کشور ناہید پاکستان کے ادبی حلقوں میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ 3 فروری 1940ء میں بھارت کے بلند شہر میں پیدا ہوئیں۔ نویں جماعت سے انہوں نے اخبار میں لکھنا شروع کیا۔ فرسٹ ایئرمیں تھیں ، جب شعر کہنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ زمانہ طالب علمی میں تقریری مقابلوں اور مشاعروں میں حصہ لیتی تھیں۔ ان کا کلام ادبی رسائل میں چھپتا رہا۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ’’ لبِ گویا‘‘ 1968میں منظرِ عام پر آیا۔ کشور کے کلام کا انگریزی اور ہسپانوی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ وہ بچوں کے لیے بھی لکھتی رہی ہیں۔ طویل عرصے سے وہ روزنامہ جنگ کی کالم نویس ہیں ۔ ذیل میں بچوں کے لیے ان کی ایک سبق آموز کہانی پیش کی جارہی ہے۔
ایک لکڑہارا تھا جو ایک لکڑ ہارا تھا جو لکڑیاں کاٹ کر شہر میں بیچ کر اپنا اور بیوی، بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ ایک روز جنگل میں لکڑیاں کاٹتے ہوئے اس کی کلہاڑی کھوگئی۔ اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ دوسری کلہاڑی خرید لیتا اس نے سارے جنگل میں کلہاڑی ڈھونڈی لیکن کہیں نہ ملی، تھک ہار کر وہ رونے لگا۔ اچانک درختوں کے پیچھے سے ایک جن نکلا۔ اس نے کہا، ’’کیا بات ہے میاں لکڑہارے؟ تم رو کیوں رہے ہو؟‘‘ لکڑہارے نے روتے ہوئے کہا، ’’میری کلہاڑی کھوگئی ہے، سب جگہ تلاش کرلیا لیکن کہیں نہیں مل رہی ، تم جن ہو ، خدا کے لئے کہیں سے ڈھونڈ کر لا دو‘‘۔
یہ سن کر جن لکڑ ہارے کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا اور تھوڑی دیر بعد دوبارہ اس کے پاس آیا ۔ اس کے ہاتھ میں سونے کی کلہاڑی تھی۔ اس نے لکڑہارے سے کہا ’’لو، میں تمہاری کلہاڑی ڈھونڈ لایا ہوں۔‘‘ لکڑہارے نے کلہاڑی دیکھ کر کہا، ’’یہ میری کلہاڑی نہیں ہے۔ وہ تو لوہے کی تھی۔‘‘
جن پھر غائب ہوگیا اور اب وہ چاندی کی کلہاڑی لے کر آیا۔ اس نے کہا ’’لو، یہ تمہاری کلہاڑی ہے۔‘‘
’’نہیں۔ یہ چاندی کی ہے ، یہ بھی میری کلہاڑی نہیں ہے،‘‘ لکڑ ہارے نے کہا۔
یہ سن کر جن پھر غائب ہوگیا جب وہ لکڑ ہارے کے پاس دوبارہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں لوہے کی کلہاڑی تھی۔ یہ کلہاڑی دیکھتے ہی لکڑہارا خوشی سے چیخا،’’ہاں ہاں، یہی ہے میری کلہاڑی۔ اللہ تیرا شکر ہے۔‘‘
جن بولا ’’تم بہت ایماندار شخص ہو۔ میں یہ تینوں کلہاڑیاں تمہیں دیتا ہوں۔ یہ تمہارا انعام ہے۔‘‘ لکڑہارے نے جن سے تینوں کلہاڑیاں لے لیں اور خوشی خوشی گھر چلا گیا۔