محکمہ پولیس سے سیاسی مداخلت ختم کرنے اور کالی بھیڑوں کا صفایا کرنے کے دعوے اور اعلانات حکومتوں اور پولیس کے سربراہ کی جانب سے اکثر سامنے آتے رہے ہیں، لیکن آج تک عملی طور پر کوئی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔ سندھ میں اگر 600 تھانے ہیں، تو 300 سے زائد تھانے ایسے ہوں گے، جو خستہ حالت میں ہیں۔
کسی کی بلڈنگ اپنی نہیں ہے، تو کسی تھانے میں فرنیچر نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو ٹوٹا پھوٹا ہے۔ ایسی صورت حال میں تھانہ کلچر کو تبدیل کرنا اور اسےعوام دوست بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں پولیس کا محکمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
جمہوریت پسند معاشروں میں پولیس کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں پولیس کے کردار اور پولیس کے اندر پیشہ وارانہ اصلاحات کے لیے باقاعدہ کام کیا جاتا ہے، اس کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور اسے مکمل طور پر غیر سیاسی رکھا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے فرائض کے راستے میں کوئی سیاسی، مذہبی رہنما یا جماعت اور یا بااثر شخصیت حائل نہ ہوسکے۔
کوئی بھی شہری چاہے وہ کتنے بھی اثررسوخ کا حامل کیوں نہ ہو، اگر قانون شکنی کرے تواس کے خلاف بلا امتیاز کارروائی عمل میں لائی جائے، جو جماعتیں انتخابات میں حصہ لیتی ہیں۔ ان میں متعدد جماعتوں کے انتخابی منشور میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ تھانہ اور پٹواری کلچر کو تبدیل کریں گے۔ اسے کرپشن سے پاک اور عوام دوست بنائیں گے، پولیس کو سیاسی دباؤسے آزاد کرائیں گے۔ لیکن جب یہ جماعتیں انتخابات جیت کراقتدار میں آتی ہیں تو سب سے پہلے محکمہ پولیس میں تبادلے اور تقرریاں کی جاتیں ہیں۔
سندھ پولیس میں اصلاحات لانے کی بجائے غیر ضروری تجربات کیے جاتے رہے۔ پہلے ریجنل پولیس آفیسرکا عہدہ ختم کیا گیا، پھر چندسال بعد دوبارہ اس نظام کوایڈیشنل آئی جی کا نام دے کر23 اضلاع پر مشتمل دو ایڈیشنل آئی جی تعینات کئے گئے۔ تین سال بعد اس نظام کی ناکامی پر اسے بھی ختم کر دیا گیا۔ اصلاحات اور پولیس میں بہتری کے لیے پبلک سیفٹی کمیشن بنایا گیا، پولیس کوآرڈینیشن کمیٹیز بنائی گئیں، نیشنل کمپلینٹ اتھارٹی بنی، لیکن اس کے خاطر خواہ ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکے، جب کہ پولیس کا عوام کے ساتھ رویہ آج بھی غیر دوستانہ ہے ۔
سابق آئی جی سندھ، اے ڈی خواجہ نے تھانہ کلچر کی تبدیلی اور عوام دوست بنانے کے حوالے سے افسران پر مشتمل اجلاس منعقد کیا۔ اس میں افسران سے جب رائے لی گئی تو ایک افسر نے بتایا تھانہ کلچر کی تبدیلی کے لئے پہلے تھانوں کا ماحول تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمارا ہیڈ محرر ٹوٹی ہوئی کرسی پر بینچ آگے ڈال کر بیٹھا ہوتا ہےجس سے عوام کو غلط تاثر ملتا ہے۔ ہم تھانوں کاماحول بہتر کرنے کےلیےسسٹم میں تبدیلی لا سکتے ہیں، تھانہ کلچر تبدیل کرسکتے ہیں۔ مذکورہ افسر کی ان باتوں کو سابق آئی جی نے تسلیم کیا اور اس سلسلے میں چند اقدامات کئے۔ لیکن ان کے تبادلےکے بعدمعاملات اسی جگہ ٹھہر گئے۔ سندھ کے مختلف اضلاع میں آج بھی تھانوں کی خستہ حال عمارتیں، ٹوٹے پھوٹے فرنیچر ، دھکا اسٹارٹ گاڑیاں محکمے کی خستہ حالی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
کسی واقعہ کی رپورٹ درج کرانے کے لئے جب کوئی سائل آتا ہے تو عملے کی جانب سےاسےکہا جاتا ہے کہ باہر سے کاغذ کا دستہ اور قلم لے آئو۔ہیڈ محرر کی رضامندی کے بغیر کچی رپورٹ بھی درج نہیں کی جاتی۔ اگر کسی کیس کی تفتیش پر جانا ہو تو انویسٹی گیشن افسر کے لیے گاڑی کا انتظام کرنے کا کہا جاتا ہے۔ شہریوں کو اس طرح کے بے شمار مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ پولیس کو قصور وار ٹھہرانے کی بجائے زمینی حقائق کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ جب تھانے کی اسٹیشنری، اہل کاروں کے بیٹھنے کے لیے کرسی اور میزاور تھانے کے لیے بجٹ نہیں ہوگا، ایس ایچ اوز اور تفتیشی افسران کو ٹرانسپورٹ کی سہولت ،موبائل گاڑی کے لیے ڈیزل نہیں ملے گا، تو وہ کیا کریں گے۔ حکومت کو اس حوالے سے اقدامات کرنا ہوں گے۔ نت نئے تجربات کے بہجائے نچلی سطح سے پولیس میں اصلاحات لانا ہوں گی، جس کے لیے غیر ضروری تھانوں کا خاتمہ بہت اہم ہے۔ ہرعلاقے میں آبادی کے اعتبار سے تھانے بنانا ضروری نہیں۔ ہر ڈسٹرکٹ میں ایک جیسے تھانے ہوں، چھوٹے اضلاع میں کم اور
بڑے اضلاع میں زیادہ ہونے چاہیں اور بہتر ہے ضرورت کے مطابق ایک یا دو یونین کونسل پر مشتمل اچھی عمارتوں میں ماڈل تھانے بنائے جائیں، جن میں بہترین فرنیچر ہو، ڈیزل ، اسٹیشنری، تفتیش کے اخراجات، منرل واٹر اور دیگر ضروریات کے لیے براہ راست تھانوں کا بجٹ رکھا جائے۔ ان میں میرٹ کی بنیاد پر ایس ایچ اوز اور ہیڈ محرر تعینات کیےجائیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہیڈ محرر تھانے کی اہم ترین پوسٹ ہوتی ہے، کیوں کہ وہی ایف آئی آر لکھتا ہے، جس پر ڈیوٹی آفیسر دستخط کرتا ہے۔ ہیڈ محرر کی پوسٹ ہر ہیڈ کانسٹیبل نہیں لگ سکتا، اس کے لیے پولیس کا اپنا کورس ہوتا ہے۔
ہیڈ کانسٹیبل کے لیے وہ کورس کرنا لازمی ہوتا ہے، لیکن پولیس نظام میں سیاسی مداخلت یا سسٹم کی خرابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف سکھر رینج کے تینوں اضلاع سکھر، خیرپور اور گھوٹکی میں درجنوں سپاہی ہیڈ محرر تعینات ہیں اور متعدد تو اپنی مرضی کے تھانوں پر ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں، اس پر پولیس کے اعلی افسران کی بے بسی کہیں یا عدم توجہی کہ ڈی آئی جی سکھر رینج فدا حسین مستوئی نے ایک سال قبل تینوں اضلاع کے پولیس افسران کو ایک تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا کہ کسی بھی نان کوالیفائیڈ اہل کار کو ہیڈ محرر تعینات نہ کیا جائے اور جو تعینات ہیں انہیں ہٹایا جائے، لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود اس پرعمل درآمدنہ ہوسکا۔
اب اگر ہم بات کریں ایس ایچ اوز کی تو ضروری ہے کہ تمام تھانوں پر ایس ایچ او میرٹ کی بنیاد پر کوالیفائڈ افسران کو تعینات کیا جائے اور جرائم کی صورت میں ان سے باز پرس کی جائے۔ ملک کے تمام صوبوں میں پولیس کی اپ گریڈیشن ہوئی ہے، جب کہ سندھ میں آج تک نہیں کی گئی، خاص طور پر ہماری پولیس کی تنخواہیں پنجاب اور دیگر صوبوں کی پولیس کے مقابلے میں کم ہیں۔
سرکاری ملازم کی ڈیوٹی 8 گھنٹے ہوتی ہے، موٹر وے پولیس کی ڈیوٹی 8 گھنٹے ان کی کارکردگی بھی مثالی ہے، لیکن پولیس اہل کار کے لیے مراعات تو کچھ نہیں ہیں ان کی ڈیوٹی 12 گھنٹے یا اس سے بھی زائد ہوتی ہے۔ وی آئی پی ڈیوٹی کے لیے دھوپ میں گھنٹوں کھڑے اس سپاہی کے پاس چھتری تک نہیں ہوتی ۔چوکیوں اور ناکوں پر اہل کار گرم سرد موسم کی سختیوں کو برداشت کر کے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف رہتے ہیں۔، ضروری ہے کہ حکومت پولیس اصلاحات کے ساتھ ایسا نظام لائے، جس سے پولیس کلچر کو تبدیل کرکے عوام دوست بنایا جاسکے۔
ایسا سسٹم بنایا جائے کہ جس کے تحت پولیس اہل کاروں کی ڈیوٹی صرف آٹھ گھنٹے ہو، اور اگر وی آئی پی ڈیوٹی یا ایمرجنسی یا نفری کی کمی کی صورت میں جو پولیس اہلکار زائد ڈیوٹی کرئے تو اسے اوور ٹائم دیا جائے، جو پولیس اہل کار 45 سال سے زائد عمر کے ہوجائیں۔ ان سے سخت ڈیوٹی نہ لی جائے، اکثر دیکھا گیا ہے 50 یا 55 سال سے زائد عمر کے پولیس اہل کار سخت دھوپ گرمی ، سردی میں میں مختلف شاہ راہوں اور چوراہوں پر کھڑے ڈیوٹی انجام دے رہے ہوتے ہیں، انہیں ایسے مقامات پر تعینات کیا جائے ، جہاں یہ موسم کی سختیوں سے کچھ محفوظ رہ سکیں۔
تمام پولیس اہل کاروں اور ان کی فیملی کو بہترین اسپتالوں میں فری علاج و معالجے کی سہولیات ہوں، پولیس اہل کار جس شہر کا ہے اس کا تبادلہ نہ کیا جائے۔ان کے بچوں کے لیے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اچھے سکول کالجز یونیورسٹیاں ہوں۔تھانوں کی نفری کو بڑھایا جائے، پولیس اہل کار بھی صبح شام اور رات کی شفٹوں میں کام کریں، ہر پندرہ دن کے بعد تھانوں کی ہائی پروفائل چیکنگ کی جائے۔پولیس میں ایک اچھا اور معیاری سسٹم بنا دیا جائے، تو یہ پولیس کلچر بھی تبدیل ہوجائے گا۔ وردی پہنے ہوئے وہ پولیس اہل کار یا افسر غلط نہیں ہوتے، بلکہ خرابی اس سسٹم میں ہے ، اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے سندھ میں موجود پولیس ٹریننگ سینٹر، اسکول یا ادارے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، لیکن ان اداروں میں افسران کی تعیناتی کے دوران یہ تصور دکھائی دیتا ہے کہ شاید یہ سائیڈ پوسٹ ہے۔
حالاں کہ ایسا نہیں ہے یہ انہتائی اہمیت کی حامل پوسٹ ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ ان سینٹرز میں با صلاحیت اور تجربہ کار پولیس افسران کو پابند کیا جائے کہ انہیں دو اضلاع میں تعیناتی کے بعد ایک سال کے لیے پولیس ٹریننگ سینٹر میں تعینات کیا جائے گا ۔ اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے ۔ پولیس کی گاڑیاں ، اسلحہ اور دیگر جو بھی ضروریات ہیں انہیں پورا کرنا ہوگا، خاص طور پر پولیس کی نفری میں اضافہ اشد ضروری ہے۔ 2016 کے بعد آج تک 5 سالوں میں پولیس میں بھرتیاں نہیں کی گئیں۔
سندھ میں ہزاروں پولیس اہل کاروں کی خالی اسامیوں کو جلد از جلد پر کیا جائے، خاص طور پر پولیس کو عوام دوست بنانے اور تھانہ کلچر کی تبدیلی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کی ضرورت ہے پولیس میں اصلاحات لاتے ہوئے نئے قوانین کے ساتھ پولیس کو اپ گریڈ کرنا ہوگا، جس طرح آج خیبر پختون خواہ میں مثالی پولیسنگ ہے اور بڑی حد تک خیبر پختون خواہ کا پولیس کلچر عوام دوست بن چکا ہے اور اپ پولیس کی اپ گریڈیشن دیگر صوبوں میں بھی ہوئی ہے لیکن کے پی کے کو اس وقت دیگر صوبوں پر برتری حاصل ہے اس لئے جس طرح سندھ حکومت نے جیل اصلاحات لاکر انگریز دور کے قانون کو ختم کرکے دیگر صوبوں پر برتری حاصل کی وہ قابل تحسین ہے۔ اب حکومت کو پولیس اصلاحات کے لیے قدم بڑھانے ہوں گے، تاکہ سندھ میں تھانہ کلچر کو تبدیل کرکے عوام دوست کلچر اور مثالی پولیسنگ کو یقینی بنایا جاسکے۔