• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سدرپاکستان مسلم لیگ(ضیاءالحق شہید)

آج پوری قوم56 واں یوم دفاع منار رہی ہے، کل7 ستمبر کو یوم فضائیہ منایا جائے گا اور پھر اس سے اگلے روز یوم پاک بحریہ منایا جائے گا، آج چونڈہ، برکی اور ملکی سرحدوں کی بے مثال حفاظت اور شہداء کی قربانیوں کو یاد کرنے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے، ایک عہد کی تجدید کا دن ہے، پاک فوج کی بے مثل جرات، بہادری اور دفاع صلاحیت پر عوام کا بے پناہ اعتماد گراں قدر اثاثہ ہے، آج پاک فضائیہ ایک بار پھر اس عزم کو دہارئے گی کہ وطن عزیز کی فضائی حدود کی حفاظت کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا، پاک بحریہ بھی ملک کی سمندری حدود کے مفادات کے ہر ہر لمحے تحفظ کی قسم کھائے گی اور اپنے عہد کی تجدید کرے گی، ستمبر65ء کی جنگ میں بری فوج نے چونڈہ، برکی سمیت ہر محاذ پر دشمن کے دانت کھٹے کیے، نندی پور میں ضیاء الحق شہید نے آرمڈ ڈویژن کے جے ایس او تعینات کیے گئے، چونڈہ کے محاذ پرکمپنی کمانڈر کیپٹن عبدالوحید کاکڑ تعینات تھے 65ء کی جنگ مختلف محاذوں پر لڑی جارہی تھی۔ کہیں پے ٹینکوں کی ٹینکوں سے، کہیں پے انفینٹری کی انفینٹری سے اورکہیں پیادوں کی پیادوں سے لڑائی ہو رہی تھی۔چونڈہ کے محاذ پے انڈین فوج سے ہماری بھرپور لڑائی ہوئی۔سیالکوٹ سیکٹر میں سب سے پہلے ہندوستان کے ون آرمڈ ڈویژن نے بارڈر کراس کیادشمن کی فوج نے سیالکوٹ کے چاروا اور سیاراجکے کے علاقے میں بارڈر کراس کیا۔دشمن نے دو تین سو ٹینکوں کے ساتھ حملہ کیا جبکہ پاکستان کی سرحد کے دفاع کے لیے محض دوسو فوجی تھے جو مختلف جگہوں پر تھے ہمارے جوانوں نے بھارتی فوج کا بھرکس نکال دیا بہت سے فوجی ہم نے قیدی بھی بنا لیے تھے۔ پھربھارتی فوج کو چار پانچ میل پیچھے دھکیل دیا دنیا میںکسی اور جگہ ٹینکوںاتنی زبردست جنگ نہیںہوئی جتنی بڑی جنگ چونڈہ کے محاذ پر ہوئی تھی ہماری پلٹن آرمڈکور کی یونٹ25کیلولری نے 8ستمبر کو ہندوستان کے ٹینکوں کے ساتھ اورآرمڈکورکی یونٹ گریژن کیلولری نے15ستمبر کو ٹینکوں کی ٹینکوں کے ساتھ لڑائی کے وقت بہت اچھے کارنامے انجام دیئے تھے۔پاکستان ایئرفورس بری فوج کو شان دار مدد دے رہی تھی جب دشمن کے جہاز آتے تھے تو ہمارے جہاز ان کو وہیں سے بھگا دیتے تھے۔چھ ستمبر1965ء کی جنگ میں اس محاذ پر چونڈہ کے ایک خاص گائوں کے اردگرد دفاع لیا ہوا تھا اور ہندوستان اس دفاع کو توڑ کر چونڈہ پر قبضہ کر نا چاہتا تھا۔بھارتی فوج 8ستمبر سے لے کر سیز فائر ہونے تک چونڈہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتی رہی۔بھارتی فوج گائوں کے جس کونے سے بھی حملہ کرنے کی کوشش کرتی، ہمارے جوابی حملے سے وہ بھاگ جاتے تھے ہماری ایک پلٹن چونڈہ کے ریلوے اسٹیشن کا دفاع کر رہی تھی دشمن بھاری فوجی ساز سامان کے باوجود چونڈہ پر قبضہ نہیں کرسکاتو نمبر چھ ماونٹین انفینٹری ڈویژن کو بھیجا، ڈویژن میں فوجی زیادہ ہوتے ہیں جبکہ آرمد ڈویژن میں ٹینک زیادہ ہوتے ہیں۔انفینٹری ڈویژن اس وقت بھارت نے چینیوں سے پہاڑوں میں لڑنے کے لیے تیار کی تھی۔ہندوستان نے 16ستمبر کو چونڈہ پر قبضہ کا ٹاکس انفینٹری ڈویژن کو دیا 18ستمبر کو پورے ڈویژن نے چونڈہ پر حملہ کیا مگر ہماری فوج نے ان کو پسپا کیا، ان کے بہت سے فوجی مارے گئے تھے جنگوں کی تاریخ میں جنگ عظیم دوئم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی چونڈہ کے مقام پر لڑی گئی جہاں بھارتی فوج چھ سو ٹینک لے کر پاکستان میں داخل ہوگئی تھی۔ پاک فوج کی زبردست جوابی کارروائی نے دشمن کے45ٹینک تباہ کر دیئے اور کئی ٹینک قبضے میں لے لیے تھے جنگ کا پانسہ پلٹتا دیکھ کر بھارتی فوجی حواس باختہ ہوگئے اور ٹینک چھوڑ کرفرار ہونے لگے تو پاک فوج نے دشمن کے علاقے میں کئی چوکیوں پر قبضہ کر لیا اسی لیے چونڈہ کے مقام کو بھارتی ٹینکوں کیلئے ٹینکوں کا قبرستان کہا جاتا ہے یوم دفاع 2021ء بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کیوںکہ ہم بہت سے چیلنجوں کا مقابلہ کر رہے ہیں بھارت نے آج تک ہماری آزادی کو تسلیم نہیں کیا بھارت کو جب بھی موقع ملا اُس نے اپنی جارحیت کا مظاہرہ کیا، ابھی سے اب چونڈہ کے محاذ کی طرح افغانستان میں بھی منہ کی کھانی پڑے گی65 کی جنگ میں جس طرح پاک فوج نے بہادری دکھائی بڑے بڑے ماہرین جنگ نے اس حقیقت کا صاف لفظوں میں اعتراف کیا ہے کہ پاکستانی فوج سامان حرب اور تعداد کے لحاظ سے دشمن کے مقابلے میں بہت کم تھی لیکن اُس نے بھارت کی کثیرافواج اور اس کے عسکری جاہ وجلال کو محض قوتِ ایمانی کے بل پر تہس نہس کر دیا، اسی لیے 6ستمبر ہماری تاریخ کا ایک عصر آفرین اور تاریخ ساز دن ہے۔بھارت کے اِس جارحانہ حملے سے قوم میں یک جہتی اور یکسوئی تھی پوری پاکستانی قوم اپنے سرفروش مجاہدوں کی پشت پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی ہو گئی۔ ادیبوں کے قلم قوم میں جذبہ حب الوطنی اور یک جہتی کے فروغ کے لیے اٹھے۔گلوکاروں کے نغمے فضا میں ملی ترانوں کی صورت میں گونجنےلگے‘ ڈاکٹروں کے نشترمجاہدین کے کام آئے، شاعروں کے نغمات موسیقاروں کی تاروں اور گلوکاروں کے لبوں پر مچلنے لگے، ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں قومی دفاع کا رنگ بھر گیا، خواتین فوری طبی امداد کے لیے میدان عمل میں آئیں، طالب علموں نے نیشنل اسکیم کے تحت اپنے آپ کو پیش کیا، شہری دفاع کے رضا کار سروں سے کفن باندھ کر میدانِ کارزار میں کود پڑے,حالات و واقعات شاہد ہیں کہ یہ جنگ ایسی جنگ تھی جوجسموں کے ساتھ ہی نہیں،دلوں، دماغوں، ضمیروں اور ایمانوں کے ساتھ لڑی گئی ہماری فوج نے جوانمردی اورجذبہء شہادت کا وہ انمول مظاہرہ کیا کہ دشمن کو واپس اپنے قدموں پر لوٹنا پڑا اور محاذ پر بہت سا اسلحہ ضائع کرنا پڑا لاہور کے محاذ پر ہماری فوج کی زبردست کامیابی سے دشمن کے قدم اکھڑ گئے۔ برکی سیکٹر میںہمارے جوانوں کی قلیل تعداد نے دشمن کے ایک بڑے لشکر کے دانت کھٹے کر دیے۔آج میجر عزیز بھٹی شہید، فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن شہید، بریگیڈئر شامی شہید، لیفٹیننٹ افتخار جعفر اور دوسرے کتنے ہی شہیدوں اور غازیوں کے نام اور ان کی جانبازی اور جان فروشی کی داستانیں پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر ہیں۔10ستمبر کے منظم بھارتی حملے میں بھارت نے اپنی طاقت کا زبردست مظاہرہ کیا۔ بھارتی ٹینکوں کے مقابلے میں ہمارے ٹینکوں کی تعداد بہت کم تھی لیکن ہمارے جیالے ان ٹینکوں کے نیچے اپنے جسموں پر بم باندھ کر لیٹ گئے اور جو بھی ٹینک اس مجاہد کے اوپر سے گزرتا بم پھٹتے ہی فضا کی نذر ہو جاتا۔بھارتی فضائیہ نے لاہور اور سرگودھا کے ہوائی اڈوں پر حملے کیے لاہور کے ہوائی حملوں میں دشمن کو زبردست شکست فاش ہوئی سرگودھا کی فضا تو بھارتی طیاروں کا قبرستان بنی، لاہور کے بزرگ شہری ستمبر 1965ء کی وہ دوپہرکیسے بھول سکتے ہیں جب لاہور کی فضائوں میں آٹھ بھارتی گدھوں کے خلاف چار پاکستانی شاہین معرکہ آراء تھے اور زندہ دلان لاہور فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے،اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے 2منٹ میں بھارت کے پانچ طیارے جبکہ مجمو عی طور پر سات طیارے گرا کرفضائی جنگ کا عالمی ریکارڈ قائم کیا، لمحوں میں ہمارے شاہینوں نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے۔ دو جنگی طیاروں کا حشر دیکھ کر باقی چھ بھارتی طیارے دم دبا کر بھاگ نکلے دو بھارتی طیارے شکار کرنے والےا سکواڈرن لیڈر شربت علی چنگیزی، فلائٹ لیفٹیننٹ سید نذیر احمد جیلانی اور فلائٹ لیفٹیننٹ امان اللہ خان تھے۔ہمارے ہوا بازوںنے جنگ کے پہلے روز ہی دشمن فضائیہ مفلوج کرکے رکھ دی۔1965ء کی جنگ میںپاکستان کے پاس 134 لڑاکا بمبار طیارے تھے جن میں98قدیم سیبر،24بمبار بی57اور 12اسٹار فائٹر (ایف 104) تھے جبکہ انڈین طیاروں کی تعداد چھ سو تھی جو جدید اور تیز رفتار طیارے تھے۔ جن میں روسی ساختہ بیس مگ 21 طیارے بھی تھے۔ ان میں آواز کی رفتار سے تیز اڑنےوالے جدید ترین طیارے بھی شامل تھے یکم ستمبر 1965ء کو چھمب میں پاکستانی ہوا بازوں نے ایک جھڑپ میں4بھارتی طیارے مار کر دشمن پر دہشت طاری کر دی دنیا بھر کی فضائیہ کا کوئی پائلٹ بھی پاکستانی ہوا باز( ایم ایم عالم) کا 30 سیکنڈ میں دشمن کے چھ جہاز شکار کرنے کا ریکارڈ نہیں توڑ سکا،جنگ کے پہلے روز6ستمبر کو پاکستانی شہبازوں نے جالندھر سے40میل دورکے ’’ہلواڑہ‘‘ کا ہوائی اڈا اسکواڈرن لیڈر رفیقی کی رہنمائی میں فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن اورسیسل چوہدری نے تباہ کردیا، لیک معرکے میں رفیقی اور یونس حسن شہید ہو گئے۔ سیسل چوہدری واپس آئے،پاک فضائیہ نے جنگ کے چھٹے روز دشمن کی آنکھ پھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس مشن میں ونگ کمانڈر انور شمیم، اسکواڈرن لیڈر منیر اور فلائٹ لیفٹیننٹ امتیاز احمد بھٹی شامل تھے،اس معرکے میں منیر کا جہاز ہٹ ہو گیا، لیکن کمانڈر شمیم نے ریڈار کی آنکھ پھوڑ دی اور چوہدری نے نیچے سے اینٹی ایئر گنوں کا بھرکس نکال دیا۔گورداسپور ریلوے اسٹیشن پر اسلحہ سے لدی مال گاڑی کو تباہ کرنے کا اعزاز اسکواڈرن لیڈر علائوالدین کی زیر کمان فائٹ لیفٹیننٹ امان اللہ،فلائٹ لیفٹیننٹ سلیم اور فلائٹ لیفٹیننٹ عارف منظور کو حاصل ہوا تھا،71روزہ جنگ میں سب سے زیادہ فضائی حملے سرگودھا کے ہوائی اڈے پر ہوئے جنگ کے اختتام پر حکومتِ پاکستان نے اعزازات دینے کا اعلان کیا۔ لاہور، سیالکوٹ اور سرگودھا کو ہلالِ استقلال عطا کرنے کا فیصلہ ہوا،1965ء کی جنگ میں ہماری فتح قوت ایمانی کی آئینہ دار ہے۔ یہ جنگ ہم نے محض اپنے جذبہ جہاد کی کرشمہ سازی سے جیتی ہے پاک فوج نے6 ستمبر کو ایک منفرد انداز سے منانے کا فیصلہ کیا ہے اور پوری قوم ملک کے دفاع کے لیے اس کے ساتھ کھڑی ہے ہم سب کا فرض ہے کہ نسلِ نو کو شہداء ستمبر1965ء کے کارناموں سے روشناس کروائیںکہ پاکستان دنیا میں ہمارا تشخص ہے۔ لاہور محاذ کے کمانڈرجنرل سرفراز خان تھے جن کے پاس صرف ایک ڈویژن فوج، تین صد بھارتی توپوں کے مقابلے میں صرف ایک سو توپیں، بھارتی تین جرنیلوں کے مقابلے میں صرف ایک پاکستانی جرنیل، دشمن کے 9 بریگیڈیئر کے مدمقابل پاک فوج کے صرف تین بریگیڈیئر، بریگیڈیئر آفتاب احمد خان، بریگیڈیئر قیوم شیر اور بریگیڈیئر اصغرتھے۔جنگ کے دو روز بعد دشمن نے اپنا مشہور چھاتہ بردار بریگیڈ نمبر پچاس بھی واہگہ کے میدان جنگ میں اتار دیا تھا۔ اس طرح دشمن کی حملہ اور لشکر کی نفری، صرف پیادہ پینتیس ہزار (35000) جس کے مقابلے پاکستانی سپاہ کی تعداد پانچ ہزار (سات گنا کم) اس میں دشمن کی سٹنگ رجمنٹوں کی نفری شامل نہیں۔‘‘ پاک فوج کے کرنل امداد علی اور کرنل گلزار احمد کے توپخانوں کے مجاہدوں نے بی آر بی کے پار ہی دشمن کی اسی فیصد نفری کا مرگھٹ بنا دیا۔باٹا پور کا بی آر بی کا پل دشمن کیلئے پل صراط بن گیا تھا اور اس کا سارا فائر اسی پر آرہا تھا۔ یہی پل جنرل سرفراز خان، بریگیڈیئر آفتاب احمد خان اور بلوچ رجمنٹ کے کمانڈنگ آفیسر کرنل تجمل حسین کیلئے جنگ کا انتہائی نازک مسئلہ بن گیا تھااس موقع پر جنرل سرفراز خان نے ایک نہایت دلیرانہ فیصلہ کیا۔ اپنی ’’اسٹرائیک فورس‘‘ کو میدان میں اتار دیا بریگیڈیئر قیوم شیر نے بھینی کی طرف سے واہگہ کی سمت حملہ کیا۔ بھارت کے پندرہویں ڈویژن کا کمانڈ جنرل نرنجن پرشاد اپنے ہیڈ کوارٹر کی چار جیپیں مع جنگی دستاویزات و نقشہ جات بھسین کے قریب چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ اسی طرح ایک مورچہ بھسین کے قریب تھا جسے بھارتیوں نے اکھاڑنے کیلئے پوری پوری پلٹنوں اور ٹینکوں سے حملے کئے، لیکن اپنا ہی سر پھوڑنے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔ اس مورچے پر دشمن 23 ستمبر کی فائر بندی کے مقررہ وقت 3 بجے کے پندرہ منٹ بعد تک آگ برساتا رہا۔ اس طرح فائربندی3بجے کے بجائے 3.15 بجے عمل میں آسکی۔

تازہ ترین