• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت: رؤف ظفر، لاہور

عکّاسی: عرفان نجمی

کام یاب زندگی ہر شخص کا خواب ہے اور انسان اِس خواب میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے صدیوں سے کوشاں ہے۔ متعدّد ریسرچ اسکالرز، دانش وَروں، مفّکرین، پبلک ا سپیکرز، مصنّفین اور دیگر ماہرین نے اپنی اپنی بساط کے مطابق کام یاب زندگی کے رازوں سے پردہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے۔ ان سب کی مساعی کا نقطۂ ماسکہ الجھنوں، رکاوٹوں اور مشکلات سے پاک ایک مطمئن، بھرپور اور خوش گوار زندگی کا سراغ لگانا ہے۔ 

ماضیٔ قریب میں اِن ہی ماہرین میں ایک اور ماہر کا اضافہ ہوا ، اور وہ ہیں موٹیویشنل، پبلک اسپیکر اور ٹرینر، سیّد قاسم علی شاہ، جو اپنی سحر انگیز تقاریر، تصانیف اور مشاورت کے ذریعے لوگوں میں جینے کا حوصلہ پیدا کرتے ہیں۔ مشکلات پر قابو پانے کے گُر سکھاتے ہیں کہ اب یہ سب امور ’’ٹریننگ انڈسٹری‘‘ کی شکل اختیار کر گئے ہیں اور آج پاکستان میں تیزی سے پھیلنے والے اِس شعبے سے درجنوں ماہرین وابستہ ہیں، تاہم اُن میں سیّد قاسم علی شاہ کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ 

2018ءمیں ایک سروے کے نتیجے میں اُنھیں پاکستان کا نمبر ون پبلک اسپیکر قرار دیا گیا، جب کہ اُن کی 5000سے زائد ویڈیوز، دنیا میں جہاں جہاں اُردو اور پنجابی بولی اور سمجھی جاتی ہے، دیکھی جارہی ہیں۔ 18، 20سال پہلے لاہور کے علاقے، گلشنِ راوی کے ایک 10مرلے کے مکان کے تنگ گیراج میں، ٹوٹی پھوٹی کرسیوں اور ہینگر سے لٹکے بورڈ کے ساتھ لیکچرز اور اکیڈمی کا جو کام شروع ہوا، وہ آج بین الاقوامی سرحدیں عبور کر چُکا ہے۔ آیئے، عزم و عمل کی یہ داستان خود سیّد قاسم علی شاہ ہی سے سُنتے ہیں۔

’’لوگوں کو جھوٹے خواب نہیں دِکھاتا‘‘
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: اپنے بچپن، تعلیم اور خاندان سے متعلق کچھ بتایئے؟

ج: میری پیدائش 25؍دسمبر 1980ء کو گجرات میں ہوئی، لیکن آنکھ لاہور میں کھولی کہ میری پیدائش کے فوراً بعد میرے والدین اور دادا، دادی لاہور کے علاقے، گلشنِ راوی شفٹ ہو گئے تھے۔ تعلیم کے تمام تر مراحل، پرائمری سے لے کر یونی ورسٹی تک لاہور ہی میں طے کیے۔ مَیں اِس لحاظ سے خوش قسمت ہوں کہ مجھے والدین کے علاوہ دادا دادی، نانا نانی کا بھی پیار ملا۔ والد واپڈا میں کلرک تھے۔ خاندان متوسّط درجے کا تھا۔ 

بچپن کی یادوں میں دادا کا پیار سب پر حاوی ہے۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے، جس پر دوسرے بہن، بھائی رشک کرتے۔ دادا، جو سابق فوجی تھے اور دوسری جنگِ عظیم میں بھی حصّہ لے چُکے تھے، مجھے سُپرمین بنانا چاہتے تھے۔ اُن میں جذبۂ حبُ الوطنی کُوٹ کُوٹ کر بَھرا ہوا تھا۔ وہ 1971ء میں صوبیدار میجر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ وہ اصولوں کے بہت پابند اور میرے آئیڈیل تھے۔ شاید میرا ذہن، میرے لاشعور میں اُن کی شخصیت کا پرتو انڈیل رہا تھا۔

س: کیا بچپن میں شرارتی یا بہت باتونی تھے، جس کا نتیجہ آج دیکھنے میں آرہا ہے؟

ج: اکثر لوگ یہی سمجھتے ہیں، لیکن آپ یہ سُن کر حیران ہوں گے کہ مَیں بچپن میں بہت خاموش طبع، ڈرپوک اور اپنے آپ میں گم رہنے والا، شرمیلا اور سہما سہما سا لڑکا تھا۔ اُن ایّام، بلکہ دسویں، گیارہویں جماعت تک، مجھے تقریر کرنے کا کوئی واقعہ یاد نہیں۔ میری حالت تو یہ تھی کہ چوتھی کلاس میں میرے ہاتھ سے جیومیٹری باکس دُور جا پڑا، جسے ایک لڑکے نے اُٹھا لیا، لیکن مجھ میں اِتنا حوصلہ اور ہمّت نہ تھی کہ اُس لڑکے سے اپنا باکس واپس مانگ لیتا۔ چناں چہ دوسرے روز والدہ اسکول آئیں اور میرا باکس لے کر دیا۔ مَیں ہر وقت اپنے تصوّرات میں گم رہتا۔ مجھے کھیلوں سے بھی کوئی دِل چسپی نہ تھی۔

س: تعلیمی میدان میں کیسے تھے؟

ج: مجھے آپ بلامبالغہ نالائقی کا سرٹیفکیٹ دے سکتے ہیں، کیوں کہ مَیں 8ویں تک ہمیشہ رعایتی نمبرز سے پاس ہوتا رہا۔ اسے مشروط پاس ہونا بھی کہہ سکتے ہیں کہ میرے والدین ہر سال اساتذہ سے وعدہ کرتے کہ اِس بار بچّے کو پاس کر دیں، اگلے سال محنت کرکے پاس ہو جائے گا۔ یہ سلسلہ 9ویں تک جاری رہا، البتہ میری ڈرائنگ اچھی تھی اور تصوّرات( Imagination )کی قوّت بھی تھی، لیکن رٹّا لگانے میں ناکام تھا۔ آج بھی یادداشت کی بنیاد پر کئی کئی گھنٹے لیکچر دیتا ہوں۔ مَیں بچپن میں تصوّرات کے ذریعے چیزوں کو اچھی طرح سمجھ سکتا تھا، لیکن رٹّا لگانا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ 

ممکن ہے، یہ سلسلہ چلتا رہتا اور مَیں ہمیشہ کے لیے نالائق قرار پاتا، مگر اِس دَوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے میری زندگی بدل دی۔ مَیں نویں کلاس کا طالبِ علم تھا اور اساتذہ کی طرف سے والدین کو دی گئی وارننگ کی ڈیڈ لائن قریب تھی۔ ہوا یوں کہ والد صاحب نے گرمیوں کی چُھٹیوں میں استطاعت نہ ہونے کے باوجود میرے لیے ایک ٹیوٹر کا بندوبست کر دیا تاکہ مَیں پڑھائی میں کمی بیشی دُور کر سکوں۔ یوں مَیں اپنی زندگی کے سب سے بڑے محسن، سَر منصور سے متعارف ہوا، جن کی مجھے آج بھی تلاش ہے۔ اُنہوں نے گھر آ کر مجھے پڑھانا شروع کر دیا۔ گو کہ اُنہیں فزکس اور ریاضی تو بس واجبی سی آتی تھی، لیکن اُن میں ایک اور ہنر تھا، جو سب پر حاوی تھا۔ 

وہ یہ کہ اُنہیں شاگردوں کو شاباشی دینا آتی تھی۔ اُنہوں نے مجھے ایک بار بھی نہیں ڈانٹا، بلکہ شفقت بانٹی۔ وہ کہتے’’مَیں نے تمہیں یہ مختصر سا سبق دے دیا ہے، بس اب تم نے اسے ذہن میں بِٹھانا ہے۔‘‘ٹیوشن کے دَوران ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ گھر کے ایک کمرے میں پی ٹی وی پر اسٹرنگز گروپ کا ایک گیت چل تھا،’’سَر کیے یہ پہاڑ‘‘، جب آواز مجھ تک پہنچی، تو میری توجّہ سبق سے ہٹ کر گانے پر مرکوز ہو گئی۔ سَر منصور فوراً بھانپ گئے۔ اُنہوں نے کہا’’کیا ہوا ہے؟‘‘ مَیں نے کہا’’سَر یہ گانا مجھے بہت اچھا لگتا ہے‘‘۔ 

اُنہوں نے بالکل مائنڈ نہیں کیا، بلکہ مُسکراتے ہوئے کہا،’’ کوئی بات نہیں۔ ایسا کرو، پہلے اندر جا کر گانا سنو، پھر اِدھر آجانا۔ ہم پھر سے پڑھائی شروع کر دیں گے۔‘‘ مَیں اندر گیا، پورا گانا سُنا اور پھر ہم نے دوبارہ پڑھائی شروع کی۔ اُنہوں نے مجھے چار ماہ پڑھایا اور مَیں نے بھی خُوب دِل لگا کر محنت کی۔ اُن کی شاگردی میں مجھے عجیب سا سکون ملتاتھا۔ ایک روز اُنہوں نے کہا،’’ قاسم! مجھے دُبئی میں ایک جاب مل گئی ہے، یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔ بس، تم نے حوصلہ نہیں ہارنا۔ دل لگا کر پڑھنا اور اچھے نمبرز سے پاس ہونا ہے۔‘‘ یہ سُن کر میرے حوصلے بلند ہو گئے اور جب میٹرک کا رزلٹ آیا، تو مَیں صرف پاس نہیں، بلکہ بہت اچھے نمبرز سے پاس ہوا تھا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کام یابی کا ذائقہ ایک ایسی چیز ہے، جیسے شیر کے منہ کو خون لگ جائے۔ آپ کو داد، توصیف، تعریف، شاباشی ملنے کی دیر ہے کہ اندر کا شیر جاگ اٹھتا ہے۔ سَر منصور چلے گئے، لیکن مَیں نے اُس کے بعد پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ مَیں نے رٹّا نہیں لگایا، بلکہ اپنی تصوّراتی قوّت کو استعمال کیا، جو میرے اندر موجود تھی۔ مَیں اب اساتذہ کو یہی بات کہتا ہوں کہ ہر بچّہ صرف کان سے نہیں سیکھ سکتا، ہم بچّوں کو رٹّا لگوانا چاہتے ہیں، جب کہ اب دنیا میں ’’ہول برین ٹیچنگ‘‘کا تصوّر آ گیا ہے۔ یعنی استاد صرف رٹّا نہیں، ہر ممکن تیکنیک استعمال کرکے بچّوں کی اندرونی صلاحیتیں اجاگر کرسکتا ہے۔

س: شاید یہیں سے آپ نے استاد بننے کا فیصلہ کیا؟

ج: مجھے بچپن ہی سے پڑھانا اچھا لگتا تھا۔ میرے نزدیک ،دنیا کی سب سے بڑی فن کاری ایک استاد ہونا ہے، جو کسی کم تر علم والے کے ذہن میں اُس کے لیول پر آ کر اپنا علم اُس کے اندر اُنڈیلتا ہے۔ وہ شاگرد کا ہاتھ پکڑ کر اوپر لاتا ہے۔ اگر میرے اندر محرومی نہ ہوتی، تو مَیں استاد نہ ہوتا۔ آپ نے جب تک بھوک نہ دیکھی ہو، اُس کے درد کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ اپنے زمانۂ طالبِ علمی کے دَوران مجھے اپنے اندر جو خامیاں نظر آئیں، مَیں نے اُن کی بنیاد پر ویڈیوز بنائیں، تو پتا چلا کہ یہ صرف میرا نہیں، لاکھوں ،کروڑوں افراد کا مسئلہ ہے۔

س: کالج کا زمانہ کیسا رہا؟

ج: مجھے دسویں جماعت میں محنت اور پھر کام یابی کا جو چسکا پڑا، وہ آگے چل کر برقرار رہا۔ کالج کا زمانہ بھی سخت محنت کا دَور تھا۔ ہم معاشی طور پر کوئی زیادہ خوش حال نہیں تھے، بس گزارہ ہوجاتا تھا، تو مَیں نے سیکنڈ ایئر میں ایک کلاس جونیئر طلبہ کو پڑھانا شروع کر دیا۔ مقصد یہ تھا کہ چلو کچھ نہ کچھ پیسے مل جائیں۔ ویسے بھی میرے اندر معلمی کا پودا پروان چڑھنے لگا تھا۔ میری ریاضی اچھی تھی اور پھر مجھے ’’سَر‘‘ کہلوانے میں جو سرور ملتا، اُس کی بات ہی الگ تھی۔

تصوّر کیجیے، آپ کسی بڑے افسر کے پاس کام سے گئے اور وہ یہ کہتے ہوئے اُٹھ کر آپ کے لیے کرسی خالی کردے کہ’’سَر! مَیں نے آپ سے فلاں مضمون پڑھا ہے۔‘‘ کوئی راہ چلتی بڑی شخصیت آپ کو جُھک کر ملے یا جیسا کہ مَیں نے ایک ویڈیو میں دیکھا کہ تُرکی میں ایک طیّارے نے اُڑان بَھری، تو تھوڑی دیر بعد پائلٹ نے اعلان کیا کہ اِس طیّارے میں ایک بہت بڑی شخصیت سفر کر رہی ہے اور وہ اسے گل دستہ پیش کرنے والے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد پائلٹ آیا اور ایک معمّر شخص کو پھول پیش کیے، اُس کے ہاتھوں کا بوسہ لیا۔ معلوم ہوا یہ شخص اُس پائلٹ کا استاد رہ چُکا تھا۔ اس پر پورا طیّارہ تالیوں سے گونج اُٹھا۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ استاد اگر واقعی مخلص ہو، تو اُس کی عزّت کسی پِیر سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔

س: آپ کو استاد ہونے کی حیثیت سے کتنی عزت و توقیر ملی؟

ج: اِتنی کہ بتا نہیں سکتا۔ میری عُمر اِس وقت ساڑھے اکتالیس سال ہے، لیکن مجھ پر میرے شاگردوں نے 5کتابیں لکھ دی ہیں، جن میں سے ایک انگریزی میں ہے۔’’EVENING RIDES WITH MY GURU‘‘ابوبکر ظہور نے لکھی ہے اور اس کا اُردو ترجمہ یونی ورسٹی آف گجرات نے شایع کیا ہے۔ اِسی طرح مَیں نے اپنے کیریئر کے دَوران لوگوں کو سیر و سیّاحت کی طرف بھی راغب کیا۔ میرا یہ کیریئر 2017، 18 اور 19ء تک محیط ہے۔ 

مَیں پورا جہاز چارٹر کرکے ازبکستان، تُرکی اور مِصر لے گیا، جس پر مجھے’’ ٹورازم ایمبسیڈر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ میرے ہم سفروں نے مجھ پر دو، تین کتابیں بھی لکھیں۔ ان میں عامر الطاف بھی شامل ہیں۔ اِسی طرح ایک ریسرچر، شبّیر خاں نے یہ کمال کیا کہ مجھ پر اب تک جو کچھ لکھا اور بولا گیا تھا، اُسے 400صفحات کی کتاب میں’’ ایک فرد، ایک تحریک‘‘ کے عنوان سے جمع کر دیا۔ یعنی استاد ہونے کی حیثیت سے، جن لوگوں کے لیے مَیں کسی تحریک، حوصلے اور کام یابی کا باعث بنا، اُنہوں نے مجھ پر قلم اُٹھایا۔

س: تدریس کے سفر کا باقاعدہ آغاز کب اور کیسے ہوا؟

ج: ٹیچنگ کی زرخیر مٹّی تو میرے اندر شاید بچپن سے موجود تھی، تاہم اس کی صحیح معنوں میں آب یاری اور نشوونما، کالج کے زمانے میں ہوئی، جب جونیئر طلبہ اور بچّوں کو پڑھانے کےلیے 10مرلے کے گھر کے گیراج میں’’ قاسم علی شاہ اکیڈمی‘‘ کے نام سے ایک ٹیوشن سینٹر کھولا۔ مجھے یاد ہے، چند خستہ کرسیاں، گیراج کے باہر ایک ہینگر سے لٹکتا چھوٹا سا بورڈ اور چند طلبہ،یہ سینٹر کا کُل اثاثہ تھے۔ مَیں بچّوں کو میتھس اور فزکس پڑھاتا تھا۔

ہر سال بچّوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہونے لگا اور جب بچّے گیراج میں نہ سما سکے، تو گھر کے ڈرائنگ روم کو والدہ کی اِس شرط پر سینٹر میں شامل کر لیا کہ جب بچّے چلے جایا کریں، تو مَیں صفائی کرکے فرنیچر وغیرہ کو دوبارہ سیٹ کردوں گا۔ آہستہ آہستہ میرے ساتھ اساتذہ کی ایک ٹیم بن گئی اور بچّوں کی تعداد دو، تین سالوں میں 400سے تجاوز کر گئی۔

’’لوگوں کو جھوٹے خواب نہیں دِکھاتا‘‘
نوجوانی کی ایک یادگار تصویر

س: اُس علاقے میں تو بہت سی اور اکیڈمیز بھی تھیں۔ آپ کی اکیڈمی کی کیا انفرادیت رہی؟

ج: بلاشبہ وہ علاقہ اکیڈمیز سے بَھرا ہوا تھا، لیکن مَیں سمجھتا ہوں، میری کام یابی کی وجہ میرا اخلاص اور لگن تھی۔ مَیں ایک اور کام بھی کرتا تھا، وہ یہ کہ ہر تدریسی لیکچر کے اختتام پر اخلاقیات اور اصلاحِ معاشرہ پر ایک مختصر لیکچر دیتا، جیسے باہمی میل جول، والدین کا مقام، اچھی صحبت وغیرہ۔ ایک بار بچّوں کو ماں کی محبّت پر لیکچر دیا اور بتایا کہ ماں کتنا قیمتی موتی ہے۔ اگلے روز کئی مائیں اکیڈمی آگئیں۔ ایک نے کہا’’ یہ ٹھیک ہے کہ ریاضی تو تم بچّوں کو پڑھا ہی دیتے ہو، لیکن یہ کل تم نے کیا پڑھا دیا کہ میرا بیٹا گھر آکر میرے گلے لگ کر رونے لگ گیا۔‘‘ 

کئی مائوں نے بتایا کہ اُن کے بیٹے راستے سے پھول لے کر گھر گئے،حالاں کہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ مجھے اُس وقت علم نہیں تھا کہ میرے لیکچر کے آخری دس منٹ میری پہچان بن جائیں گے۔ اُس روز مجھے احساس ہوا کہ میرے اندر ایک’’ Motivational Lecturer ‘‘یعنی تحریک پیدا کرنے والا معلّم پوری طرح بیدار ہو چُکا ہے۔اگر آپ میرے لیکچرز کی کام یابی اور اثر انگیزی کی وجہ پوچھیں، تو وہ صرف یہی ہے کہ مَیں لوگوں کو جھوٹے خواب نہیں دِکھاتا اور روایتی لیکچرز سے ہٹ کر بات کرتا ہوں۔میری باتیں لوگوں کو اپنی ذاتی زندگی کی باتیں لگتی ہیں۔ 

سادہ زبان میں کہوں، تو میرے لیکچرز صرف 12,10 اخلاقی باتوں ہی کے گرد گھومتے ہیں، جن میں ہر شخص کو اپنی زندگی نظر آتی ہے۔ والدین کے ادب کے بارے میں سُنیں، یہ میری اپنی رُوداد ہے، لیکن اُس میں جھانکیں، تو ہر شخص کو اپنی رُوداد لگے گی۔ اُس وقت میری عُمر37 برس تھی اور والد کبھی میرے گلے نہیں لگے تھے۔ میرا بیٹا میرے قد کے برابر ہے، وہ مجھ سے گلے ملتا تھا۔ مَیں نے سوچا، اپنے والد صاحب کو بھی گلے لگانا چاہیے، تو ایک روز کہا’’ ابّاجی، آپ سے گلے ملنا ہے۔‘‘ والدہ بھی پاس بیٹھی تھیں۔ والد صاحب نے کہا’’ابھی پچھلی عید پر تو ملے تھے۔‘‘ مَیں نے کہا’’ وہ تو سائیڈ سے ملے تھے، مَجھے سامنے سے ملنا ہے۔‘‘ وہ اُٹھ کھڑے ہوئے، مَیں نے اُنہیں گلے لگایا اور5 منٹ تک یونہی لپٹا رہا۔مجھے ایسے لگا، جیسے اندر ہانڈی اُبل رہی ہو۔ 

وہ رو رہے تھے، پھر پنجابی میں بولے،’’جَھلیا (بے وقوف) اِینی ٹھنڈ پئی ہے۔مینوں پہلے کیوں نہیں گَل لایا۔ اِنّی دیر کیوں کیتی۔‘‘ مَیں نے سوچا، کتنی دنیا ایسی ہے، جو ایسی ہی ٹھنڈ چاہتی ہے، لیکن ساری عُمر گزر جاتی ہے اور وہ اس سے محروم رہتے ہیں۔ ذرا سوچیے، کیا یہ ہم میں سے اکثر لوگوں کی داستان نہیں۔ بس مَیں صرف انہی محرومیوں کی بات کرتا ہوں، جو ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر بکھری پڑی ہیں، لیکن ایک ٹرینر ان محرومیوں کی صرف نشان دہی نہیں کرتا، محرومیوں کے گرداب سے نکلنے اور جینے کا حوصلہ بھی پیدا کرتا ہے۔ والد صاحب سے متعلق ایک اور واقعہ بھی سناتا چلوں، اس آئینے میں بھی ہر شخص کو اپنی صُورت دکھائی دے گی۔

میرا یہ احساس ہے کہ والدین چاہے ساتھ ہی کیوں نہ رہتے ہوں، اُن میں اور بچّوں میں ایک اَن دیکھا سا گیپ ضرور ہوتا ہے، جسے پُر کرنے کے لیے عملی قدم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے درمیان بھی یہ خلا موجود تھا، لیکن میں اسے پُر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ مَیں نے دنیا میں جتنے سفر کیے، والد صاحب ساتھ رہے۔ کئی لمحات ایسے آئے، جب مَیں نے اُن کی آنکھوں میں نمی اُترتی دیکھی۔ والد صاحب بچپن میں مجھے سائیکل کی کاٹھی پر بٹھا کر واپڈا ہائوس لے جاتے اور پیسٹری ضرور کِھلاتے۔ ڈیڑھ، دو سال پہلے کی بات ہے۔ ابّا جان بطور کلرک ریٹائر ہو چُکے تھے۔ مَیں نے کہا’’ابّا جی! آپ نے آج میرے ساتھ واپڈا ہائوس جانا ہے۔‘‘ 

اُنہوں نے کہا،’’ وہاں کیا کام پھنس گیا ہے؟‘‘ مَیں نے کہا،’’ بس، آپ کار میں بیٹھیں۔‘‘ اُنہوں نے پوچھا،’’ پُتر! انٹری کروائی ہے، وہاں ہر ایک کو جانے نہیں دیتے۔‘‘ مَیں نے کہا،’’ آپ گاڑی میں بیٹھیں تو سہی۔‘‘ ہم جُوں ہی واپڈا ہائوس پہنچے، وہاں کے دروازے کُھلنے شروع ہوگئے۔ واپڈا ہائوس کے سربراہ گل دستے لیے ہمارے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ مَیں نے ابّا جان کو بتایا کہ ’’مجھے آج یہاں 16 اور 17 گریڈ کے افسران کو لیکچر دینا ہے۔ آپ نے سب سے اگلی قطار میں بیٹھنا ہے۔‘‘ پورے ہال میں میرے والد کے علاوہ کوئی اور کلرک موجود نہیں تھا۔ والد صاحب کبھی مجمعے کو دیکھتے اور کبھی مجھے۔ اُنہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے، لیکن جب ہم گھر پہنچے، تو اُنہوں نے نم ناک آنکھوں سے کہا،’’ پُتر اَج وصولی ہوگئی۔‘‘ ذرا سوچیے، ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں، جو والدین کو یہ کہنے کا موقع فراہم کریں کہ’’بیٹا! آج وصولی ہوگئی ہے۔‘‘

س: آپ زندگیوں کو کام یاب بنانے کی بات کرتے ہیں، آپ کے نزدیک کام یابی کا کیا معیار ہے؟

ج: کام یابی ایک Relative اصطلاح ہے۔ ہر شخص کے نزدیک کام یابی کا معیار مختلف ہے۔ ایک غریب شخص سوچتا ہے کہ اگر وہ دولت مند ہو جائے، تو زندگی کام یاب کہلائے گی۔ جب کہ کسی دولت مند شخص کے خواب کچھ اور ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک کام یاب شخص وہی ہے، جو دوسروں کے لیے نفع بخش ہو۔ اصل میں محرومیوں کو اپنی طاقت بنانا ہی کام یابی ہے۔ مَیں معاشی کام یابی کو کام یابی نہیں مانتا۔ میرے نزدیک، اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے معاشرے کی بہتری کے لیے بہترین نتائج دینا کام یابی ہے۔ 

حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ’’ تم میں سب سے بہتر انسان وہ ہے، جو دوسروں کو فائدہ دینے والا ہو۔‘‘ اگر آپ نفع دینے والے شخص بن گئے ہیں، تو سمجھ لیجیے، آپ نے زندگی کی معراج کو پالیا۔ صرف اپنے لیے کام یاب ہونا، ناکامی ہے۔ اگر آپ نے صرف اپنے لیے اکٹھا کیا ہے، تو آپ کے لیے اِس سے بڑی سزا اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے دنیا میں چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ تو کیا اس سے بہتر یہ نہیں کہ اسے خرچ کر کے دنیا سے رخصت ہوں۔ ہم میں سے اکثر لوگ اپنے آپ کو خوش اور مطمئن کرنا نہیں سیکھتے،حالاں کہ اطمینانِ قلب کا سفر کمال کا ہے۔

’’لوگوں کو جھوٹے خواب نہیں دِکھاتا‘‘
سیّد قاسم علی شاہ کے والدین ایک تقریب کا افتتاح کرتے ہوئے

س: یونی ورسٹی کی تعلیم درمیان میں چھوڑنے کا کیا قصّہ ہے؟

ج: یہ 2000ء کا ذکر ہے مَیں یو ای ٹی میں پڑھ رہا تھا۔ تیسرے سال میرے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے زندگی کا رُخ ہی بدل دیا۔ مجھے اُس زمانے میں ایک کتاب ملی، جس کا نام تھا ’’کرن کرن سورج‘‘، اُس میں سیکڑوں اقوال درج تھے۔ وہ اقوال واصف علی واصف کے تھے، جن سے مَیں کبھی نہ مل سکا، لیکن اُن کے جملوں نے میری زندگی بدل دی۔ مَیں نے رات بھر میں نہ صرف کتاب ختم کردی، بلکہ دوسرے روز کتاب واپس کرنے کے ڈر سے پوری کی پوری کتاب نقل بھی کرلی۔ یوں میرے پاس دو کتابیں ہوگئیں۔ یہ اور بات کہ دوست نے وہ کتاب مجھے عطیہ کردی۔

کتاب کے ہر جملے میں علم و آگہی کا ایک سمندر موج زن تھا۔ جیسے’’ جوانی ہاتھ سے یوں اُڑ جاتی ہے، جیسے منہدی کا رنگ‘‘،’’ اللہ کا کرم ہے کہ اُس نے ہمیں بھولنے کی صفت دی، ورنہ ایک غم ہمیشہ کے لیے غم بن جاتا‘‘،’’ آپ برداشت کرنا اور معاف کرنا سیکھ جائو، تو ڈیپریشن ختم ہو جائے گا۔‘‘ اُن کے اِس طرح کے جملے میری زندگی کی پریکٹس بن گئے۔ یہ کتاب میرے لیے ایک تحریک ثابت ہوئی۔ اُن دنوں عید نزدیک تھی، والد صاحب نے کپڑوں کی خریداری کے لیے پیسے دیے، تو مَیں کپڑوں کی بجائے انارکلی کے بُک اسٹورز سے واصف صاحب کی 8,7 کتابیں لے آیا، جس پر مجھے گھر والوں سے ڈانٹ بھی پڑی۔ 

واصف صاحب کا لٹریچر جوانی میں ہی میرا مزاج بن گیا۔ بہرحال، مَیں یونی ورسٹی میں خود پڑھنے کے ساتھ جونیئر کلاس کے طلبہ کو فزکس، کیمسٹری، میتھس بھی پڑھا رہا تھا۔ یہی وہ دن تھے، جب مَیں نے فیصلہ کرلیا کہ ایک انجینئر بننے یا طلبہ کو فزکس، کیمسٹری پڑھانے کی بجائے عملی زندگی کا سبق پڑھائوں گا۔ اس موضوع پر مَیں نے ایک کتاب بھی لکھی، جس کا عنوان’’ ٹیچر سے ٹرینیز تک‘‘ہے۔ یوں میں انجینئرنگ سے پبلک موٹیویشنل اسپیکر، کاؤنسلر اور لائف کوچ بن گیا۔ قدرت نے فزکس، کیمسٹری جیسے مضامین لے کر مجھے زندگی کے مضمون کا استاد بنا دیا۔ وہ استاد، جو خواب دیکھنا سِکھاتا ہے۔ فیصلے کرنے کی ہمّت دیتا، ارادوں کو مضبوط بناتا ہے، خود پر اور اللہ پر یقین کو پختہ کر دیتا ہے اور زندگی میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ، دل و دماغ میں پلانٹ کر دیتا ہے۔

س: انجینئرنگ یونی ورسٹی چھوڑنے اور انجینئر نہ بننے کے فیصلے پر تنقید نہیں ہوئی؟

ج: بہت ہوئی۔ یار دوستوں نے کہا’’ تم انجینئر نہ بن کر بہت بڑی غلطی کررہے ہو۔‘‘ لیکن میرا ایک ہی جواب تھا کہ’’ وقت ثابت کرے گا کہ میرا فیصلہ غلط ہے یا صحیح۔‘‘ میرا کہنا تھا کہ منزل پر پہنچ کر بس نہیں بدلنی چاہیے۔ والدین الگ پریشان تھے کہ ایک انجینئر بیٹا ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔

س: پھر وقت نے کیا ثابت کیا؟

ج: چند سال بعد مَیں اسی یونی ورسٹی میں بطور گیسٹ اسپیکر مدعو تھا اور 1400 طلبہ میرے سامنے موجود تھے۔ مَیں اُس وقت پبلک اسپیکر کے طور پر خاصا معروف ہو چُکا تھا اور میرے موٹیویشنل لیکچرز پورے مُلک میں مقبول ہو رہے تھے۔ مَیں نے ہال میں موجود طلبہ میں اپنی 1400 کتابیں مفت تقسیم کیں اور کہا’’ مَیں نے واپس پلٹ کر قرضہ اُتارنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ 

کچھ عرصے بعد میری فائونڈیشن نے یونی ورسٹی کے 50 مستحق طلبہ میں اسکالر شپس دینے کا اعلان کیا۔ ایک اور بات، گلشنِ راوی میں جب انجینئرنگ یونی ورسٹی کی بس طلبہ کو لینے آتی ہے، تو یہ دیکھ کر مجھے فخر ہوتا ہے کہ اُس میں علاقے کے90 فی صد طلبہ میری اکیڈمی میں مجھ سے پڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔

س: یونی ورسٹی چھوڑنے کے بعد آپ نے کیا کیا؟

ج: مَیں نے پہلے گریجویشن اور پھر ایک نجی یونی ورسٹی سے ہیومن ریسورس ڈیلولپمینٹ سے ایم بی اے کیا۔ پڑھانے کا سلسلہ جاری رہا، اسی دوران 2008ء میں ایک اخبار کے لیے لکھنا شروع کردیا۔ یوں زبان کے ساتھ قلم بھی میرا ہم سفر بن گیا۔ ایک اخبار کے یوتھ پیج میں مضامین کا سلسلہ 2013ء تک جاری رہا۔ میری اکیڈمی میں بچّوں کی تعداد 400سے بڑھ گئی، تو پھر اسے ایک مستقل بڑے ادارے کی شکل دے دی، جو آج بھی سرگرمِ عمل ہے۔ 2008ء میں میری پہلی کتاب’’کام یابی کا پیغام‘‘ شایع ہوئی اور پھر یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ اب تک 13کتابیں لکھ چُکا ہوں اور کئی آنے والی ہیں۔

س: کیا اشفاق احمد کی کتابیں بھی پڑھیں؟

ج: جی پڑھی تو ہیں، لیکن مَیں زیادہ متاثر واصف صاحب ہی سے تھا۔ اشفاق احمد مکالموں کی ڈیلیوری اور ایکسپریشن کے بادشاہ تھے، لیکن واصف صاحب کی باتیں گہرائی میں جواب نہیں رکھتیں۔ یعنی نفسِ مضمون (Content) بہت جان دار ہے۔ مثلاً ایک سوال پوچھا گیا’’ کیسے پتا چلے کہ اللہ آپ سے راضی ہے؟‘‘ اُن کا ایک سطر کا جواب ہے ’’جتنا تم اللہ سے راضی ہو، اللہ اتنا تم سے راضی ہوگا۔‘‘ ایسے سیکڑوں جملے ہیں۔ واصف صاحب کے لٹریچر نے مجھے زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔

س: پہلا باقاعدہ موٹیویشنل لیکچر کب دیا؟

ج: یہ سلسلہ بھی 2008ء میں شروع ہوا۔ مَیں نے پہلی بار ایک سرکاری ادارے میں اعلیٰ افسران کو لیکچر دیا۔ موضوع اخلاقی تربیت، تعمیرِ شخصیت اور خود شناسی تھا۔ اُس وقت میری عُمر 28 سال تھی، پھر دوسرا باقاعدہ لیکچر ایک اور سرکاری ادارے’’ MPTDC ‘‘میں تھا۔ پہلی بار تو مجھے یوں لگا، جیسے کسی نے تیراکی سے نابلد شخص کو سمندر میں دھکیل دیا ہو، لیکن پھر میرا خوف اور ڈر ایسا کُھلا کہ مجھے مزہ آنے لگا اور یہ لیکچرز میری زندگی کا حصّہ بن گئے۔ پھر حکومتی، نجی کاروباری اداروں، کارپوریٹ انسٹی ٹیوشنز، اسکولز، کالجز، یونی ورسٹیز، ٹی وی چینلز اور یوٹیوب وغیرہ پر لیکچرز دینا میرا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔

س: اب تک کتنی ویڈیوز ریکارڈ ہوچُکی ہیں؟

ج: تعداد تو یاد نہیں، لیکن گزشتہ 5،6 سالوں میں 5000 سے زاید ویڈیوز کا ریکارڈ تو موجود ہے، جو دنیا بھر میں دیکھی جارہی ہیں۔مجھے فخر ہے کہ اِس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والے موٹیویشنل اسپیکرز میں مَیں سرِفہرست ہوں۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ 2017ء میں ایک تربیتی ادارہ’’ قاسم علی شاہ فائونڈیشن‘‘ قائم کیا، جو نسلِ نو کے لیے کام کررہا ہے۔ اِس فائونڈیشن میں مختلف موضوعات پر ورکشاپس، سیمینارز اور سیشنز منعقد کیے جاتے ہیں۔ اسی پلیٹ فارم سے پنجاب کے مختلف اضلاع میں سیشنز اور سیمینارز کا بھی انعقاد ہوتا ہے، جن کا بنیادی مقصد خود شناسی اور کام یابی کا پیغام عام کرنا ہے۔ 

واضح رہے، خود شناسی زندگی میں ترقّی و خوشی کے لیے ضروری ہے۔ میرے دیگر لیکچرز عام طور پر لیڈر شپ خصوصیات، کمیونی کشن اسکلز، کام اور زندگی میں توازن، ذہنی دبائو کی مینجمنٹ وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ جہاں تک میرے ناظرین کا تعلق ہے، تو ایک محتاط سروے کے مطابق ان میں 72 فی صد مرد، 27 فی صد خواتین شامل ہیں، جب کہ عُمر کے اعتبار سے 6.2 فی صد 13 سے 17 سال کی عمر کے، 34 فی صد 16 سے 24 سال، 30 فی صد 25 سے 34سال، 16.4 فی صد 35 سے 44 سال، 8.2 فی صد 45 سے 54سال اور 3.2 فی صد 55 سے 64 سال کے لوگ مجھے سُنتے ہیں۔

س: زندگی کے درجنوں شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو محدود اور یک ساں نوعیت کے موضوعات پر لیکچر دینا کیسے مؤثر ہوسکتا ہے؟

ج: اِس معاشرے میں رہنے والوں کے بیش تر مسائل ایک ہی نوعیت کے ہیں، اِس لیے ہر شخص کو میری بات اُس کی اپنی بات ہی لگتی ہے، لیکن ہم ٹرینر اور پبلک اسپیکرز، سامعین اور ناظرین کی ضروریات کو بھی مدّ ِنظر رکھتے ہیں۔ جیسے ورکنگ وومنز، عساکرِ پاکستان، نوجوان، سرکاری اور کاروباری اداروں کے لوگ۔ اس قسم کے لیکچرز کو مَیں’’ Tailored Lectures ‘‘کہتا ہوں۔ یعنی کپڑا (مواد) میرے پاس موجود ہوتا ہے،بس اُسے سامعین و ناظرین کے قد کاٹھ اور ناپ کے مطابق سینا ہوتا ہے۔

س: کیا آپ لیکچرز کا معاوضہ بھی لیتے ہیں؟

ج: مَیں تو لنگر بانٹ رہا ہوں، لیکن جو کارپوریٹ ادارے، بزنس مین اور صاحبِ ثروت افراد میری خدمت اور محنت کا معاوضہ دے سکتے ہیں، اُن سے فیس لے لی جاتی ہے،جو براہِ راست فائونڈیشن میں چلی جاتی ہے۔ کسی بندے کا قیمتی ہو کر مفت ہو جانا ہی درویشی ہے۔ ہماری فائونڈیشن ایک ’’سیلف فنڈڈ ادارہ‘‘ ہے۔

س: کیا آپ کو پاکستان میں موٹیویشنل لیکچرز کا بانی کہا جاسکتا ہے؟

ج: جی نہیں۔ مجھ سے پہلے بھی کئی شخصیات اس قسم کے موٹیویشنل اور سیلف ہیلپ کے لیکچرز کا آغاز کر چُکی تھیں، تاہم مَیں نے صرف یہ کیا کہ تعمیرِ شخصیت اور سیلف ہیلپ کے جو لیکچرز پہلے فائیو اسٹار ہوٹلز اور پوش آبادیوں میں ایلیٹ کلاس کے لیے ہوا کرتے تھے، اُنہیں وہاں سے نکال کر ایک متوسّط درجے کے عام شخص، حتیٰ کہ رکشے والے تک پہنچا دیا ۔ اب ہر طبقہ، بالخصوص طلبہ اُن سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔

س: اپنے آپ کو بدلنے کا مؤثر ترین طریقہ کون سا ہے؟

ج: اپنی ’’مَیں‘‘ (Ego) کو ختم کر کے عاجزی اختیار کیے بغیر انسان خود کو نہیں بدل سکتا اور اس کا اظہار آپ کی باڈی لینگویج سے ہونا چاہیے۔ نماز کیا ہے؟ اپنی انا کو ختم کر کے اللہ کے حضور جُھک جانے کا نام ہے۔ الحمدللہ کا ترجمہ بھی یہی ہے کہ آپ سب کریڈٹ اللہ کو دیتے ہیں۔ سجدہ، رکوع، ہاتھ باندھنا یہ سب ایگو ختم کرتے ہیں۔ اور یہ ترقّی کا سفر اُسی وقت شروع ہوتا ہے، جب آپ اپنی انا ختم کرتے ہیں۔ مَیں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ انسان کی ترقّی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ایگو ہوتی ہے۔ یعنی آپ کی ذات آپ کی دشمن ہے، بیرونی دشمن انسان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، انسان خود ہی اپنی سوچ، اپنے رویّے اور اپنے نظریے سے اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔

س: آپ نے پاکستانی نوجوانوں کو کیسا پایا؟

ج: ان میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے، حتیٰ کہ چین سے بھی زیادہ، لیکن مختصراً یہی کہوں گا کہ ان کی کوئی سمت متعیّن نہیں اور نہ اُنہیں کوئی پلیٹ فارم میّسر ہے۔ ہمارا نوجوان 30سال کی عُمر میں بھی یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ اُسے جانا کدھر ہے؟ اس کی منزل کیا ہے؟ اس کے سامنے زندگی کے بس اسٹینڈ سے ہر ایک، دو منٹ کے بعد گاڑیاں نکل رہی ہوتی ہیں، لیکن اسے پتا نہیں ہوتا کہ اُسے کس بس میں بیٹھنا ہے۔ 

ہمارے اکثر اساتذہ بھی طلبہ کے اندر وہی کچھ اُنڈیل رہے ہیں، جو اُنہوں نے برس ہا برس سے پڑھ رکھا ہے۔ اکثر نوجوان خلاصوں، گائیڈز، گیس پیپرز کے چکر میں پڑے ہوتے ہیں، جو اُنہیں صرف نوکری کے لیے امتحان پاس کرنا سِکھاتے ہیں۔ اُن کا حال کنویں کے مینڈک جیسا ہے۔ اس وقت نوجوانوں کو ایک واضح سمت دینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے اور یہ ہمارے تعلیمی اداروں کا کام ہے۔

س: شادی پسند سے کی ؟

ج: نہیں، اریجنڈ میرج ہے۔

س: بچّے کتنے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟

ج: چار بچّے ہیں، دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ سب سے بڑا بیٹا نویں کلاس میں ہے۔

س: اہلِ خانہ کو کتنا وقت دیتے ہیں؟

ج: مَیں ورک لائف بیلنس کا پابند ہوں۔ پانچ بجے پیشہ ورانہ مصروفیات اور فائونڈیشن کے دفتری امور سے ہر صُورت فارغ ہو جاتا ہوں۔پھر 5 کلومیٹر کی جاگنگ اور اس کے بعد صرف مَیں اور اہلِ خانہ۔ دنیا سے رابطہ تقریباً ختم کردیتا ہوں۔

س: پہلی کمائی کتنی تھی؟

ج: 200 روپے فی کس کے حساب سے تین بچّوں کی 600روپے ٹیوشن میری پہلی کمائی تھی۔ مَیں اُس وقت سیکنڈ ایئر میں تھا اور وہ پیسے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔

س: زندگی سے کیا سیکھا؟

ج: زندگی جہدِ مسلسل ہے، جس میں رُک جانے والا فنا ہو جاتا ہے۔ میں یہی دُعا مانگتا ہوں کہ آخری سانس تک کچھ نہ کچھ کرتا رہوں۔ بدقسمتی سے اکثر لوگ زندگی میں ہر کام کو ’’نوکری‘‘ کی طرح کررہے ہوتے ہیں۔

س: زندگی کا کون سا دَور اچھا تھا؟

ج: ہر دَور اچھا تھا اور جو ٹھوکر لگی، اُس نے آگے بڑھنے میں مدد دی۔ ہمیں ہر تکلیف کا شُکریہ ادا کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں کچھ نہ کچھ دے کر جاتی ہے۔ واصف علی واصف کہتے ہیں ’’ہمیں اللہ کی طرف سے چِٹھیاں ملتی رہتی ہیں، اُن کے باہر غم لکھا ہوتا ہے، لیکن اندر خوشی ہوتی ہے‘‘۔

س:زندگی میں عشق و محبّت کس قدر ضروری ہے؟

ج: بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر انسان کی تکمیل ممکن نہیں، لیکن میری توجّہ ہمیشہ کاموں کی طرف رہی اور پھر یہی کام میرا عشق بن گیا۔

س: کوئی ایسا واقعہ جو بُھلائے بھولتا نہ ہو؟

ج: بلوچستان کے ایک نسبتاً گم نام علاقے ہیں(شاید کسی ادارے کی دعوت پر گیا تھا)، ایک شخص نے مجھے پہچان لیا اور حد سے زیادہ پیار اور محبّت دی۔ مَیں اُسے بھول نہیں سکتا۔

س: سب سے زیادہ اہمیت کس چیز کو دیتے ہیں؟

ج: لمحۂ موجود کو۔ ماضی اور مستقبل سب سراب ہے۔ زندگی کے ہر لمحے کو بھرپور گزاریں۔

س: موسیقی سے لگائو ہے؟

ج: بہت زیادہ۔ نورجہاں، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اور اے آر رحمان پسندیدہ فن کار اور موسیقار ہیں۔

س: کبھی اُداسی کا بھی سامنا کرنا پڑا؟

ج: مَیں 32سال اداسی سے لڑا ہوں۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کہاں سے آگئی ، پھر پتا چلا کہ یہ میری جین (Gene)میں والدہ سے آئی تھی۔ مَیں نے مسلسل اُس سے لڑ کر اُسے روک دیا۔ مجھے سمجھ آگئی کہ اِس کا بہترین حل مصروفیت، یادِ الٰہی، عبادت اور نوعِ انسانی کی خدمت ہے۔ خیر کے کام انسان کی اُداسی دُور کر دیتے ہیں۔ مَیں نے ان میں اپنے آپ کو ڈبو دیا، اُداسی کو اگر آپ ’’جی آیا نوں‘‘ کہیں گے تو یہ آپ کو تنگ کرے گی اور مستقل مہمان بن جائے گی۔ مجھے نیند نہ آئے اور اداسی کی کیفیت ہو، تو جائے نماز بچھا لیتا ہوں۔ غمِ روزگار کا بہترین حل جو مَیں نے ڈھونڈا، وہ سجدہ ہے۔

س: ایک دُعا جو ہمیشہ لبوں پر رہتی ہے؟

ج: ہمیشہ اللہ کی رحمت کا طلب گار رہتا ہوں۔

س: اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

ج: میرے سفر کا آغاز استاد کی حیثیت سے ہوا تھا۔ آج زندگی کی ٹرین جس اسٹیشن سے گزر رہی ہے، وہاں کھڑے لوگ مجھے ٹرینر کے نام سے پُکار رہے ہیں، لیکن یہ سفر ابھی جاری ہے۔ ایک نئے عنوان کے لیے، ایک نئی پہچان کے لیے۔

تازہ ترین