• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک کے ذرائع ابلاغ پر اس وقت ایک ہیجانی کیفیت اس سبب طاری ہے کہ ان کا موضوع متحدہ قومی موومنٹ اور اس کے قائد الطاف حسین ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے لندن میں جلاوطنی اختیار کئے ہوئے الطاف حسین پر اس وقت ماضی کی طرح الزامات کی بوچھاڑ ہے۔ گو کہ ابھی تک کسی بھی تحقیقاتی ادارے نے الطاف حسین کو ملزم نامزد نہیں کیا ہے اور معاملات ابتدائی تحقیقات کے درمیان ہیں لیکن پاکستان کے ذرائع ابلاغ کا مشاہدہ و مطالعہ کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید فیصلہ ہوچکا ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر یہ رویہ ذرائع ابلاغ نے کیوں اختیار کر رکھا ہے؟ ماضی میں بھی 1992ء سے لے کر 2003ء کے درمیان بھی ایسے ہی الزامات کی بوچھاڑ الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر کی گئی لیکن وہ کسی بھی عدالتی سطح پر ثابت نہ کی جا سکی۔ گزشتہ روز بین الاقوامی نشریاتی ادارے BBCکی جانب سے بھی ایک دستاویزی فلم جاری کی گئی جس پر دو رائے موجود ہیں۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی پاکستان سے تعلق رکھنے والی ایک نئی سیاسی جماعت جو ملک کی ٹھیکیداری سنبھالنے کی خواہاں ہے، موجود ہے۔ اس کے رہنما جو کل تک انتخابی مہم کے دوران سجدے کر کے یہ کہہ رہے تھے کہ میں مسلمان ہوں، آج شہزادہ چارلس کی محفلوں میں کس حالت میں پائے گئے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ معاملہ پاکستان کے ذرائع ابلاغ کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ مسئلہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کا ہو یا مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کا، یہ دونوں معاملات ابتدائی تحقیقات کے مرحلے میں ہیں۔ کسی بھی مرحلے پر ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ تحقیقات نہ ہوں بلکہ ان کا استدلال یہ رہا ہے کہ قبل از وقت نتائج اخذ کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں۔ اس سے ان کا استحقاق مجروح ہوتا ہے۔ اخلاقی بنیادوں پر یہ موٴقف درست نظر آتا ہے۔ ماضی میں ذرائع ابلاغ کے وہ کردار جو ایم کیو ایم کے خلاف پیش پیش تھے، منہ کی کھا چکے ہیں اور ایک بار پھر وہ کمر کس کے میدان میں اترے ہیں۔ تاوقتیکہ معاملات عدالتوں سے نہیں گزر جاتے، اس وقت تک کسی کو مجرم قرار دے کر نتائج پر بحث و مباحثے کا مقصد صرف اور صرف ایم کیو ایم کے کارکنان اور رہنماؤں کے حوصلوں کو پست کرنا ہے۔
لیکن ماضی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس جماعت کے کارکنان نے ہر مرحلے پر اپنی قیادت سے وابستگی پر استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔
گو کہ عہد سے منکر تو نہ تھے لیکن
وقت نے پھر تجدیدِ عہدِ وفا مانگی ہے
برے کو برا اور اچھے کو اچھا کہنا ذرائع ابلاغ کا حق ہے لیکن اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس میں انصاف اور غیر جانبداری کو ملحوظ رکھیں۔ ان کی گفتگو سے یہ شائبہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ وہ کسی کے ساتھ نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ باالفاظِ دیگر برے کو اتنا ہی برا کہاجائے جتنا وہ ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان ایک بار تو دولخت ہو چکا ہے، اسی نسلی، لسانی تعصب کی وجہ سے اور آج بھی پاکستان کے جنوبی صوبہ بلوچستان میں پاکستان کا قومی ترانہ نہ سنایا جا سکتا ہے اور نہ سنا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بھی وہاں لہرانے پر پابندی عائد ہے۔ قائد اعظم کی آخری رہائش گاہ جلا کر خاکستر کر دی گئی۔ بم دھماکے ، پروفیسرز، ڈاکٹرز اور انجینئرز کا قتل عام ہوچکا ہے اور بلوچ اپنے آپ کو فرزند زمین تصور نہیں کر رہے ہیں اور یہی احساس اگر خدانخواستہ سندھ کے شہری علاقوں میں پیدا ہوتا ہے تو اس بات سے قطع نظر کہ وہ کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں لیکن یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ پاکستان کافی عرصے کے لئے غیر مستحکم ہوجائے گا۔
جس طرح سے ذرائع ابلاغ پر بیٹھ کر قصے کہانیاں گھڑ کر تمسخر اڑایا جا رہا ہے، یہ معاملہ کسی طرح سے بھی درست نہیں ہے لہٰذا ٹیلی ویژن ہو یا پرنٹ میڈیا، اس پر نشر ہونے والے اور شائع ہونے والے مواد میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے اندر نسلی و لسانی تعصب نے فرزند زمین اور بے زمین فرزند کے تصور کو واضح کیا ہے اور اس کی ذمہ داری سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں، عدالتوں اور ذرائع ابلاغ پر عائد ہوتی ہے۔ سیاست دانوں اور میڈیا نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں جبکہ عدالتیں سرعت کے ساتھ انصاف فراہم نہ کرسکیں۔ اس پس منظر میں ہم سب کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور جو بات جس وقت پر کہنی ہے، اس وقت پر کہی جائے۔ اگر کوئی ذرائع ابلاغ کا نمائندہ کوئی غلط بات کرتا ہے اور سامنے سے جواب آئے تو اس کو دباؤ سے تعبیر کرکے آزادی اظہار رائے کی پامالی کا طعنہ دیا جاتا ہے جبکہ اگر کوئی سیاسی جماعت اپنے دفاع میں کوئی بات کرتی ہے تو اسے دھمکی گردانا جاتا ہے۔ باالفاظِ دیگر چت بھی اپنی، پٹ بھی اپنی۔ شمال مغربی صوبہ سرحد کی صورتحال بھی تبدیل نہ ہوسکی۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے وہاں حکمران ہیں لیکن بم دھماکے، سیکورٹی فورسز پر حملے جاری ہیں۔ ملک کے وقار ، سا لمیت اور خودمختاری کو بدستور پامال کیا جا رہا ہے۔ ڈرون حملے آج بھی وزیرستان کے عوام کا مقدر بنے ہوئے ہیں۔ اب ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے علاوہ اور بھی بہت سے موضوعات ہیں۔ چند کا ذکر اوپر کیا گیا جبکہ معاشی حالات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ جب میٹروپولیٹن پولیس اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو ذرائع ابلاغ کو یہ حق ہے کہ ان حقائق کی روشنی میں اس مسئلے پر رائے زنی کرے لیکن قبل از وقت الزامات، خیالات کی بنیاد پر کسی کی توہین و تذلیل سے اجتناب کرے۔
دیوار کیا گری مرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لئے
تازہ ترین