• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ…شہزاد علی
برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر یاسمین غزالہ فاروق ایک وژنری شخصیت ہیں جن کا آبائی تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ آپ ایک سماجی محقق ہیں اور صحت اور سماجی نگہداشت کے شعبوں میں تقریبا چار دہائیوں تک بطور سوشل ورک پریکٹیشنر اور لیکچرر کام کیا ہے۔ انہوں نے مختلف تحقیقی نوعیت کے مقالے تحریر کیے ہیں، 2014 میں مانچسٹر یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی مکمل کی جہاں انہوں نے بعد میں 2019 تک سماجی شماریات میں لیکچرار کی حیثیت سے کام کیا۔ ان کے تحقیقی مکالات میں اعلیٰ درجہ کے ہنر مند افراد کی ہجرت، شناخت، نسل اور صحت کے متعلق عدم مساوات شامل ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر جنوبی ایشیاء کے ڈاکٹرز کے برطانوی سوسائٹی میں انٹی گریشن کے تجربات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا کیوں کہ اس ایریا میں بہت کم ریسرچ کی گئی تھی، متعدد بین الاقوامی کانفرنسوں میں اپنی ریسرچ کے نتائج پیش کیے تحقیقی بلاگ لکھا ہے جس کا عنوان ہے بیرونی ملکوں سے ہجرت کرنے والے ڈاکٹر این ایچ ایس Migrant doctors keep the NHS going جسے مانچسٹر پالیسی بلاگز میں شائع کیا گیا۔ وہ بیشتر کتابی ابواب کی مصنفہ بھی ہیں جس میں وہ برطانیہ میں مقیم بیرون ملک تربیت یافتہ جنوبی ایشیائی ڈاکٹروں کے تجربات کو دستاویز کرتی ہیں اور اعلیٰ درجہ کےہنرمند افراد کی ہجرت کے مطالعے کے بڑھتے ہوئے شعبے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ تحقیق پر مبنی کتاب Elite Migrants: South Asian Doctors in the UK آج زیر بحث ہے ، یہ کتاب کمیونٹی کوہیژن لٹریچر، ہم آہنگی ادب میں ایک اہم کنٹری بیوشن ہے اور برطانیہ میں کمیونٹی ہم آہنگی کے بارے میں ہماری سمجھ میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرتی ہے، نوآباد کمیونٹیز کے بارے میں پچھلی تحقیق کم،نیم ہنر مند تارکین وطن کے تجربات پر زیادہ توجہ مرکوز رہی ہے۔ مصنفہ نے اپنی فنڈ یافتہ تجرباتی تحقیق کا تجزیہ فراہم کیا ہے جس نے پہلی بار برطانیہ کے تین مختلف جغرافیائی مقامات میں مقیم اعلیٰ درجہ کےہنرمند افراد یعنی بیرون ملک تربیت یافتہ جنوبی ایشیائی ڈاکٹروں کے انضمام کے تجربات کی ریسرچ کی ہے ، وہ برطانیہ کے معاشرے میں ہجرت کے نقطہ نظر سے ڈاکٹروں کے تجربات کی عکاسی کرتی ہیں اور اس ممتاز گروپ کے ایک دلچسپ پہلو کو اجاگر کرتی ہیں۔ یعنی جہاں یہ گروپ استحقاق (یعنی جسے مراعات حاصل ہوں) ہے وہیں یہ مارجنلائزیشن (یعنی حاشیہ پر) سے متاثرہ گروپ بھی ہے اور ان کے تجربات کی عکاسی ان دو پوزیشن کے درمیان کہیں موجود کے طور پر بیان کرتی ہیں، کتاب اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ کس طرح شناخت کی ضرورت زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہے،پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر مانچسٹر یونیورسٹی، رابرٹ فورڈ اس کتاب کے تبصرہ میں لکھتے ہیں کہ اسکالرشپ کے اس عمدہ کام میں، ڈاکٹر یاسمین فاروق ہمیں ایک قابل ذکر اہم امیگرنٹ گروپ ، جنوبی ایشیائی ڈاکٹروں کے تجربات کا ایک بھرپور اور بصیرت بخش اکاؤنٹ فراہم کرتی ہیں جو این ایچ ایس میں کام کرنے کے لیے برطانیہ آئے تھے۔ یہ بھرپور اور کثیر جہتی کام اس قابل ذکر گروپ کا ایک اہم اور دلکش اکاؤنٹ فراہم کرتا ہے، این ایچ ایس میں بیرون ملک کارکنوں کے کردار میں دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کے لیے ضروری پڑھنے کی کتاب ہے جو 1960 اور 1970 کی دہائی کے دوران برطانیہ میں آباد ہونے والے تارکین وطن کو درپیش تجربات اور چیلنجز سے آگاہ کرتی ہے۔ پروفیسر آف میڈیکل سوشیالوجی تارانی چندولا مانچسٹر یونیورسٹی بھی اس کتاب کے حوالے سےتبصرہ کچھ یوں لکھتے ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین فاروق کی انگلینڈ کے شمال میں این ایچ ایس جی پی کے طور پر کام کرنے والے جنوبی ایشیائی ڈاکٹروں کی زندگیوں اور ان کی شراکت کے بارے میں تحقیق بصیرت کے ساتھ ساتھ بروقت بھی ہے ، ان کی تحقیق کلاس، نسل اور ہجرت کے درمیان پیچیدہ تعلق کی جانچ کرتی ہے، تجزیہ ڈاکٹروں کی طرف سے کچھ حیرت انگیز حوالوں کے ساتھ ہے کہ انہوں نے اپنے ہجرت کے سفر کے بارے میں کیا جوابات دئیے انہوں نے کیسے اپنے آپ کو اپنی مقامی کمیونٹیوں اور این ایچ ایس کے اندر کام کرنے کے بدلتے ہوئے مطالبات کے مطابق ڈھال لیا، یہ تحقیق جنوبی ایشیائی کی مختلف نسلوں کے تجربات کے بارے میں ایک منفرد بصیرت فراہم کرتی ہے جنہوں نے ہماری مقامی کمیونٹیوں کی فلاح وبہبود کے لیے بہت زیادہ حصہ ڈالا۔ پروفیسر انیز اسمعیل جو میڈیکل فیلڈ اور NHS میں درپیش نسلی عصبیت کی ریسرچ کی دنیا میں بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں، اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ اکثر این ایچ ایس کو ایک منفرد برطانوی ادارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جب کہ این ایچ ایس ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جہاں بین الاقوامی میڈیکل گریجویٹس، بین الاقوامی نرسوں اور تارکین وطن مزدوروں نے اس کی اقدار، اس کی شناخت اور اس کے مقصد میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ یاسمین فاروق نے اپنے ہم عصر ڈاکٹر جولین سمپسن کے ساتھ اس تاریخ کو دستاویز کرنے کے لیے میرے ساتھ کام کیا۔ ان کی ریسرچ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مستقبل کے مؤرخ برٹش سوسائٹی اور بین الاقوامی این ایچ ایس میں ان معماروں اور علمبرداروں کی پوشیدہ شراکت کو تسلیم کریں گے، پروفیسرانیزاسماعیل نے اس ریسرچ کی ابتدائی تجویز پیش کی اور اس تین سالہ پروجیکٹ کی نگرانی کی خدمات بھی انجام دیں۔ انہوں نے ڈاکٹر یاسمین فاروق کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے لکھا کہ چونکہ ریسرچ کے دوران انٹرویوز انگریزی کی بجائے اردو ہندی زبانوں میں لیے گے تھے اس وجہ سے ایسی معلومات کا انکشاف ہوا ہے جو بصورت دیگر کبھی منظر عام پر نہ آتیں، مثلآ کتاب کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہےکہ اکثر اوقات گفتگو کے دوران ڈاکٹروں نےشعروں کے ذریعے اپنے جذبات اور تجربات کے بارے میں اظہار بیان کیا۔ ان کی شاعری کے انتخاب سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ لائ گئی مشرقی اور مذہبی اقدار نے کیسے ان کی مشکل وقت میں رہنمائی کی۔ مثلاً ایک ڈاکٹر کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔
تازہ ترین