• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

پچھلے کالم میں نئے افغانستان اور اس کی پرانی سنہری تاریخ کے بارے میں چند حقائق آپ کی خدمت میں پیش کئے تھے۔ کل شام یوٹیوب پر جنرل (ریٹائرڈ)شاہد عزیز صاحب کا افغانستان اور ملّاعمر کے بارے میں انٹرویو دیکھا اور سُنا۔ انھوں نے جو حقائق بیان کئے وہ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔چند سال پیشتر ہم نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور کورکمانڈر پنڈی جنرل محمود احمد سےبھی افغانستان اور ملّاعمر کے بارے میں کچھ باتیں سنی تھیں۔ دونوں انٹرویوز میں ہمارے سینئر جرنیلوں نے ملاعمر کی بے حد تعریف کی۔ ان کے انتظام مملکت کو حقیقی مدینہ کی ریاست کا درجہ دیا۔

دیکھئے مغربی ممالک خاص طور پر ان کے تھنک ٹینکس اور حربی صنعت ہمیشہ اس کام و جدّوجہد میں مصروف رہی ہے کہ امریکی حکومت (اور پھر ان کے حواریوں ) سےکسی نہ کسی بہانے دوسرے ملک پر حملہ کرانے میں کامیاب ہوجائیں اور ان کے وارے نیارے ہوجائیں۔ نیویارک کے ٹوئن ٹاور پر جہازوں کے حملے کا اُسامہ بن لادن سے کوئی تعلق نہ تھامگر انھوں نے تمام الزام ان پر ڈال دیا۔ اور ملا عمر پر دبائو ڈالنے لگے کہ اُسامہ کو ان کے حوالے کردیں۔ ملا عمر سچے، کٹر مسلمان تھے، وہ اسامہ بن لادن کو کس طرح ان کے حوالے کرسکتے تھے۔ہم سب کو علم ہے کہ نام نہاد تہذیب یافتہ لوگ اپنے قیدیوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں؟ ہمارے سامنے گوانتاناموبے اور عراق کی جیلوں کے واقعات و تصاویر ہمارے سامنے ہیں۔ مُلّاعمر نے بار بار پیشکش کی کہ وہ اُسامہ بن لادن کو سویڈن یا سوئزرلینڈ کی عدالت میں پیش کرنے پر تیار ہیں مگر امریکہ نے اس کو قبول نہیں کیا کیوں کہ وہ تشدّد اور سختیوں سے ان سے جھوٹا جرم قبول کروانے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اس جھوٹے الزام کو بنیاد بنا کر بش، بلیئر نے ایک ملک کو تباہ کردیا، ہزاروں کیا لاکھوں لوگ مارے گئے اورکروڑوں بے گھر ہوئے اور یہ درندگی 20 سال جاری رہی۔ انھوں نے اُسامہ کی ایک نقلی فلم بنائی تھی جس میںیہ دکھایا گیا تھا کہ وہ ایک ہاتھ سے ہوائی جہاز بنا کر دوسرے ہاتھ کو ٹاور بنا کر ٹکر مار رہے ہیں لیکن نقل کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے‘ فلم بنانے والا جاہل تھا وہ یہ بھول گیا کہ اُسامہ بائیں ہاتھ سے کام کرتے تھے اور اس نے ان کو دائیں ہاتھ سے جہاز مارتے دکھایا۔ میں نے فوراً ہی اس پر تبصرہ کیا تھااس سے پیشتر بش نے جھوٹے الزامات لگا کر عراق جیسے تہذیب یافتہ اور پُرامن ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بش ہو، بلیئر ہو، اُوباما ہو، کلنٹن ہو، یہ سب کٹر مسلم دشمن ہیں اور کسی بھی اسلامی ملک پر حملہ کرنے کا صرف بہانہ ڈھونڈتے ہیں۔ انھوں نے لیبیا، صومالیہ پر حملے کئے، شام پر حملے کئے اور مصر کو اسرائیل سے پٹوا پٹوا کر اس کا غلام بنوادیا۔

آج کل ہمارے حکمران صبح سے شام تک افغان لیڈروں اور عوام کو نصیحتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ بار بار ان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی زمین کسی غیرملکی قوت کو استعمال نہ کرنے دیں۔

افغانوں کو نصیحت کرنے سے پہلےہمیں پہلے اپنے ملک کے حالات کو دیکھنا چاہئے۔ ہمارےہاں روز خواتین کی کھلے عام عصمت دری ہوتی ہے ،یہاں معصوم بچیوں اور بچوں کی عصمت دری کرکے ان کو بہیمانہ طور پر قتل کرکے کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے‘ ہمارے یہاں انصاف کسی کو نہیں ملتااورہم دنیا کے بدترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ یہاں میڈیا کی آزادی بدترین سطح پر ہے اکثر تعلیمی ڈگریاں نقلی ہیں اور دنیا میں ان کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ بیروزگاری، ملاوٹ میں دنیا میں اوّل درجہ ہمارا ہے۔ شہروں میں غلاظت کے ڈھیر ہیں۔ تمام حکمران طبقہ صبح سے شام تک الزام تراشی میں مصروف ہے۔ تین برس بعد بھی ملبہ پچھلی حکومت پر ہی ڈالا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں پچھلے ستر برس میں کبھی اتنی نااہل حکومت نہیں آئی اور ہم افغانوں کو سبق پڑھانا چاہ رہے ہیں۔ لوگ علاج سے محروم اور بھوکے مررہے ہیں، انہیں لنگر خانوں کے ذریعے فقیر بنایا جا رہا ہے۔آئیے مغربی ممالک کی حرکت دیکھیے۔ذلیل و خوار شکست کھا کر بھاگ رہے ہیں اور پھر بھی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ پابندیاں لگانے کی باتیں کررہے ہیں، ان کی باتیں سن کر تعجب نہیں ہوتا۔ انھوں نے افریقیوں کو پکڑ کر غلام بنانے کی جو مہم چلائی تھی ان کی دماغی حالت اب بھی اُسی طرح کی ہے۔پٹھانوں کو تباہ کرنے کی دھمکی دی گئی تھی‘ ان کے گھر جلادئیے گئےتھے، درخت کاٹ دیئےگئے تھے، کنوئیں بند کردیئے گئےتھے۔ جوانوں کو نظر آتے ہی قتل کردیا جاتا تھا مگر اس کا کچھ نتیجہ نکلا؟ افغانوں نےاٹھارہ ہزار فوج کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ انھوں نے جنوبی امریکہ میں جو قتل عام کیا تھا وہ تاریخ میں موجود ہے۔ یہ نام نہاد تہذیب یافتہ لوگ اب بھی اپنی برتری پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ افغانوں کو جاہل، جنگلی سمجھتے ہیں مگر ان کو جو حالیہ سبق ملا ہے اس کے بعد اب یہاں دخل اندازی کرنے سے پہلے دس بار سوچیں گے۔

اب یہ چین کے پیچھے لگ گئے ہے۔ کوریا اور ویت نام کی جنگیں ان کو پرانی لگنے لگی ہیں۔ اگر کبھی چین کو دھمکانےکی کوشش کی تو روس اور شمالی کوریا ان کا جو حشر کرینگے وہ قابلِ دید ہوگا۔پاکستانیواپنے کام سے کام رکھو، آزاد افغان پالیسی بنائو۔ ان کی مدد کرو۔

تازہ ترین