰ سے التجا ہے کہ اب اس وبا سے انسانیت کو نجات عطا فرما۔ کتنی جانیں اس کی نذر ہوچکی ہیں۔ ملکوں کی معیشت برباد ہوچکی ۔ ﷲ تعالیٰ کا نائب انسان بہت دل گرفتہ ہے۔ مستقبل کی منصوبہ بندی اطمینان سے نہیں کرپارہا ۔آج اپنے گھر والوں، اولادوں کے ساتھ آنے والے دنوں کی باتیں کریں۔ ہم جس خطّے میں رہتے ہیں یہاں زندگی آسان نہیں ہے۔ بہت مشکلات ہیں۔ ہم بنیادی مسائل بھی حل نہیں کر پائے۔ دنیا والے خلا کا سفر شروع کرچکے ہیں۔ ایک امیر ترین امریکی خلا کو کامیابی سے ہاتھ لگاکر زمین پر واپس آچکے ہیں۔ اب دولت مندوں کی دوڑ لگ جائے گی خلا نوردی کے لئے۔

آپ کو یاد ہے ہم نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان کے صاحبزادے اکبر لیاقت علی کی علالت کی جانب قوم کی توجہ دلائی تھی۔ ﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ تحریر اس خاندان ، عوام اور حکمرانوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنی۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر مرتضیٰ وہاب ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور حکومتِ سندھ کی طرف سے مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ بہت سے درد مند پاکستانیوں نے انہیں فون بھی کیے۔ پھول بھی بھجوائے۔ بیگم اکبر لیاقت ان سب خواتین و حضرات کا شکریہ ادا کررہی ہیں۔ صدر مملکت جناب عارف علوی بھی جمعہ کے روز اکبر میاں کی مزاج پرسی کیلئے تشریف لائے۔

14اگست قریب آرہی ہے۔ پاکستان ہماری جان آزادی کے 74سال گزار کر 75ویں سال میں داخل ہوجائے گا۔ہم ان کالموں میں گزارش کرتے آرہے ہیں کہ اپنی تمام مایوسیوں ناکامیوں کے باوجود ہمیں ڈائمنڈ جوبلی منانی چاہئے۔ ہم اپنے 75سال کا تجزیہ کریں۔ یونیورسٹیاں تحقیقی ادارے ان برسوں میں اپنی کامیابیوں۔ ناکامیوں کے اسباب تلاش کریں۔ ہماری محرومیاں، پسماندگی حقیقت ہیں۔ ہم ترقی یافتہ ممالک سے یقیناً کئی سال پیچھے ہیں۔ لیکن اس پسماندگی کو دور بھی ہمیں ہی کرنا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں اپنے محسنوں کو یاد کرنا چاہئے جنہوں نے ہمیں انگریز سے نجات دلائی اور ایک آزاد خودمختار ملک کا شہری بننے کا شرف دلوایا۔ اس آزاد سر زمین میں ہماری کم از کم 3نسلیں تو ہوچکی ہیں۔ اکبر لیاقت علی خان کی علالت پر تحریر نے پورے ملک میں پاکستان کے اوائل کی یادیں تازہ کردی ہیں۔ بہت سے قارئین کا اصرار ہے کہ ہم بانیان پاکستان کے خاندانوں کو یاد کریں۔ دیکھیں کہ ان پر کیا گزری۔ ان میں سے کتنے معاشی طور پر آسودہ ہیں۔ کتنے نا انصافیوں کا شکار ہیں؟

میں تو اپنی یادداشت کو بنیاد بناکر کچھ شخصیتوں کا حوالہ دوں گا۔ یونیورسٹیاں تو باقاعدہ تحقیق کرسکتی ہیں۔ ابھی کچھ لوگ ہوں گے جو تحریکِ پاکستان میں لڑکپن اور جوانی میں حصّہ لے چکے ہوں گے۔ بانیان پاکستان صرف وہ نہیں ہیں جو ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں پہلے سے رہنے والے کئی خاندان بھی تحریک پاکستان میں بہت سرگرم رہے ہیں۔ جب مہاجرین اپنے خوابوں کی سر زمیں پر پہنچے تو ان گھرانوں نے ان کا استقبال کیا۔ اپنے گھروں اور دلوں کے دروازے ان کے لئے کھول دیے۔ 1947 سے 1951 تک اخبارات میں ان کے نام نمایاں ہوتے تھے۔ ان کی خدمات کو اس 75ویں سال میں خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔ ان کے ورثا کو تلاش کرکے ان کو ایوارڈز دیے جائیں۔

اگست 2021سے اگست 2022کے دوران ان سب کو یاد کرنا۔ نئی نسل کو ان سے ان کی قربانیوں سے متعارف کروانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ سندھ میں مجھے پیر الٰہی بخش یاد آتے ہیں۔ جی ایم سید، قاضی محمد اکبر، قاضی عبدالمجید عابد۔ ہجرت کرکے آنے والوں میں مولانا عبدالحامد بدایونی، حسین امام، چوہدری خلیق الزماں، راجہ صاحب محمود آباد، نواب صدیق علی خان، شہزادی عابدہ سلطان، محمود الحق عثمانی، نورا لصباح بیگم، مرزا ابوالحسن اصفہانی، سیٹھ احمد دائود،حسن اے شیخ۔ سندھ سے ہی آغا غلام نبی پٹھان، ایم اے کھوڑو، عبدالستارپیرزادہ،محمد ہاشم گزدر،مولانا حشام الحق تھانوی، پیر محفوظ، سردار امیر اعظم۔پنجاب میں میاں ممتاز دولتانہ،میاں افتخار الدین،صوفی عبدالحمید ،میجر اسحاق، عبدالحمید دستی، مولانا محمد بخش مسلم، مولانا علائو الدین صدیقی۔ پشاور سے عبدالرب نشتر، خان عبدالقیوم ، پیر صاحب مانکی شریف، یوسف خٹک۔ کوئٹہ سے میر جعفر خان جمالی، قاضی محمد عیسیٰ، امان ﷲ گچکی، نواب محمد اکبر بگٹی، خان آف قلات۔

ماہرین تعلیم اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، علامہ آئی آئی قاضی، پیر حسام الدین راشدی۔ اے ایم قریشی۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں نام تھے۔ جو آپ اپنے اپنے شہر میں جانتے ہوں گے۔ بہت عظیم ہستیاں تھیں۔ جو ایک نئے ملک کے مسائل اور وسائل سے آگاہ تھیں۔ اس آگہی کی روشنی میں اپنے اپنے علاقے میں انہوں نے قیام پاکستان کے لئے کوششیں کیں۔ جمہوریت کی بحالی اپنے حقوق کے حصول۔ محنت کشوں کے تحفظ کے لئے بشیر احمد بختیار یاد آتے ہیں۔ امیر دادا، مرزا ابراہیم، سی آر اسلم، شمیر واسطی، نبی احمد، ایس پی لودھی، عثمان بلوچ، واحد بشیر، علی امجد، منہاج برنا، حبیب جالب۔ مرکزی قیادتوں کی طاقت مختلف صوبوں اور شہروں کی قیادتیں ہوتی تھیں۔ تحریک نظام مصطفیٰ، تحریک بحالی جمہوریت، پروفیسر غفور احمد، مولانا شاہ احمد نورانی، شاہ فرید الحق، نوابزادہ نصر ﷲ خان، خان عبدالولی خان تو مرکزی قیادتیں تھیں۔ زین العابدین، علائو الدین عباسی، مشیر احمد پیش امام، رسول بخش پلیجو، فاضل راہو۔ کیسے بھول سکتے ہیں عابد زبیری کو۔

یہ سب وہ درد مند انسان تھے۔ عظیم پاکستانی جنہوں نے اس ملک کی بنیادیں مستحکم کیں۔ معاشرے کو تعصبات سے آزاد کرنے کی جدو جہد کی۔ آئیے جاننے کی کوشش کریں کہ ان کے ساتھی کون کون تھے۔ مختلف شہروں میں یہی بے لوث خدمات کون انجام دے رہے تھے۔ تاریخ پاکستان ان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین