کراچی (نیوز ڈیسک) ISIS خراسان طالبان سے لڑنے کیلئے تیار ، امریکی فوج کے ایئر لفٹ آپریشن کاآخری مرحلہ، خودکش دھماکوں کے خدشہ پر طالبان کا گشت ۔بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی ایس کے اور طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے درمیان اتحاد ہے۔ تفصیلات کے مطابق امریکی انخلا پر اسلامک اسٹیٹ خراسان یا ISIS-K ، جو افغانستان اور پاکستان کے بازو کے طور پر جانے والا دہشت گرد گروہ ہے، کی جانب سے مزید خوفناک حملوں کا خدشہ ہے۔ عبدالسید افغانستان اور پاکستان میں بنیاد پرست عسکریت پسند گروہوں کے سیکورٹی ماہر ہیں جو کہ سویڈن کے شہر لنڈ میں مقیم ہیں۔ انہوں نے گلوبل اوپینئنز میں لکھا ہے کہ جمعرات تک آئی ایس آئی ایس کے نے فروری 2020 کے امریکی طالبان امن معاہدے کے بعد سے افغانستان میں کسی امریکی ہلاکت کا سہرا نہیں لیا تھا۔ ان کے تازہ حملے سے اس گروپ نے طالبان کے اس دعوے کو کمزور کر دیا ہے کہ امریکا کے جانے کے بعد وہ سلامتی اور استحکام فراہم کر سکیں گے۔ 2016 سے 2020 تک امریکی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں بشمول صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’تمام بموں کی ماں‘ کے استعمال سے ISIS-K کو نقصان پہنچایا گیا۔ افغان فورسز اور طالبان ملیشیا نے گروپ کو اس کے مضبوط گڑھ ننگرہار اور کنڑ میں سزا دی۔ حالیہ برسوں میں ان کے ہزاروں ارکان گرفتار ، زخمی یا مارے گئے ہیں۔ اس پیش رفت کے ساتھ امریکی اور افغان حکام کے ساتھ ساتھ طالبان رہنماؤں نے اکثر ISIS-K کے خاتمے کا جشن منایا۔ عبد السید کے مطابق پچھلے ایک سال سے انہوں نے دیکھا ہے کہ کس طرح اس گروپ نے ایک نئی شکل اختیار کی ہے تاکہ زیادہ خطرناک ہو جائے؛ انہوں نے دوبارہ زندہ ہونے کے لیے دو قابل ذکر اقدامات کیے ہیں۔ سب سے پہلے طالبان کے امریکا کے ساتھ معاہدے پر پہنچنے کے بعد ISIS-K نے ان کے خلاف ایک طویل نئی جنگ کا اعلان کیا۔دوسرا اس نے ایک شہری نیٹ ورک کی تعمیر شروع کی جس میں قائدین کو بلند کیا گیا اور آپریشنل جنگجوؤں کو کابل جیسے شہروں سے بھرتی کیا گیا جن میں جنگ کے سخت ، تعلیم یافتہ اور انتہائی بنیاد پرست سلفیت کے پیروکار اور سابق افغان عسکریت پسند گروہوں کے کچھ اخوانی ملیشیا کے ارکان شامل ہیں۔ یہ جنگجو شہری حکمت عملی کا کافی تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کابل اور جلال آباد میں مہلک حملے کیے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی ایس کے اور طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے درمیان اتحاد ہے۔ جب افغان انسداد دہشت گردی ایجنسیوں نے حقانی کے سابق دہشت گردوں کو گرفتار کیا جو کابل میں ISIS-K میں شامل ہو ئے تو انہوں نے فرض کیا کہ وہ امریکا کے ساتھ طالبان کے دوحہ امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے لیے تشدد کے پیچھے تھے۔ عبد السید کے مطابق یہ ایک امکان ہے لیکن ISIS-K کا لٹریچر اور پروپیگنڈا مواد ، جس کا میں نے تفصیل سے مطالعہ کیا ہے ، طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے رہنماؤں اور ارکان کو قتل کرنے پر زیادہ زور دیتے ہیں اور اسے امریکا اور دیگر مرتدوں سے زیادہ ’مذہبی فریضہ‘ قرار دیتے ہیں۔ طالبان ، جیسا کہ یہ شورش سے حکومت میں منتقل ہوئے ہیں، ISIS-K پر قابو پانے کی کوشش کریں گے لیکن ایسا کرنے کیلئے اضافی قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لیے اسے اپنی کچھ بنیاد پرست پوزیشنوں سے انکار کرنا پڑ سکتا ہے جس کے نتیجے میں اسلامک اسٹیٹ کی صفوں میں منحرف افراد کی ایک اور لہر پیدا ہو سکتی ہے۔ آئی ایس آئی ایس کے پہلے ہی طالبان پر اپنے اصل جہادی ماضی سے "انحراف" کرنے پر حملہ کر چکی ہے۔ مغرب کے لیے آئی ایس آئی ایس کے کوئی خطرہ نہیں، کم از کم ابھی تک نہیں۔ یقیناً اگر ان کے خلاف حملے جاری رہتے ہیں جیسا کہ حالیہ دنوں میں کیے گئے ڈرون حملے تو جوابی کارروائی میں یہ گروپ افغانستان سے باہر دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی شروع کر سکتا ہے۔ اس سے ڈرنے کی وجہ ہے۔ ویسٹ پوائنٹ کی رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی ایس کے سیل نے شامی اتحادیوں کے ساتھ مل کر جرمنی میں امریکی اور نیٹو کے فوجی اڈوں پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ جرمن پولیس نے اپریل 2020 میں اس سازش کو ناکام بنا دیا تھا لیکن یہ مستقبل میں گروپ کی طرف سے درپیش انسداد دہشت گردی کے چیلنجوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ ابھی کے لیے ہم ISIS-K سے مزید تشدد کی توقع کر سکتے ہیں کیونکہ طالبان نے کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ اس گروپ کا خوفناک تشدد افغانستان اور اس کی پریشان شہری آبادی کو خوفزدہ کرتا رہے گا۔ افغانستان تشدد کے ایک اور خطرناک مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔