ٹوکیو اولمپکس گیمز چین کی برتری کے ساتھ ختم ہوگئے، ان مقابلوں کے دوران کورونا کو خوف بھی کھلاڑیوں کے حوصلے پست نہیں کرسکا، دنیا بھر کے کھلاڑیوں نے اپنی مہارت کے ساتھ شائقین کے دل جیت لئے، ہاکی کے میدان میں بھارت کا برانز میڈل جیتنا اس خطے میں ہاکی کو فروغ دینے میں مدد گار ثابت ہوگا، اولمپکس گیمز میں پاکستان کے دس کھلاڑی ایکشن میں نظر آئے مگر دو کھلاڑیوں کے سوا کوئی بھی اپنی صلاحیت سے متاثر نہ کرسکا۔
تاہم اولمپکس گیمز میں ایتھلیٹ ارشد ندیم اور ویٹ لفٹر طلحہ طالب کی کار کردگی نے پاکستان میں کھیلوں کے کرتا دھرتائوں کی حکمت عملی کا پول کھول دیا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کسی بھی ادوار میں انفرادی کھیل اور کھلاڑیوں کو فوکس ہی نہیں کیا گیا جن کی پر فار منس اور مہارت سے ہم عالمی اور ایشیائی مقابلوں میں میڈل جیت سکتے ہیں، ان دونوں کھلاڑیوں نے اولمپکس گیمز میں اپنی صلاحیتوں سے ثابت کردیا کہ اگر ملک میں انفرادی کھیلوں پر توجہ دی جائے اور ان کے اچھے اور باصلاحیت کھلاڑیوں کا انتخاب کر کے انہیں اچھی ٹریننگ سہولت اور مقابلے کے مواقع فراہم کئے جائیں تو یقینی طور پر پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔
مگر افسوس ناک بات یہ کہ ہمارے ملک میں کھیلوں کے حکام محض اپنی کرسیوں کی فکر میں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں، انہیں کھلاڑیوں کی کوئی فکر نہیں، ان کی توجہ نہ اپنے ہیرو کی ٹریننگ پر مرکوز ہے اور نہ ہی ان کی معاشی پرابلم پر،وہ تو صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہیں، برسوں سے ہر فیڈریشن میں میویکل چئیر گیم جاری ہے ، وہی مخصوص چہرے گھوم پھر کر عہدے پر آجاتے ہیں، قومی اسپورٹس پالیسی کی وجہ سے یہ عہدے دار اپنے عہدے بدل رہے ہیں۔
اب جب کہ نئی اسپورٹس پالیسی آنے والی اس میں اس شق کو شامل کیا جائے کہ ہر فیڈریشن میں ٹاپ تھری صدر، سکریٹری اور خزانچی کے لئے ایک انٹر نیشنل یا اولمپئین کھلاڑی کو ضرور شامل کیا جائے ، ہمیں اگلے اولمپکس اور دیگر ایشائی مقابلوں کے لئے ابھی سے روڈ میپ بنانا ہوگا جس کے تحت کھلاڑیوں کو تیار کرنا ہوگا، ہر کھیل کی فیڈریشز کو اپنے ٹاپ تھری کھلاڑیوں کو منتخب کر کے بڑے مقابلوں کے لئے تیار کرنا ہوگا اس کے بغیر ہم مستقبل میں بھی اسی طرح مایوس رہیں گے۔ ظلحہ طالب اور ارشد ندیم نے جن سامان کے ساتھ ٹریننگ کی وہ ہمارے لئے سوالیہ نشان ہے، ہمیں اپنے کھلاڑیوں کو سہولت فراہم کرنا ہوگی۔