جمہوری ریاستوں میں بلدیاتی ادارے ’’جمہوریت کی نرسری‘‘ کہلاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں بلدیاتی ادارے زیادہ تر غیر جمہوری بنیادوں پر چلائے جا تے ہیں ۔ حیرت کی بات تویہ ہے کہ جمہوری ادوار کے برعکس فوجی ادوار میں ان اداروں کی بحالی پر زیادہ توجّہ مرکوز کی گئی۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں وضع کیے گئے بلدیاتی نظام، خوبیوں اور خامیوں سے قطع نظرآج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔
گزشتہ عشرے سے مُلک میں جمہوری عمل بحال ہونے کے باوجود بلدیاتی انتخابات کے لیے عدلیہ سے رجوع کرنا پڑااور یوں ایک صبر آزما مرحلہ طے کرنے کے بعد 2013ء میں بلوچستان اور 2015ء میں سندھ، پنجاب اورخیبر پختون خوامیں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوپایا۔
واضح رہے، بلدیاتی نظام کے قوانین کی رُو سے بلدیاتی اداروں کی مدّت چار سال پر مشتمل ہوتی ہے، جس کے بعد الیکشن کمیشن 120 دن کے اندر انتخابات کروانے کا پابند ہوتا ہے۔ تاہم ،اس وقت بلدیاتی اداروں کو تحلیل ہوئے ایک سے دو سال کا عرصہ بیت چُکا ہے، لیکن صوبائی حکومتوں کی جانب سے تاحال انتخابات کے انعقاد پر آمادگی نظر نہیں آتی۔جہاں تک کنٹونمنٹ بورڈ زکی بات ہے،تو بلدیاتی سطح پر یہاں بھی پس و پیش سے کام لیا جاتا رہا کہ آخری بار 2015ء میں ان کے انتخابات ہوئے تھے۔
یعنی، 2019ء میں کنٹونمنٹ بورڈ کے منتخب نمایندوں کی مدّت پوری ہوچُکی ہے، لیکن گزشتہ دو برسوں میں انتخابات نہیں کروائے جاسکے۔ تاہم،اب دو سال کی تاخیر کے بعد 12ستمبر 2021ء کو کنٹونمنٹ بورڈ زمیں انتخابی میلہ سج رہا ہے۔ واضح رہے، 2015ء کے انتخابات بھی سترہ سال بعد منعقد ہوئے تھے۔ گرچہ سابق صدر، پرویز مشرف نے 2001ء میں اپنا بلدیاتی نظام متعارف توکروایا تھا، مگر بلدیاتی انتخابات کا دائرۂ کارکنٹونمنٹ بورڈ زتک نہیں بڑھایا ۔یہی وجہ ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ میں جمہوری عمل کی بحالی کے لیے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا اور بالآخر سپریم کورٹ کے حکم پر 2015ء میں جب کنٹونمنٹ بورڈز میں انتخابات کا اعلان ہوا تو قانون کی رو سے انتخابی عمل غیر جماعتی بنیادوں پر مشتمل رکھا گیا،جس کے خلاف دوبارہ عدالت سے رجوع کیا گیا۔
اس پیٹیشن میں درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ’’آئین تمام شہریوں کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دیتا ہے۔ غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات آئین سے متصادم ہیں۔‘‘ جس کے بعداپریل 2015ء میں مُلک بھر میں پہلی مرتبہ جماعتی بنیادوں پرکنٹونمنٹ بورڈ زکے انتخابات منعقدہوئے ۔اسی طرح رواں سال ہونے والے انتخابات بھی جماعتی بنیادوں ہی پر ہو رہے ہیں۔
مُلک بھر میں ماہ ِاگست کے دوران جہاں جشنِ آزادی کی تقریبات منعقد کی گئیں، وہیں کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقوں میں سیاسی گہما گہمی دیکھنے میںآئی۔ یادرہے، کنٹونمنٹ بورڈز افواجِ پاکستان کے زیر ِانتظام ایسے علاقےیا چھاؤنیاں ہیں، جن کی حدود میں شہری آبادی بھی واقع ہے۔’’ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹس‘‘ کی ویب سائٹ کے مطابق مُلک بھر میں 44کینٹ بورڈز ہیں۔ تاہم، الیکشن کمیشن اس وقت 42 بورڈز میں انتخابات کروا رہا ہے۔بلوچستان کے اورماڑہ کنٹونمنٹ اور خیبر پختون خوا کے سوات کنٹونمنٹ بورڈ میں انتخابات نہیں ہو رہے ۔اورماڑہ کنٹونمنٹ میں 2015ء میں بھی انتخابات نہیں ہوسکے تھے،جس کی وجہ مذکورہ کینٹ کی حدود طے نہ ہونا بیان کی گئی تھی ۔
الیکشن کمیشن نے آبادی کےتناسب سےکنٹونمنٹ بورڈ زکو مختلف وارڈز میں تقسیم کیا ہے ۔ ایک بورڈ میں زیادہ سے زیادہ 10اور کم سے کم 2وارڈز بنائے گئے ہیں۔اس طرح مُلک بھر کے 42کنٹونمنٹ بورڈز میں کُل 219 وارڈ زبنائے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے حاصل کی گئی تفصیلات کے مطابق، مذکورہ کنٹونمنٹ بورڈز میں رجسٹرڈ رائے دہندگان کی کُل تعداد 21لاکھ 97ہزار741( 11لاکھ 54ہزار 551مرد اور 10لاکھ 43 ہزار 190 خواتین)ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات کی وجہ سے42 کنٹونمنٹ بورڈز کی حدود میں 1644 پولنگ اسٹیشنز اور 5080 پولنگ بوتھس بنائے گئے ہیں۔
مذکورہ بورڈز میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے اور آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصّہ لینے والے امیدواروں کی تعداد 1559 ہے، جب کہ 7وارڈ زمیں بلا مقابلہ اُمیدوارمنتخب ہوچکے ہیں اور راول پنڈی کنٹونمنٹ بورڈ کے وارڈ2 میں ایک خاتون امیدوار کے انتقال کے باعث وہاں الیکشن ملتوی کردیا گیا ہے۔ متذکرہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ(نون)، پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ(پاکستان)، پاک سرزمین پارٹی اور جماعتِ اسلامی وغیرہ آمنے سامنے ہوں گی۔
کنٹونمنٹ بورڈ زمیں وارڈز کی سطح پر انتخابات لڑنے والے جنرل کاؤنسلرز کے علاوہ آبادی کےتناسب سے خواتین، کسانوں، مزدوروں، نوجوانوں اور اقلیتوں کے لیے بھی نشستیں مختص کی گئی ہیں، جن پر انتخاب بورڈ کے منتخب ارکان کرتے ہیں۔ یعنی، وارڈ میں جنرل کاؤنسلر کو وہاں کے ووٹر زبراہِ راست منتخب کرتے ہیں اور مخصوص نشستوں پر انتخاب کا عمل بالواسطہ طور پر ہوتا ہے، انہیں متعلقہ بورڈ کے منتخب ارکان ووٹ دیتے ہیں۔
بعد ازاں،منتخب ارکان میں سے بورڈ کے نائب صدر کا انتخاب بھی خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتا ہے۔ واضح رہے، کنٹونمنٹ بورڈ کا صدر پاک آرمی کا اسٹیشن کمانڈر ہوتا ہے، جو عموماً بریگیڈیئر رینک کا آفیسر ہوتا ہے۔اس طرح بورڈ کی باڈی میں فوجی افسران کے علاوہ عوامی نمایندے بھی شامل ہوتے ہیں۔ کینٹ بورڈ اپنے زیرِ انتظام علاقوںکے بلدیاتی امور سمیت ریونیو، ٹیکس اور بجٹ کے معاملات بھی دیکھتا ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ زمیں ’’دیر آید، درست آید ‘‘کے مصداق بلدیاتی انتخابات کا اہتمام کرلیا گیا۔ گرچہ کینٹ کے علاقوں کو عموماً سہولتوں کے اعتبار سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس کے تحت کئی علاقے بنیادی سہولتوںسے محروم نظر آتے ہیں۔ جیسے، کراچی میں ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی(ڈی ایچ اے) جیسا پوش علاقہ، کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں آتا ہے، جہاں کے رہائشیوں کوبیش تر سہولتیں میّسر ہیں، لیکن مذکورہ کینٹ ہی میں گِزری، پی اینڈ ٹی کالونی، پنجاب کالونی، ہزارہ کالونی، ریلوے کالونی ،پاک جمہوریہ کالونی اور معصوم شاہ کالونی جیسے گنجان آباد علاقے بھی واقع ہیں، جہاں کے رہائشی ڈی ایچ اے جیسی سہولتوں سے محرو م ہیں۔
اسی طرح ملیر کنٹونمنٹ بورڈ میں جہاں سہولتوں سے آراستہ ملیر کینٹ واقع ہے، وہیں اس بورڈ کی حدود میں سعدی ٹاؤن کے اطراف میں واقع مدینہ کالونی اور دیگر گوٹھ بھی آتے ہیں، جہاں کا انفراسٹرکچر توایک طرف، مقامی آبادی کوسوئی گیس جیسی بنیادی سہولت بھی میسّر نہیں۔ اُمید کی جا رہی ہے کہ ان جیسے علاقوں سے منتخب ارکان ،جب اپنے متعلقہ بورڈ کے رکن بنیں گے، تو یقیناً اپنے علاقوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن اسی کے ساتھ ایک سوال یہ بھی ہےکہ مُلک کے باقی حصّوں میں بلدیاتی انتخابات کب ہوں گے؟
سیاسی جماعتیں جمہوریت پر یقین رکھنے کے باوجود ”جمہوریت کی نرسریاں“ آباد کیوں نہیں کرتیں؟ صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن چاروں صوبوں سے مسلسل بات چیت کر رہا ہے، لیکن اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں کی جانب سے تاخیری حربے اختیار کیے جا رہے ہیں۔
پنجاب اور بلوچستان کی حکومتیں بلدیاتی حکومتوں کے نئے ڈھانچے متعارف کروانے اور قوانین میں ردّو بدل کرنے میں اُلجھی ہوئی ہیں، جب کہ خیبر پختون خوا میں نئی حلقہ بندیوں کا کام مکمل ہونے کے باوجود صوبائی حکومت کی طرف سے تاخیر پر اصرار کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب، سندھ حکومت مردم شماری 2017ء کے نتائج پر تحفّظات ظاہر کرکے الیکشن کمیشن سے نئی حلقہ بندیوں کے لیے تعاون سے گریز کر رہی ہے۔ ایک عام تاثریہ بھی ہے کہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں تاخیرکا مقصد بلدیاتی سطح پر ایسے انتظامات یا تقسیم ہے، جن سے صوبے کی حکمران جماعتوں کو زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ حاصل ہوسکے۔
گویا صوبائی حکومتیں اپنی مَن پسند بلدیاتی حکومتوں کے قیام کے لیے ہی ایسا کر رہی ہیں۔ صوبوں کی حکمران جماعتوں کو جان لینا چاہیے کہ بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں عوام اپنا مفاد عزیز رکھتے ہیں اورعوام کا مفاد اسی میں ہے کہ تاخیر پر اصرار کی بجائے جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا جائےکہ جب تک صوبوں میں ”جمہوریت کی نرسری“ آباد نہیں ہو گی، حکمران سیاسی جماعتوں کی جانب سے ”جمہوریت پسندی“ کے دعوے عوامی سطح پر مشکوک ہی سمجھےجائیں گے۔