ٹوکیو اولمپک2020 ء پاکستان کیلئے ڈرائونا خواب ثابت ہوا۔ سیول اولمپکس 1988 ء باکسنگ میں سلور میڈل حاصل کرنے والے حسین شاہ کا بیٹا میڈل حاصل نہ کرکے باپ کا ہم پلہ نہیں بن سکا۔ پوری پاکستانی قوم کو قوی امید تھا کہ اس بار شاہ حسین شاہ میڈل حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ ان کھیلوں میں شرکت کرنے والے کئی کھلاڑیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کھیلوں میں کھلاڑیوں کی تعداد کم جبکہ افیشلز کی تعداد زیادہ تھی۔ پاکستان کے’10ایتھلیٹس جبکہ11 آفیشلز کو سیر سپاٹے کا موقع ملا۔ پاکستان باکسنگ فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل ناصر محمود تنگ نے بھی اس دستے میں ایڈمن افسرکی حیثیت سے شرکت کی۔ پاکستانی باکسنگ اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔
اولمپکس میں پاکستان باکسنگ کا واحد تمغہ لیجنڈ حسین شاہ نے 1988 ء سیول میں جیتا تھا اس کے بعد سے پاکستانی باکسرز اولمپکس کیلئے کوالیفائی بھی کرنے میں ناکام رہے لیکن ٹوکیو اولمپکس میں حسین شاہ کو قوی امید تھی کہ ان کا بیٹا شاہ حسین شاہ جوڈو مقابلوں میں کارنامہ انجام دیتے ہوئے ان کی راہ پر چلتے ہوئے میڈل حاصل کرکے پاکستان اولمپکس کی تاریخ میں باپ بیٹے کے میڈل حاصل کرنے کا ریکارڈ قائم کرے گا لیکن بدقسمتی سے شاہ حسین شاہ اولمپک جوڈو مقابلوں کے پہلے ہی رائونڈ میں شکست کھا گئے۔
اولمپک مقابلوں میں شاہ حسین شاہ کی یہ دوسری نمائندگی تھی انہیں مسلسل دوسری بار کھیلوں میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ اولمپک کیلئے ان کی تربیت کی ذمہ داری ان کے والد حسین شاہ نے اپنے ذمہ لی تھی اور کھیلوں میں ایک سچے پاکستانی ہونے کی حیثیت سے اپنے بیٹے کو جاپان کے بجائے پاکستان کی نمائندگی کو ترجیح دی۔ سو کلو گرام کیٹگری میں شاہ حسین شاہ کا پہلے رائونڈ میں مقابلہ عالمی چیمپئن شپ کے برانز میڈلسٹ اور عالمی نمبر 13مصرکے رمضان درویش سے ہوا جس میں انہیں ناک آئوٹ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دونوں کھلاڑیوں کے درمیان مقابلہ 3 منٹ 9 سیکنڈ تک جاری رہا۔
بیٹے کی شکست کے بعد حسین شاہ کا جنگ سے باتیں کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میرے بیٹے نے دیار غیر میں رہتے ہوئے مختلف کھیلوں میں پاکستان کا پرچم بلند کیا اور عالمی مقابلوں میں اپنے والد کی وراثت کو برقرار رکھا۔ میری بڑی خواہش تھی کہ اولمپک میں شاہ حسین شاہ کامیابی حاصل کرتا اور میرے ہم پلہ ہوکر پاکستانی کھیلوں کا نیا ریکارڈ قائم کرتا لیکن بدقسمتی سے مقابلوں میں انہیں سخت ترین ڈراز کا سامنا کرنا پڑا جس میں کئی ٹاپ عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی شامل تھے۔
بہرحال مقابلے میں ایک کھلاڑی کو جیتنا اور دوسرے کو ہارنا ہوتا ہے۔ شاہ حسین شاہ کی قسمت میں جیتنا نہیں لکھا تھا اور میں قسمت کے لکھے کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ شاہ نے اولمپک کے آغاز سے کئی ماہ قبل جتنی محنت کی اس کو میں بیان نہیں کرسکتا۔ وہ ہارنے کے بعد کافی افسردہ تھا میں نے اس کی ہمت افزائی کی کہ کھیل میں ہوتا ہے۔ تم نے دو بار اولمپکس میں شرکت کرکے بھی میرا نام روشن کیا ہے۔