• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گفتگو کا آغاز کیا جائے اور یہ عزم بھی موجود ہو کہ گفتگو نتیجہ خیز ہو تو بہرحال مثبت نتیجہ برآمد ہو ہی جاتا ہے ۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین جاری حالیہ بات چیت کو اسی امید کے ساتھ پرکھنا چاہئے۔ عراق میں عرب ملکوں ، فرانس اور دو عجمی ملکوں کی گزشتہ ہفتے ایک علاقائی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کے منعقد کرانے میں عراقی حکومت پیش پیش تھی تاکہ اس کا ایک غیر جانبدار سہولت کار کے طور پر کردار سامنے آئے اور عرب دنیا کی سیاست میں اس کی اہمیت بحال ہو۔ اس کانفرنس کے انعقاد میں فرانس شریک میزبان کے طور پر متحرک تھا ‘فرانسیسی صدر میکرون ، مصری صدر عبدالفتاح السیسی ، اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ جبکہ امیر قطر شیخ تمیم نے اس اہم کانفرنس میں شرکت کی۔ ترکی، سعودی عرب، ایران، کویت اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ بھی کانفرنس میں موجود تھے ۔

اس کانفرنس میں دو عجمی ممالک ایران اور ترکی شامل ہوئے لیکن وطن عزیز کو کسی نے دعوت نہ دی جو ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ ہم مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا کی سیاست سے لاتعلق نہیں رہ سکتے ۔اس کانفرنس میں ترک صدر طیب اردگان نے شرکت نہ کر کے غلطی کی کیوں کہ ان کی وہاں پر موجودگی مزید اہمیت کی حامل ہوتی بہرحال ترکی کے وزیر خارجہ وہاں پر موجود تھے ۔ اس کانفرنس کی اہمیت اس لئے بہت بڑھ جاتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ گزشتہ کئی عشروں سے پے در پے سیاسی بے چینی کا شکار چلا آرہا ہے اور اب یمن کی خانہ جنگی اور لبنان کے بگڑتے ہوئے سیاسی حالات ایک مستقل چیلنج کی صورت میں سامنے کھڑے ہیں ۔ اس کے علاوہ جو حشر سامانیاں داعش نے ڈھائی تھیں اس کا خطرہ بھی ہنوز پوری شدومد کے ساتھ موجود ہے اور اس امر میں کوئی کلام ممکن نہیں کہ یہ مسئلہ صرف وقتی طور پر دبا ہے اور جیسے ہی اس کو موقع ملا تو دوبارہ سے پوری طاقت سے سر اٹھا لے گا اور اب تو افغانستان کے تازہ ترین حالات میں اس کا امکان بہت بڑھ گیا ہے کہ اگر افغانستان میں بدامنی اور بے چینی پھیلتی ہے تو اس کا بھرپور فائدہ اٹھا کر داعش افغانستان کی سرزمین کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرے گی ۔ عرب دنیا میں کئی ماہ سے سعودی عرب اور یمن کے مابین کھینچاتانی اور رسہ کشی کی کیفیت ہے جس کے مضر اثرات تمام عالم اسلام پر غیر معمولی حد تک پڑ رہے ہیں ۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ گفتگو کا آغاز ہی اس معاملے سے کیا گیا،سعودی عرب اور ایران کی قیادت کسی نہ کسی سطح پر باہمی تعلقات کے منفی اثرات کو محسوس کر رہے ہیں اسی لیے عراقی اعلیٰ حکام نے اس کانفرنس کے موقع پر اس خبر کی بھی تصدیق کی کہ ان کی سرزمین پر سعودی عرب اور ایران کے مذاکرات جاری ہیں اور ان مذاکرات کی ابتدا اس کانفرنس کے انعقاد سے نہیں ہوئی بلکہ اس سال کے آغاز سے دونوں ممالک کے حکام عراقی سرزمین پر باہمی گفت و شنید میں مصروف ہیں ۔ اس کانفرنس میں ان دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ بھی شریک تھے لیکن دونوں کی کسی بالمشافہ ملاقات کی خبر نہیں آئی مگر اس کے باوجود اس بات کی مکمل طور پر تصدیق ہوتی رہی کہ دونوں ممالک باہمی گفتگو میں مصروف ہیں جو ایک خوش آئند اقدام ہے ۔ ویسے تو بظاہر اس کانفرنس کا بنیادی نکتہ عراق تھا مگر یمن اور لبنان کے علاوہ پانی کے بحران اور دیگر تنازعات کو بھی زیر بحث لایا گیا ۔ اس کے علاوہ اس بات کی بھی بہت اہمیت موجود رہی کہ صدر بائیڈن کے اعلان کے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیںکہ سال کے آخر تک تمام امریکی فوج عراق میں آپریشن اختتام کو پہنچا دے گی ۔ صرف تربیت کے لیے آئے فوجی عراق میں ٹھہریں گے جب کہ فوجی کارروائیاں ختم کر دی جائے گی ۔

ویسے تو اس وقت امریکہ کے صرف ڈھائی ہزار فوجی وہاں پر موجود ہے ۔ لیکن امریکی موجودگی اور ان کا فوجی کارروائیوں میں حصہ لینا بہت مطلب رکھتا ہے جو ختم ہو جائے گا ۔ اس موقع پر فرانسیسی صدر میکرون نے امریکہ سے مختلف رائے کا اظہار کیا ، انہوں نے واضح کیا ہےکہ امریکہ جو چاہے فیصلہ کرے لیکن فرانس عراق میں اپنی فوجی موجودگی کو برقرار رکھے گا ، دہشت گردی اور داعش کے حوالے سے عراق کے شانہ بشانہ موجود رہے گا ۔ یہ اس کی نشاندہی کرتا ہے کہ فرانس مشرقِ وسطیٰ کے حالات کو امریکی آنکھ سے نہیں دیکھ رہا ہے بلکہ وہ محسوس کرتا ہے کہ یہاں پر کوئی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے منفی اثرات فرانس کے مفادات پر بھی پوری طرح مرتب ہوں گے اور یہ فرانس کو گوارا نہیں ہے بہرحال اگر ایران اور سعودی عرب کے مذاکرات نتیجہ خیز ہو گئے تو ایسی صورت میں مشرق وسطیٰ کی سیاست میں بہت بہتری وقوع پذیر ہو گی اور داعش کے خطرے سے بھی یہ دونوں مل کر باآسانی نبٹ سکتے ہیں؟ کسی اور کی ضرورت ہی نہیں رہے گی بشرطیکہ اب بیل منڈھے چڑھ جائے ۔ آخر میں اپنی مادرِ علمی پنجاب یونیورسٹی میں اعزازی ڈگری کلچر پر اظہار افسوس کروں گا کہ یہ ایک بزنس مین کو دے دی گئی۔

تازہ ترین