• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برباد بستی کے رہنے والے ہم لوگ بڑے خوش نصیب ہیں۔ سال کا کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا جب کوئی نامور شخص ہمارے ہاں مہمان بن کر نہیں آتا۔ کہتے ہیں کہ بھاگوانوں کے پاس مہمان آتے ہیں، میرا مطلب اچھی قسمت والوں کے پاس مہمان آتے ہیں۔ ایروں، غیروں نتھو خیروں کے پاس مہمان نہیں آتے۔ مہمانوں کو لبھانا پڑتا ہے، ان کی خاطر مدارات کرنی پڑتی ہے، آؤ بھگت کرنی پڑتی ہے، ان کی آمد پر ریڈ کارپٹ بچھائے جاتے ہیں، پھول نچھاور کئے جاتے ہیں، بچّے نئے کپڑے پہن کر رنگین رومال لہرا کر مہمانوں کا استقبال کرتے ہیں، گھر سجائے جاتے ہیں، رنگ برنگے قمقمے آویزاں کئے جاتے ہیں، رات میں روشنیوں سے دن کا سا سماں باندھا جاتا ہے، گلی، گلی میں محفلیں سجائی جاتی ہیں۔ ایسے میں کوئی کیوں نہ ہمارے پاس آئے۔ ہم پاکستان تو ہیں نہیں کہ ہم مہمانوں کے پیچھے مارے، مارے پھرتے رہیں اور مہمان ہم سے دور بھاگتے رہیں۔ کرکٹ ہو، ہاکی ہو، فٹبال ہو کوئی مہمان ٹیم پاکستان نہیں آتی۔ پاکستان میں کھیلنے کی بات سن کر اچھے، اچھے کھلاڑیوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ ایک مولانا صاحب کی حکمت عملی کی وجہ سے حاکموں اور طالبانوں کے درمیان غیر رسمی بات، چیت چل رہی ہے۔ گو کہ یہ مذاکرات خفیہ رکھے گئے ہیں مگر میرے لمبے ہاتھوں والے دوستوں کے توسط سے خفیہ مذاکرات کی ٹیپ مجھ تک پہنچ چکی ہے۔ خفیہ مذاکرات کی کہانی میری زبانی، میں بعد میں پھر کبھی آپ کو سناؤں گا۔ سردست میں آپ کو اتنا بتا دوں کہ حالیہ خفیہ مذاکرات میں حاکموں نے ہاتھ باندھ کر طالبان سے گزارش کی ہے کہ وہ آنے والے مہمان کی شان میں آؤ بھگت اور خاطر تواضع کے دوران بندوق کی نالیوں سے آگ نہ اگلیں۔ خوشی کی بات ہے کہ ایک شرط کے ساتھ طالبان نے حکومت کی استدعا قبول کر لی ہے۔ شرط یہ ہے کہ مہمان کی خاطر مدارات اور استقبال میں خواتین شامل نہیں ہوں گی۔ اگر خواتین کو آنے والے مہمان کی مہمان داری کرتے ہوئے دیکھا گیا تو ان کو بھون کے رکھ دیا جائے گا۔ اس دوران ٹیپ میں ایک جملہ ریکارڈ ہو گیا ہے۔ کسی نے کہا ہے ”مجھے بھنا گوشت اچھا لگتا ہے لیکن میں خواتین کو بھوننے کے حق میں نہیں ہوں“۔
مگر برباد بستی میں ہر مہینے بلاناغہ کوئی نہ کوئی مہمان آتا ہے۔ مہمان کو خوش آمدید کہنے کیلئے ہم لوگوں کو کسی سے مذاکرات کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ رجب علی خاص خیلی ہمارے ہاں سال میں ایک بار آتے ہیں۔ ہم کسی سے نہیں پوچھتے کہ ہم رجب کا استقبال کریں یا نہ کریں۔ شعبان خان ڈومیکی بھی سال میں ایک مرتبہ ضرور آتے ہیں۔ ہم باہیں کھول کر شعبان کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہمیں کسی سے اجازت لینی نہیں پڑتی۔ شکر ہے کہ ہم لوگ حکومت پاکستان نہیں ہیں۔ اگر ہم حکومت پاکستان ہوتے تو پھر ہمیں بھی طالبان سے اجازت لینی پڑتی کہ ہم کس مہمان کا استقبال کریں اور کس مہمان کو دھکّے دے کر باہر نکال دیں۔ سال میں ایک مرتبہ محرم علی بھی ہمارے ہاں ضرور آتے ہیں۔ ہم ان کو اپنے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور دل میں جگہ دیتے ہیں۔ ہمیں کسی سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ محرم کا ہم کیسے اور کس طرح استقبال کریں؟
آج جب آپ جھوٹ پر مبنی سراسر جھوٹا قصّہ پڑھ رہے ہیں ہمارے نئے مہمان رمضان خان ہمارے ہاں یعنی ہماری برباد بستی میں پہنچ چکے ہیں۔ ان کا ہم استقبال کیسے کریں؟ یہ بات ہمیں کسی سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی اس لئے کہ برباد بستی کے ہم لوگ حکومت پاکستان نہیں ہیں۔ سنا ہے کہ حکومت پاکستان کے ہاں آج کل ایک مہمان آئے ہوئے ہیں۔ اتفاقاً ان کا نام بھی ہمارے مہمان کی طرح رمضان ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ برباد بستی میں آئے ہوئے مہمان کا نام رمضان خان ہے اور حکومت پاکستان کے ہاں آئے ہوئے مہمان کا نام رمضان شریف ہے۔ آپ کی معلومات میں اضافہ کرنے کیلئے عرض کر دوں کہ رمضان شریف کی پاکستان کے وزیراعظم شریف اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شریف سے رشتہ داری نہیں ہے۔ رمضان شریف اور وزیراعظم شریف اور وزیراعلیٰ شریف اور عمر شریف اور بابرا شریف الگ، الگ قسم کے شریف ہیں۔ شریف ہونے کیلئے نامی گرامی شریفوں سے جان پہچان ضروری نہیں ہوتی۔ رمضان شریف کی آمد کا سن کر طالبان تیش میں آ گئے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی حکام پر واضح کر دیا ہے کہ رمضان شریف کی آمد، استقبال اور مہمان نوازی میں اگر خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور پیش پیش نظر آئیں تو ان کو بھون کے رکھ دیں گے۔ یہ بات جب دو چھوٹے بچّوں کے کانوں میں پڑی تو ان کے کان کھڑے ہو گئے۔ ایک بچّے نے دوسرے بچّے سے پوچھا ”بھائی، طالبان عورتوں کو بھونتے کیوں ہیں، کیا وہ بھنی ہوئی عورتوں کو کھا جاتے ہیں؟“
خدا کا لاکھ، لاکھ شکر ہے کہ خدا کی بستی اور اللہ کی بستی کے درمیان بسنے والی برباد بستی کے ہم لوگ کبھی بھی اس طرح کی صورتحال سے دوچار نہیں ہوئے۔ ہمارے ہاں محرم علی آئیں، شعبان بخت آئیں، رجب آرائیں آئیں، رمضان احمد آئیں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ ہاں ایک بات کا مجھے اعتراف ہے کہ جو آؤ بھگت رمضان کی ہوتی ہے ایسی آؤ بھگت محرم، شعبان، رجب اور دیگر مہمانوں کی نہیں ہوتی۔ برباد بستی کا بچّہ، بوڑھا مقروض ہو جاتا ہے لیکن بستی والے سحری اور افطار میں دسترخوان سجانے سے باز نہیں آتے بلکہ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ نئے جوتے، نیا لباس پہنے چھوٹے، بڑے گلی، کوچوں میں گھومتے رہتے ہیں۔ بستی کی سج دھج دیکھ کر کسی کو یقین نہیں آتا کہ یہ بستی فاقہ کشوں کی بستی ہے۔
رمضان کی روانگی کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کھانے پر ایک ماہ تک ٹوٹ پڑنے کی وجہ سے بستی کے کتنے لوگ پیٹ اور ہاضمے کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ سج دھج میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے میں اس قدر مقروض ہو جاتے ہیں کہ سال بھر قرض اتارتے رہتے ہیں۔ اس کام میں خواتین سب سے آگے ہوتی ہیں۔ طالبان ان کو بھون ڈالنے کی دھمکی نہیں دیتے کیونکہ برباد بستی کی عورتیں جلی، بھنی ہوتی ہیں۔
تازہ ترین