صوبائی حکومت اور سندھ پولیس تمام تر دعوؤں اوراعلانات کے باوجود جرائم کی سرکوبی میں وہ نتائج حاصل نہیں کرسکی اور نہ ہی امن و امان کی آج سے 4 سال پہلے والی پوزیشن کو بحال کرسکی ہے، جس کی بڑی وجہ حکومت کی محمکہ پولیس کو جدید خطور پراستوار کرنے کے بہ جائے آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں متعدد اضلاع میں تھانے اور پولیس چوکیاں خستہ حال ہیں، پولیس موبائل دھکے سے اسٹارٹ کی جاتی ہیں اور تھانوں کا فرنیچر ٹوٹا ہوا ہے۔ جدید اسلحے کی کمی ہے، نفری انتہائی کم ہے اور جو رہی سہی کسر ہے، وہ پیپلزپارٹی کی پولیس میں بہ ظاہر سیاسی مداخلت نے پوری کردی ہے۔ حکومتی اراکین سندھ اسمبلی جنہیں شاید ایک پولیس اہل کار سیکیورٹی کے لیے قانونی طور پر دینا ہوتا ہے یا سیکیورٹی کے حوالے بنائی گئی کمیٹی کسی کی درخواست پر اسے سیکیورٹی فراہم کرے، لیکن یہاں تو صورت حال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔
اس میں یا تو سیاسی مداخلت ہوتی ہے یا پھر پولیس کی کمانڈ کمزور ہے، جس کے اثرات کم نفری اور گاڑیوں کے باعث امن و امان کی صورت حال پر پڑ رہے ہیں، اگر 2018 کے انتخابات سے قبل کی بات کی جائے تو حکومت بھی پیپلزپارٹی کی تھی اور وزیراعلی سندھ بھی مراد علی شاہ تھے ،لیکن سندھ میں مثالی امن و امان کے ساتھ پولیس بھی بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتی تھی ، جس میں اگر براہ راست پولیس کمانڈ کا مسلئہ نہیں تھا، تو ایک اہم مسلئہ جو سندھ پولیس کو درپیش ہے، وہ 2019 میں اس وقت کے آئی جی سندھ سید کلیم امام کی جانب سے متعارف کرایا گیا ریجنل پولیس نظام ہے، جس کا تجربہ ماضی میں ناکام رہا ہے، کیوں کہ 2002 میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے ملک بھر میں نیا پولیس نظام متعارف کرایا اور ریجنل پولیس افسر بھی اس دور میں تعینات ہوئے، جس کے بعد کچھ صوبوں نے ترامیم کے ساتھ اس نظام کو جاری رکھا، جب کہ خیبر پختون خواہ نے نیا پولیس نظام متعارف کروایا، جب کہ سندھ میں 2011 میں یہ نظام ختم ختم کردیا گیا، اور رینج کا نظام جو غیر موثر دکھائی دیتا تھا۔
وہ دوبارہ فعال ہوگیا، کیوں کہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان پولیس رول 1934 میں ریجن کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے، صرف رینج ہوا کرتے تھے ،جو آج بھی ہیں اور رینج آفس جہاں ڈی آئی جی کی آسامی ہے اور آئی جی یہ دونوں افسران ڈسٹرکٹ پولیس افسران کی کارکردگی کو روزانہ کی بنیاد پر مانیٹر کرتے تھے، خاص طور پر آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے لیے یہ بات مشہور ہے کہ وہ اپنی مرضی کے افسر کی تعیناتی کرتے تھے اور جن افسران کو وہ جانتے تھے کہ ان میں ابھی ضلع سنبھالنے کی صلاحیتیں نہیں ہیں، ایسے افسر کو سائیڈ پوسٹ پر رکھا جاتا تھا، لیکن اب حکومت خاص طور پر وزیراعلی جو کہ وزیر داخلہ بھی ہیں، ان کی توجہ پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں خاص دکھائی نہیں دیتی۔
سکھر رینج میں ڈکیتی، چوری، لوٹ مار ، اغوا برائے تاوان جیسی سنگین وارداتوں یا اسٹریٹ کرائم کو قابو نہیں کیاجاسکا، آج بھی اگر سکھر کی بات کی جائے تو یہاں ماہانہ درجنوں افراد کو ان کی موٹر سائیکلوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔ ایک ہی وقت میں گنجان آبادی کے تجارتی مرکز میں متعدد دکانوں کے تالے توڑ کر چوری کی وارداتیں انجام دی جاتی ہیں، دن دیہاڑے لوٹ مار کے واقعات رونما ہورہے ہیں ، یُوں تو موٹر سائیکل چوری ہونا روز کا معمول ہے، لیکن کچھ ایسے بھی غریب لوگ ہوتے ہیں، جن کے لیے یہ معمول کی چوری بہت بڑی چوری ہوتی ہے، ایسا ہی ایک واقعہ بیان کرنا ضروری سمجھا، جس میں ایک غریب نوجوان حافظ فدا حسین سولنگی جو بچوں کو گھروں پر جاکر دینی تعلیم دیتا ہے، اسے کئی سالوں سے موٹر سائیکل لینے کا شوق تھا وہ چاہتا تھا کہ پیدل یا سائیکل کے بہ جائے وہ موٹر سائیکل پر جائے، اس سے اس کا ٹائم اور وہ خود گرمی سے بھی محفوظ رہے گا اور موٹر سائیکل گھر کے کام کاج میں بھی استعمال کرے گا۔
دینی تعلیم سے ملنے والا حدیہ اس کا ذریعہ آمدن ہے، اس نے دوسال اپنے اخراجات میں کمی کرکے موٹر سائیکل کے لیے پیسے جمع کیے اور کچھ قسطیں کرائیں اور ایک نئی موٹر سائیکل لے لی، جس کے بعد وہ بہت زیادہ خوش بھی تھا اور موٹر سائیکل پر جاکر مختلف علاقوں میں بچوں کو دینی تعلیم دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا، اس غریب شخص نے اپنے طور پر اپنی موٹر سائیکل کو محفوظ رکھنے کے لیے دو تالے بھی لگا رکھے تھے ، لیکن گزشتہ دنوں حافظ فدا حسین سولنگی بچوں کو پڑھانے معمول کے مطابق روہڑی کی ایک ہاوسنگ سوسائٹی میں گیا، جب ایک گھر سے وہ بچوں کو تعلیم دےکر باہر نکلا تو دیکھا کہ موٹر سائیکل موجود نہیں تھی، اس واردات کے فوری بعد علاقے کے لوگ جمع ہوگئے ، نوجوان کی چوری ہونے والی موٹر سائیکل کی واردات کے تمام شواہد روہڑی پولیس کو دینے کے باوجود تاحال پولیس کسی بھی ملزم کو گرفتار نہیں کرسکی ہے اور موٹر سائیکل چوری کا سراغ لگانے میں تا حال ناکام دکھائی دیتی ہے۔
موٹر سائیکل چوری کی واردات کے فوری بعد اس سوسائٹی میں رہائش پذیر سکھر کے سئینر صحافی محمد زمان باجوہ نے فوری طور پر 15 مددگار سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کی زبانی مددگار پولیس جسے واردات کے فوری بعد جلد از جلد جائے وقوعہ پر پہنچنا ہوتا ہے، اس کی بہترین کارگردگی کو بیان کرتے سینئر صحافی نے بتایا کہ چوری کی واردات کے فوری بعد میں نے مددگار 15 پولیس کو بھی فون کیا، لیکن کسی نے فون ہی اٹینڈ کرنا گوارہ نہیں کیا اور پھر روہڑی تھانے گئے، تھانہ پر پکی رپورٹ بھی نہ لی گئی، مشکوک جرائم پیشہ افراد کی نشاندہی کرنے کے باوجود شناخت کے لیے گرفتاری بھی نہیں کی گئی ، تو پھر غریب اور بے بس لوگ کہاں جائیں!!
پولیس کے روایتی دلاسےوقت گزارنے کے طریقے، ٹال مٹول جاری ہیں، حالاں کہ سوسائٹی میں لگے مختلف سی سی ٹی وی کیمروں سے فوٹیج حاصل کرنے کے بعد روہڑی تھانے اور ضلعی پولیس کے افسران تک بھی پہنچائی گئی ہے، لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا، کیوں کہ موٹر سائیکل کی چوری اور چھینے جانے کی وارداتیں عام ہیں، اس لیے پولیس اس جرائم کو سنجیدہ نہیں لیتی، لیکن کوئی اس کے دل سے پوچھے کہ جس نے کتنے ارمانوں کے ساتھ اپنی دیرینہ خواہش کو پورا کیا اور خوشی خوشی موٹر سائیکل لی تھی، ابھی موٹر سائیکل کو نمبر بھی نہ لگا تھا کہ سارے ارمان ٹھنڈے پڑ گئے۔
اب یہ غریب شخص بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ پولیس اسٹیشن کے چکر بھی لگاتا ہے، حیرت اس بات کی ہے کہ آئی جی سندھ اور وزرات داخلہ سے پوشیدہ رکھنے کے لیے پولیس 5 فی صد بھی جرائم کی وارداتوں کی پکی رپورٹ درج نہیں کرتی، جرائم کی جو سرکاری رپورٹ ماہانہ بنتی ہے، اس کو اگر دیکھ لیا جائے تو ہر طرف چین ہی چین دکھائی دے گا اور اگر حقیقی رپورٹ سامنے آجائے تو شائید حکمران بھی پریشان ہوجائیں، آخر حقائق کیوں چھپائے جاتے ہیں۔ اس سسٹم کو بریک کرنے کے لیے سابق ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے کوشش کی کہ تمام واقعات رپورٹ ہوں، لیکن شاید وہ بھی اس حوالے سے مضبوط نظام کو بریک نہیں کرسکے اور مستقبل میں بھی ایسی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔
موٹر سائیکل چوری کی چھوٹی واردات پر تو تھانے کا ہیڈ محرر بھی نوٹس نہیں لیتا، ایس ایچ او یا ایس ایس پی تو دور کی بات ہے، لیکن بعض پولیس افسر چھوٹی چوری کو بھی بہت زیادہ سنجیدہ لیتے ہیں۔ ایس ایس پی شکارپور تنویر حسین تنیو نے موٹر سائیکل چوری کی وارداتیں روکنے کے لیے نواب شاہ ضلع میں تعیناتی کے دوران چند موٹر سائیکلوں میں خفیہ طور پر ٹریکر لگا کر اصل چوروں تک پہنچ گئے اور ان وارداتوں کو ختم کیا، کیا ایسا دیگر اضلاع کے افسران یا آئی جی سندھ بھر میں نہیں کرسکتے؟ یہ سوچنے کی بات ہے اور یہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی چھوٹی وارداتیں تو پولیس کے لیے معمول کا حصہ ہیں، اگر ریجن کی بات کریں تو سکھر ریجن میں جرائم کی کئی بڑی وارداتیں ہوئیں۔
ان وارداتوں کے بعد ایڈیشنل آئی جی کا کوئی بڑا ایکشن دکھائی نہیں دیا، اس لیے اس طرح کے تجربات سے بہتر ہے کہ سابقہ نظام کے تحت پولیس کی کارکردگی کو فوکس کیا جائے، کیوں کہ ریجن کے قیام کے بعد کارکردگی تو بہتر نہ ہوسکی ، البتہ ریجن اور رینج پولیس افسران میں خاموش سرد جنگ کی باتیں سنی گئیں۔ حیدرآباد کے حوالے سے کچھ باتیں میڈیا میں بھی آئیں، اس تمام صورت حال میں حکومت خاص طور پر آئی جی سندھ کا بھی کوئی ایکشن دکھائی نہیں دیا۔ بعض پولیس افسران اور عوامی رائے کے مطابق 2019 میں بلاوجہ نافذ کیا گیا ایڈیشنل آئی جی کا نظام لپیٹ کر دوبارہ سابقہ اور کام یاب نظام کے تحت پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور اغوا برائے تاوان جیسی سنگین وارداتوں سمیت جرائم کے خاتمے کے لیے محکمہ پولیس میں بہتری لائی جائے۔ تھانوں اور گاڑیوں کی حالت بہتر بنائی جائے، نئی گاڑیاں جدید اسلحہ پولیس کو فراہم کیا جائے پولیس میں بھرتیاں کی جائیں۔
سندھ حکومت اگر پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں سنجیدہ ہے تو پھر سندھ سے تعلق رکھنے والے نامور پولیس افسران کی خدمات کیوں حاصل نہیں کرتی، اے ڈی خواجہ سندھ کے کام یاب ترین آئی جی تھے اور ہر کام میرٹ پر کرتے اور بلند بانگ یہ کہتے تھے کہ پولیس سندھ حکومت کے ماتحت ادارہ ہے، میرا کسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن سندھ حکومت کو اتنی اچھی کارکردگی کے باوجود اے ڈی خواجہ منظور نہیں ہے۔ آئی جی سطح کے بہترین آفیسر ڈی جی ایف آئی اے ثناءاللہ عباسی کا تعلق لاڑکانہ سے ہے، وہ آئی جی گلگت بلتستان اور آئی جی کے پی کے رہے۔ ان کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں اور سندھ سے تعلق رکھنے والے متعدد افسران آج ایف آئی اے، موٹر وے، آئی بی یا دیگر محکموں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، لیکن یہ افسر سندھ حکومت کی گڈ بک میں نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں آج بھی سندھ پولیس پستی کی جانب جاتی دکھائی دے رہی ہے۔