بلاول بھٹو کی آنکھوں کے عین سامنے ان کے پرکھوں کی سیاسی کمائی لٹنے جا رہی ہے، جس سیاسی عمارت کی تعمیر کرتے کرتے ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو اپنی قبروں میں اتر گئے، اس کی بنیادیں ہل رہی ہیں، چاروں صوبوں کی زنجیر ایک صوبے تک محدود ہوتی جا رہی ہے، کرپشن اور بدانتظامی اس کی پہچان بن گئی ہے لیکن بلاول بھٹو ہیں کہ جاگنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔30نومبر 1967کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پاکستان پیپلز پارٹی کا تاسیسی اجلاس ہوا جس میں حنیف رامے جیسے دانشور معراج محمد خان جیسے ترقی پسند اور ڈاکٹر مبشر حسن جیسے لائق لوگ بھٹو کے گرد جمع تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت میں کچھ ایسی مقناطیسیت تھی کہ پاکستانی قوم ان کی طرف کھنچی ہی چلی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی مقبولیت کی ایسی لہر چلی کہ بڑے بڑے سیاسی برج ان کے سامنے نہ ٹھہر سکے، 1971کے بعد بحرانی دور میں انہوں نے قوم کو سنبھالا، نیا جذبہ عطا کیا، بھارت کے ساتھ کامیاب مذاکرات کیے، دنیا بھر کے عالمی لیڈروں کو اپنے ملک میں جمع کیا، 1973کا متفقہ دستور دیا، قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دے کر ملک میں ایک مستقل مذہبی جھگڑے کو ختم کر دیا، قائداعظم محمد علی جناح کے بعد وہ پہلے ایسے لیڈر بن کر ابھرے جن کے اشارۂ ابرو پر لوگ اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے، انہوں نے اپنے طرزِ سیاست سے اپنے مخالفین کو بھی ششدر کر دیا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ سیاسی غلطیوں سے پاک لیڈر تھے۔ اس کے باوجود وہ برصغیر کے ایسے رہنما تھے جن کے پائے کا ایک لیڈر بھی اس خطے میں موجود نہ تھا۔ محترمہ بےنظیر بھٹو ان کے متبادل کے طور پر پارٹی قیادت کے مشکل منصب پر فائز ہوئیں۔ وہ غیرملکی تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ ایک روشن خیال خاتون تھیں، ان کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستانی موقف توجہ سے سنا جاتا تھا لیکن ان کے ناگہانی قتل نے پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی نقصان پہنچایا۔ اب پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ نوجوان بلاول بھٹو کے پاس ہے انکے سامنے انکے اثاثے لٹ رہے ہیں لیکن معلوم نہیں کیوں وہ حقائق سے نظریں چرا کر خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ صوبہ سندھ پر 15سال سے ان کی حکومت ہے،صوبہ میں بد انتظامی کے ایسے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں جن کا پاکستان میں تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا،ووٹ کی طاقت نئی نسل کو منتقل ہو چکی ہے۔ اب ووٹ کی طاقت اس نوجوان کے ہاتھ میں ہے جس کو 50سال پرانے کارناموں یا 20سال پرانی قربانیوں سے غرض نہیں۔ وہ اب افسانوی قصوں کے بجائے کارکردگی کی بات کرتا ہے۔ آج کا نوجوان سندھ اور دیگر صوبوں کے مابین ترقی کا موازنہ کرتا ہے، آج کا ووٹر سوشل میڈیا سے تربیت یافتہ ہے۔ وہ امریکی صدر بائڈن سے لیکر روسی صدر پیوٹن تک کے خیالات سے آگاہ ہے۔ آپ کیسے اِس ووٹر سے پرانی قربانیوں کے نام پر ووٹ لیں گے؟ پیپلزپارٹی نے اپنے 15سالہ دورِ حکومت میں کراچی جیسے خوبصورت اور بین الاقوامی شہر کو کھنڈر بنا کر رکھ دیا ہے۔ نیا انفراسٹرکچر تو کیا بننا تھا پرانا بھی ناقابلِ استعمال ہوتا جارہا ہے۔ کراچی سے ملک کا 70فیصد ٹیکس جمع ہوتا ہے لیکن کراچی پر صرف 12یا 13فیصد خرچ ہوتا ہے۔ سندھ حکومت کی سرکاری دستاویزات کے مطابق گزشتہ 10سال کے دوران سینکڑوں ترقیاتی اسکمیں ایسی ہیں جو مکمل نہ کی جا سکیں جن میں لوکل گورنمنٹ کی 394اسکیمیں بھی شامل ہیں جن کی مجموعی لاگت 27900ملین روپے ہے، اِن میں کراچی کی 100سے زائد اسکیمیں بھی شامل ہیں۔ جب کہ حیدرآباد، بے نظیر آباد، لاڑکانہ، بدین، جیکب آباد، ٹنڈو محمد خان، گھوٹکی، کشمور، ٹھٹھہ اور مٹیاری سمیت دیگر اضلاع کے منصوبے بھی مکمل نہیں کیے جا سکے۔ سانگھڑ، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الٰہ یار، گھوٹکی اور مٹیاری میں 9سال بعد بھی پبلک اسکول قائم نہ ہو سکے، 2008میں 500سے زائد اسکولوں کی اپ گریڈیشن کی منظوری ہوئی لیکن تاحال ایسا کچھ نہ ہوا، چانڈکا میڈیکل کالج کے لئے 50بیڈز والا سرجیکل آئی سی یو وارڈ بھی تاحال قائم نہ ہو سکا۔ سندھ واٹر بورڈ کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے۔ اس ترقی یافتہ دور میں بھی سندھ خصوصاً کراچی کے لوگ پینے کے صاف پانی کو ترس رہے ہیں۔ دوسری طرف 2008سے 2013ءتک صوبہ پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت نے اتنے ترقیاتی کام کیے کہ 2013کے الیکشن میں یہ ترقیاتی منصوبے مسلم لیگ ن کی کامیابی کا سبب بنے۔ لاہور اور دوسرے بڑے شہروں کی شکل ہی بدل گئی۔ غیرملکی مہمان پنجاب کی ترقی دیکھ کر حیرت زدہ ہو جاتے۔ البتہ اب بزدار حکومت پوری طرح اس کوشش میں ہے کہ لاہور کو بھی کچرا کنڈی میں تبدیل کیا جائے۔ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نااہلی کے ریکارڈ بنانے میں سندھ کو بھی پیچھے چھوڑ رہی ہے۔