فرخ شہزاد، کوئٹہ
عکاسی :رابرٹ جیمس
زلزلہ زون میں واقع، کوئٹہ بلند و بالا عمارات کا شہر بنتا جا رہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے شہر کے وسط میں واقع رہائشی عمارتوں کے تجارتی استعمال کے رجحان میں خاصا اضافہ ہوا ہے، جس کے سبب مسلسل بلند عمارات تعمیر کی جارہی ہیں۔ واضح رہے، صوبائی دارالحکومت 31مئی1935ء کے خوف ناک زلزلے میں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا تھا، جس کے بعد شہر میں پختہ چَھتوں کے مکان بنانے پر پابندی عاید کر دی گئی تھی۔ 1937ء میں بلڈنگ کوڈ رائج کیا گیا، جس کے تحت صرف ’’سیون ٹائپ‘‘مکانات بنانے کی اجازت دی گئی۔
سیون ٹائپ مکانات کی چَھتیں لکڑی اور ٹین کی چادروں سے بنی ہوتی ہیں، جو 30فٹ سے زیادہ اونچی نہیں ہوتیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دَوران کوئٹہ کی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر صوبے کے اندرونی علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد یہاں منتقل ہو رہی ہے۔ جس شہر میں 30فِٹ سے بلند مکانات نظر نہیں آتے تھے، اب وہاں کئی کئی منزلہ عمارتیں دعوتِ نظارہ دے رہی ہیں۔ کچّے اور سیون ٹائپ مکانات کی جگہ اسپتال‘ اسکولز‘ نجی دفاتر‘ کلینکس اور شو رومز قائم ہو رہے ہیں۔ایسی بیش تر عمارتوں میں پارکنگ کی سہولت موجود نہیں اور جہاں ہے، وہاں بھی چند گاڑیاں کھڑی کرنے کی گنجائش ہے، جس کے باعث گاڑیاں سڑکوں پر پارک کر دی جاتی ہیں۔
اِسے کوئٹہ شہر کی بد قسمتی کہہ لیں کہ یہاں 1937ء سے بلڈنگ کوڈ تو رائج کر دیے گئے، لیکن بلڈنگ کوڈ اتھارٹی تشکیل نہیں دی جا سکی۔ضلعی انتظامیہ اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی غیر قانونی عمارات کے خلاف کارروائیاں محض خانہ پُری ہی ہوتی ہیں۔ چند برس قبل بلوچستان ہائی کورٹ نے اِس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو بلڈنگ کوڈ پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی، لیکن اس کے باوجود لوگ پیسے کی چمک سے مَن پسند نقشے منظور کروا کر تعمیرات کر رہے ہیں۔
سی پیک کے نتیجے میں بلوچستان میں تجارتی سرگرمیاں، خاص طور پر رئیل اسٹیٹ کا کاروبار عروج پر ہے۔ شہر کے نواحی علاقوں میں برساتی کھمبیوں کی طرح درجنوں ہائوسنگ اسکیمز وجود میں آگئی ہیں، جہاں اندرونِ صوبہ کے لوگ پلاٹس خرید رہے ہیں۔کوئٹہ پر آبادی کے دباؤ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ صوبے کے بیش تر اضلاع انتہائی پس ماندہ ہیں۔ کوئٹہ اور دیگر دو، تین اضلاع کے علاوہ کہیں بھی عوام کو بنیادی سہولتیں میّسر نہیں، حتیٰ کہ اُنھیں عید یا شادی بیاہ کی خریداری کے لیے بھی کوئٹہ کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ رہائشی مکانات خرید کر دھڑا دھڑ پلازے تعمیر کیے جا رہے ہیں، جن کے چھوٹے چھوٹے فلیٹس لاکھوں روپے میں بِک رہے ہیں۔
کثیر المنزلہ عمارات کی تعمیر اور بڑھتی آبادی کے باعث گیس، بجلی اور پانی کا نظام بھی درہم برہم ہوگیا ہے، کیوں کہ جس علاقے میں چند سو گھرانوں کے لیے ٹرانسفارمر نصب تھا، اب وہاں فلیٹس میں سیکڑوں خاندان رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ٹرانسفارمرز پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ یہی صُورتِ حال پانی کی ہے، جس کی کمی سنگین بحران کی شکل اختیار کر چُکی ہے۔ ماضی میں اعلانات کیے جاتے رہے کہ نواحی علاقوں بوستان اور ہزار گنجی تک آبادی پھیلائی جائے گی تا کہ شہر پر بوجھ کم کیا جا سکے، لیکن ان اعلانات کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔
دو دہائی پہلے تک کم آبادی کے سبب شہر میں ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی، لیکن اب وسطی علاقوں میں گاڑیوں کی گھنٹوں لمبی قطاریں معمول بن گئی ہے۔ ارضیاتی ماہرین بلند عمارات اور بڑھتی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل پر مختلف فورمز پر اپنے تحفّظات کا اظہار کرتے آرہے ہیں، لیکن حکومت اِس جانب توجّہ دینے سے گریزاں ہے۔ ارضیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں 1935 ء کے تباہ کُن زلزلے کی شدّت کو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے تعمیراتی قوانین پر عمل درآمد ضروری ہے۔ خلافِ قانون تعمیر ہونے والی عمارتیں گرانی ہوں گی۔ نیز، متعلقہ اداروں کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سہولتوں سے آراستہ کیا جانا ضروری ہے۔
میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے چیف آرکیٹیکٹ، حاجی اسحاق مینگل نے اِس ضمن میں بتایا کہ’’ شہر کی بیش تر بلند عمارتیں نقشوں کی باقاعدہ منظوری کے بغیر تعمیر ہوئیں، یوں یہ عمارات غیر قانونی ہیں۔ بلڈنگ کوڈ پر عمل درآمد کروانا بلڈنگ کوڈ اتھارٹی کی ذمّے داری ہے، جو ابھی تک قائم ہی نہیں ہو سکی۔‘‘ اُنہوں نے مزید بتایا’’ غیر قانونی عمارتوں کی روک تھام کے لیے پوری کوششیں کر رہے ہیں۔
شکایات کا فوری جائزہ لے کر کارروائی کی جاتی ہے، جب کہ ہمارا عملہ شہر کا دَورہ کر کے تعمیراتی سرگرمیوں کا بھی جائزہ لیتا ہے ۔ ہم نے کئی زیرِ تعمیر عمارات کے کام رکوائے، حتی کہ کئی منزلہ عمارتیں گرا بھی دیں۔کوئٹہ انتہائی خطرناک زون میں واقع ہے، جہاں مسلسل زلزلے آتے رہتے ہیں اور ماضی میں بھی قدرتی آفت سے ہزاروں افراد لقمۂ اجل بنے تھے۔ لوگوں کو بھی ذمّے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کیوں کہ غیر قانونی عمارتیں انسانی جانوں کو بھی خطرات میں ڈالنے کا باعث ہیں۔‘‘
ریٹیلرز آف پاکستان کے نائب صدر، امیر حمزہ نے کہا کہ’’ بدلتے دَور کے ساتھ حالات بھی یک سَر تبدیل ہو چکے ہیں۔ تعمیرات کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی آگئی ہے۔ اگر عمارت میں بہترین میٹریل استعمال کریں، تو 72فِٹ اونچی تعمیرات کی جا سکتی ہیں۔پاکستان انجینئرنگ کاؤنسل نے پورے مُلک کا سروے کیا، جس کے بعد اُس نے کوئٹہ کے لیے 72فِٹ تک تعمیرات کی تجویز دی، جب کہ بلوچستان ہائی کورٹ میں بھی اِس حوالے سے مقدمہ زیرِ سماعت ہے۔ ہمیں امید ہے کہ 55سے60فٹ تک تعمیر کی باقاعدہ اجازت مل جائے گی۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ’’ اگر عمارات نقشوں کے مطابق اور معیاری میٹریل سے تعمیر کی جائیں، تو تعمیرات میں کوئی حرج نہیں۔
کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے ہزاروں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی میّسر آئے ہیں۔جہاں تک بلڈنگ کوڈ اتھارٹی کا سوال ہے، تو کوئٹہ چھوٹا سا شہر ہے، یہاں اتھارٹی کے ہونے، نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، البتہ اگر ضلعی انتظامیہ غیر قانونی تعمیرات رکوانا چاہے، تو وہ ایسا کر سکتی ہے، لیکن بدقسمتی سے میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں بلڈنگ اتھارٹی عملاً غیر فعال ہے۔ چیف آرکیٹیکٹ اور انجینئر کی پوسٹ پر غیر متعلقہ افراد تعیّنات کیے گئے ہیں۔
اب بھی ٹائون پلانر کے عُہدے کا افسر چیف آرکیٹیکٹ کے طور پر کام کر رہا ہے۔ نقشہ برانچ میں درجہ چہارم کے اہل کار (قلی) تعیّنات ہیں، جب کہ کلرکس سے بلڈنگ انسپکٹرز کا کام لیا جا رہا ہے، جو شہر میں غیر قانونی عمارتوں کے مالکان سے رشوت وصول کرتے پِھرتے ہیں۔ اگر میٹر وپولیٹن کارپوریشن میں بلڈنگ اتھارٹی کو فعال بنایا جائے، تجربے اور مطلوبہ قابلیت کی بنیاد پر عملے کی تعیّناتی کی جائے، تو کافی حد تک غیر قانونی عمارات کی تعمیر کا سلسلہ رُک سکتا ہے۔‘‘
ممتاز ارضیاتی ماہر، پروفیسر ڈاکٹر دین محمّد کاکڑ کا اسی حوالے سے کہنا ہے کہ’’ اللہ نہ کرے، اگر کوئٹہ میں زلزلہ آیا، تو اب نقصانات 1935ء کے زلزلے سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔ جب شہر میں جا بجا فلک بوس عمارتیں دیکھتا ہوں، تو کانپ اُٹھتا ہوں، کیوں کہ 1935ء میں گیس، بجلی کی سہولت اِتنے وسیع پیمانے پر میّسر نہیں تھی، جب کہ سی این جی گاڑیاں، گیزر وغیرہ تو تھے ہی نہیں۔ اگر اب 1935ء جیسا یا اس سے کم شدّت کا بھی زلزلہ آ یا، تو شہر میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوگی۔ خاص طور پر گیس، بجلی اور سی این جی سے ہونے والے نقصانات انتہائی زیادہ ہوں گے۔‘‘
اُنہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ’’ شہر سے 50کلو میٹر کے فاصلے پر غزہ بند میں ایک خطرناک فالٹ موجود ہے، جہاں 200 سال سے کوئی زلزلہ نہیں آیا، اس فالٹ پر کافی انرجی جمع ہو چُکی ہے، جب کہ کوئٹہ میں زلزلہ ری لوڈ ہو چُکا ہے، البتہ یہ بتانا مشکل ہے کہ کس وقت آسکتا ہے۔‘‘ پروفیسر ڈاکٹر دین محمّد کاکڑ کا کہنا ہے کہ’’ کوئٹہ کے علاوہ صوبے کا معروف تجارتی شہر، چمن بھی خطرات کی لپیٹ میں ہے۔ امریکا کی کولوراڈو یونی ورسٹی کے تعاون سے کوئٹہ میں مختلف مقامات پر آلات نصب کیے گئے ہیں، جن کی مدد سے ایکٹیو فالٹ کی موجودگی کا پتا چلا، جو تشویش ناک ہے۔مانا کہ شہر اور آبادی کا پھیلائو ناگزیر ہے، لیکن ہمیں بلڈنگ کوڈ کی سختی سے پابندی کرنی ہوگی۔‘‘
ایس پی ٹریفک، کوئٹہ سٹی، محمّد جاوید ملک کا خیال ہے کہ’’ صوبائی دارالحکومت میں غیر قانونی عمارات، پانی، صحت اور تعلیم کے مسائل اپنی جگہ،مگر اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک کا ہے۔ رہائشی علاقوں میں تجارتی مراکز‘ پلازوں ‘بلند عمارتوں اور دُکانوں کی تعمیر سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔پارکنگ پلازے نہ ہونے کی وجہ سے گاڑیاں سڑکوں کے اطراف پارک کر دی جاتی ہیں۔
گو کہ پلازوں کی تعمیر سے قبل منظوری کے لیے پارکنگ ایریا ظاہر کیا جاتا ہے، لیکن ان میں بمشکل پندرہ سے بیس گاڑیاں کھڑی ہو سکتی ہیں۔شہر میں تجاوزات کی بھرمار ہے، جس کے باعث پیدل چلنا محال ہے۔ سرکلر روڈ پر پارکنگ پلازا زیرِ تعمیر ہے، جب کہ باچا خان چوک پر مٹن مارکیٹ منہدم کر دی گئی، اُس پر بھی پارکنگ پلازے کی تعمیر کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ اگر یہ پلازے تعمیر کر دیے جائیں، تو وسطی علاقوں میں ٹریفک کا بہائو بہتر ہو سکتا ہے۔‘‘اُن کا مزید کہنا ہے کہ’’ وقت گزرنے کے ساتھ کوئٹہ کی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، لیکن شہر کے پھیلائو کا بندوبست کیا گیا نہ ہی سڑکوں کی توسیع پر توجّہ دی گئی۔
نواحی علاقوں سریاب، زرغون اور ایئرپورٹ روڈ کو تو کسی حد تک کشادہ کیا گیا، مگر وسطی علاقوں کی توسیع کے لیے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ اِسی طرح گزشتہ ایک دہائی کے دَوران گاڑیوں، رکشوں اور بسز کی تعداد میں اضافے سے معاملات گمبھیر ہوئے۔رہی سہی کسر بلڈنگ کوڈ کے خلاف عمارتوں کی تعمیر نےپوری کردی ۔ اگر سرکاری ملازمین، ڈاکٹرز، وکلاء یا سِول سوسائٹی کسی مسئلے پر احتجاج کرے، دھرنا دے یا ریلی نکال لے، تو شہر میں بدترین ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔ شہر میں چلنے والی گاڑیوں اور رکشوں کی تعداد 3لاکھ، موٹر سائیکلز کی تعداد چار لاکھ تک ہے۔جب کہ ان میں ہزاروں غیر قانونی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
ہم نے ضلعی انتظامیہ کو دو شفٹس میں رکشے چلانے کی تجویز دی ہے۔ رکشوں پر دو قسم کے رنگ کیے جائیں گے، ایک شفٹ علی الصباح سے دوپہر اور دوسری دوپہر سے رات گئے تک ہوگی۔ اس تجویز پر حکومت نے مثبت ردّ ِعمل کا اظہار کیا ہے، البتہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر مشاورت ہی سے کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ نیز، غیر قانونی رکشوں کے خلاف بھی آر ٹی اے سے مل کر کارروائی کی جا رہی ہے، لیکن یہ رکشے زیادہ تر اُن علاقوں میں چل رہے ہیں، جہاں ٹریفک پولیس کی نفری کم ہے یا سِرے سے ہے ہی نہیں۔ ہم نے ڈی سی کوئٹہ سے کہا ہے کہ پنجاب اور دیگر صوبوں سے رکشے لانے پر پابندی لگائی جائے۔غیر قانونی گاڑیوں کے خلاف بھی، جنہیں عام طور پر’’ کابلی‘‘ کہا جاتا ہے، کریک ڈائون کرتے رہتے ہیں اور چند ماہ کے دَوران ایسی سیکڑوں گاڑیاں کسٹم کے حوالے کی ہیں۔‘‘
محمّد جاوید ملک نے بتایا کہ کوئٹہ ماسٹر پلان بنایا گیا ہے، جس پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے، لیکن بہتری میں کچھ عرصہ لگے گا۔اُن کا کہنا تھا’’ہم نےتجویز دی ہے کہ بعض سرکاری دفاتر فوری طور پر شہر سے باہر منتقل کردیے جائیں، کیوں کہ اس اقدام کے بغیر ٹریفک کا دبائو کم نہیں کیا جا سکتا۔ علاوہ ازیں، نفری میں اضافے کے لیے اعلیٰ حکّام سے درخواست کی گئی ہے۔ اِس وقت ٹریفک پولیس کوئٹہ میں600کے قریب افسران اور اہل کار ہیں، جو 22لاکھ کی آبادی کے لیے ناکافی ہیں۔
ہم نے 1000مزید افسران اور اہل کاروں کی ڈیمانڈ کی ہے۔ حال ہی میں ٹریفک پولیس کے لیے 18گریڈ کی تین پوسٹس تخلیق کی گئی ہیں۔کئی مقامات پر ٹریفک سائن بورڈز نہیں ہیں، یا لگے ہوئے ہیں تو نشانات مِٹ چُکے ہیں، ہم نے میٹرو پولیٹن کارپوریشن سے کہا ہے کہ شہر کے مختلف مقامات پر ٹریفک سائن بورڈز لگائے جائیں۔ ابتدائی طور پر پانچ جگہ ٹریفک سگنلز نصب کیے گئے ہیں ۔‘‘ ایس پی نے مزید بتایا کہ’’ ٹریفک پولیس کو لاہور طرز پر استوار کرنے کے لیے پیپر ورک مکمل کر کے منظوری کے لیے وزیرِ اعلیٰ کو ارسال کیا گیا ہے۔
ہم نے تجویز دی ہے کہ ٹریفک وارڈنز سمیت دیگر عملہ براہِ راست بھرتی کیا جائے۔ نیز، اہل کاروں کو جدید خطوط پر تربیت دے کر ٹریفک مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے، کیوں کہ اِس وقت ڈسٹرکٹ پولیس سے جو نفری طلب کی جاتی ہے، اُن میں سے اکثر اہل کاروں کا مزاج ٹریفک سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔‘‘