بلوچستان ملک کا وہ صوبہ ہے جو ایک طویل مدت سے دہشت گردی کی کارروائیوں کا ہدف بنا ہوا ہے۔ گزشتہ روز بھی اُس کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک خود کش حملے میں فرنٹیر کور کے چار اہلکار شہید ہوئے جبکہ دو شہریوں سمیت زخمیوں کی تعداد 20بتائی جارہی ہے۔ پولیس کے مطابق ایف سی چیک پوسٹ کے 20جوان اتوار کی صبح ہزار گنجی سبزی منڈی ڈیوٹی کیلئے آ رہے تھے۔ وہ جیسے ہی سونا خان تھانے کے قریب پہنچے تو موٹر سائیکل پر سوار ایک خود کش حملہ آور نے ان کے قریب پہنچ کر خود کو اڑا لیا جس کے نتیجے میں دو اہلکار نائیک عبداللہ اور شفیع محمد موقع پر ہی شہید جبکہ 18سپاہی شدید زخمی ہو گئے۔ اطلاع ملنے پر پولیس ٗ ایف سی اور سی ٹی ڈی کی بھاری نفری نے موقع پر پہنچ کر علاقے کو گھیرے میں لے کر لاشوں اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا۔ جہاں دو اہلکار حزب اللہ اور حمید اللہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق دہشت گردی کی اس کارروائی میں چھ کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔ سی ٹی ڈی نے خود کش حملہ آور کا سر اور پائوں اپنی تحویل میں لے کر تجزیے کے لئے لیبارٹری بھجوادیا ہے جس کی بناء پر اصل مجرموں تک پہنچنے اور انہیں قانون کی گرفت میں لانے کا امکان قوی ہو گیا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی جس تسلسل سے جاری ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے ایک ماہ کے دوران صوبے میں کم از کم دہشت گردی کے چار بڑے واقعات پیش آچکے ہیں۔ ٹھیک ایک ماہ پہلے اگست کی 8تاریخ کو سرینا ہوٹل کوئٹہ کے قریب تنظیم چوک پر ایک موٹر سائیکل میں نصب بم کے پھٹنے سے دو پولیس اہلکار شہید اور 8اہلکاروں سمیت بارہ افراد شدید زخمی ہو گئے تھے۔ 15اگست کو لورالائی میں ایف سی کی گاڑی پردہشت گردوں نے حملہ کیا اور ان کی فائرنگ سے ایک جوان شہید اور میجر سمیت دو اہلکار زخمی ہوئے جبکہ جوابی فائرنگ میں تین دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے۔ 22اگست کو گچک کے علاقے میں نصب شدہ دھماکہ خیز مواد کے ذریعے کی گئی کارروائی میں ایک کیپٹن شہید اور دو جوان زخمی ہوئے۔ تاہم گزشتہ روز کوئٹہ میں کی جانے والی دہشت گرد کارروائی میں خود کش حملے کا طریقہ اختیار کیا گیا جبکہ ملک میں خود کش حملوں کی کوئی کارروائی بہت دنوں سے رونما نہیں ہوئی تھی۔ خودکش حملے عام طور پر ان تنظیموں کی جانب سے کیے جاتے ہیں جو ان میں ہلاکت کو شہادت قرار دے کر نوجوانوں کو اس کیلئے تیار کرتی اور انہیں باور کراتی ہیں کہ اس کا صلہ جنت میں فوری داخلے کی شکل میں ملے گا۔ خاصی مدت سے اس قسم کی دہشت گردی کے نہ ہونے کی وجہ واضح طور پر ملک میں مذہبی عناصر کی دہشت گردی پر مؤثر کنڑول کر لیا جانا ہے۔ تاہم کوئٹہ میں خود کش حملے کی تازہ کارروائی کی ذمہ داری کا تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کی جانب سے قبول کیا جانا ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں اس قسم کے دہشت گرداز سرنو سرگرم ہونے کے لئے پرتول رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے بعض دھڑوں کا بھارت کی خفیہ ایجنسی کے زیر اثر ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ اس لئے اس تازہ خود کش حملے میں بھارت کا ہاتھ ہونا بالکل قرینِ قیاس ہے۔ لیکن کابل میں طالبان کی حکومت کی بحالی اور اسلام آباد کے ساتھ کے اس کے گہرے تعلقات کے روشن امکانات کے پیش نظر تحریک طالبان افغانستان کی جانب سے پاکستان میں طالبان کے نام سے دہشت گردی کرنے والے گروپوں کو کنٹرول کیا جانا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے، بصورت دیگر افغان طالبان کو ان گروپوں سے مکمل اظہارِ لاتعلقی کردینا چاہئے۔ حکومت پاکستان اس ضمن میں امارت اسلامی افغانستان کو مؤثر طور پر متوجہ کرے تو فوری اور ٹھوس نتائج کا برآمد ہونا عین ممکن ہے لہٰذا اس سمت میں بلاتاخیر پیش رفت یقینی بنائی جانی چاہئے۔