• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے ملاحظہ فرمائیے بلاول بھٹو کی لب کشائی:

اپوزیشن کا کردار ادا کریں یا اعلان کریں کہ حکومت کے سہولت کار ہیں!

دوسری اہم بات کہ کوچۂ جمہوریت میں دم خم نہ رہا تو اُس کی دہلیز پر لوگوں کا آنا جانا بھی ختم ہو جائے گا، پھر خواص و عوام بالا خانوں و سیاسی آستانوں پر ماتھا ٹیک کر مرادیں پائیں گے۔ 

حق ملنے والا قصہ تمام ہو جائے گا۔ عوام میں موجود آٹے میں نمک کے برابر آتش پرستوں، سورج کی پوجا کرنے والوں اور کچھ اشرافیہ کے چوغا میں ملبوس چند پنڈتوں کو مالِ غنیمت اور ریاستی کِشور کُشائی سے کچھ حصہ ضرور مل جایا کرے گا۔ 

سوشل ازم و کمیونزم کے بحرِبیکراں کے آگے جب آمروں کی انجمنیں، سرمایہ داروں کی مجالس اور ’’وسطیوں‘‘ کی اجتماعی عبادتیں بند باندھ دیں گی تو عجیب و غریب قوانین جنم لینے لگیں گے، پھر کسی کو عمر بن خطاب یاد آئیں گے اور کسی کو عمر بن عبدالعزیز، کوئی کارل مارکس کو تلاش کرے گا اور کوئی لینن کی جستجو مگر تب تک گاڑی چھوٹ چکنے کے باعث بےبسی ناچ رہی ہوگی۔ 

محسنِ انسانیتؐ کو عوام یاد کر رہے ہوں گے اور خواص اپنے انداز میں یاد کرا رہے ہوں گے! ایسے میں غریب عوام ایکالوجیکل فیکٹرز کے گملوں میں اگائے بےثمر اشجار کا ماتم کریں گے۔

تھوڑی دیر کیلئے تصور کر لیتے ہیں کہ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے ذاتی اقتدارکا باب ختم ہوا تاہم عمران خان، بلاول بھٹو اور مریم نواز شریف و شہباز شریف کی سیاست ابھی باقی ہے۔ اگر اُن سب کے سیاسی برتن جمہوریت سے لبریز نہ ہوئے تو خالی برتنوں میں بھی کھڑکنے کے سوا کیا ہوگا؟ جہاں اپوزیشن جمہوریت کی متلاشی اور دلدادہ نہ رہے وہاں نکیلِ اقتدار کے حاملین کو حکومتی چمک دمک اور پروٹوکول کی چکا چوند بہا لے جاتی ہے۔

نئی روایات جنم لیتی ہیں، نت نئے قانون شکل پاتے ہیں اور عوام مایوسی کے اتار چڑھاؤ میں خجل ہو جاتے ہیں۔ بلاول بھٹو ہوں یا شہباز شریف حتیٰ کہ عمران خان بھی، کیا یہ سب عوام کے نام اور عوامی خوابوں کو تعبیر بخشنے کے نام پر سیاست نہیں کرتے؟ مگر یہ سب کچھ کب تک؟ بارہا تحریر کر چکا کہ پاکستان کی نوجوانوں کی آبادی شماریاتی تناظر میں 65فیصد سے زیادہ ہے، یہ نئی پود ہے۔

ڈیجیٹل لائف اور گلوبل ولیج کے باسی، کیا انہوں نے بھی میری اور مجھ سے قبل کی نسل کی طرح نفسیاتی غلامی ہی میں رہنا ہے؟ کیا اُنہیں بھی سبز باغوں اور کالےباغوں میں فرق معلوم نہیں؟ روٹی، کپڑا اور مکان اور نیا پاکستان کی فلاسفی، عمل اور اہداف میں امتیاز اور مناسبت پر ریسرچ ان 65فیصد میں سے ایک دو فیصد والے بھی نہیں کر سکتے؟ 

وہ جو اسمبلی میں کھڑے ہو کر نواز شریف کی مہنگائی کو للکارتے تھے، کیا ان کا تقابلی جائزہ زرداری و نواز شریف ادوار سے کرنا مشکل ہے؟ کیا وہ وزراء جو سدا بہاری کی علامت ہیں اور موجودہ حکومت میں بھی اقتصادی و سماجی و سیاسی ترقی کے کلمات گھڑتے اور سناتے ہیں، ان کا جائزہ تو متذکرہ دو تین فیصد والے آرام سے لے سکتے ہیں؟ گر نہیں لے سکتے اور دودھ کے دودھ اور پانی کے پانی سے ناآشنا ہیں تو انجوائے کرتے رہیں یہی جمہوریت و سیاست کی کچی لسی!

مانا کہ بلاول بھٹو سیاست دان ہی نہیں ایک اسٹیٹس مین کی حیثیت سے ابھر کر سیاسی افق پر آئے ہیں مگر جمہوری فلک بوسی کیلئے ابھی محنت اور تدبر کی بہت ضرورت ہے، پنجاب میں پھر سے جڑ پکڑنے اور کے پی کے میں رنگ پکڑنے کیلئے ابھی روز کی عرق ریزی مقصود ہے سو ان کا فرمان کہ ’’اپوزیشن کا کردار ادا کریں یا اعلان کریں حکومت کے سہولت کار ہیں‘‘ انہوں نے یہ طعنہ بالخصوص نون لیگ اور بالعموم مولانا فضل الرحمٰن کو مارا ہے اور جملہ اس پی ڈی ایم پر کسا ہے جس کی بنیاد پیپلز پارٹی ہی کی آل پارٹیز کانفرنس میں رکھی گئی، اور پی ڈی ایم ایمبریالوجی کی ابتدا ہی میں مولانا نالاں ہوگئے تھے کہ میری تقریر پر مائیک دانستہ بند کیا گیا۔ 

مائیک دانستہ بند کیا گیا یا نادانستہ، میزبان پیپلزپارٹی اور بڑی پارٹی نون لیگ کو اس ساختی دور ہی میں سوچنا چاہئے تھا کہ کیا نوخیز رفاقتوں کی حامل اور روایتی مخالف پارٹیوں کا بوجھ مولانا اٹھا سکیں گے؟ یا اس وقت ابتدائے عشق تھا اور دونوں پارٹیوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ ان کے لوگ بھی جلسے جلوسوں کی زینت بن سکیں گے؟ شاید ان ابتدائی ایام میں یہ سمجھے کہ احتجاجی تحریک روایتی طور پر مدارس کے جوش اور دعا کی روحانیت و قبولیت ہی پر چلے گی؟

پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا پی ڈی ایم کی ناکامی یا کمی پر جتنا بھی قصور ہو کوئی مولانا سے بھی پوچھے ، یہ بطورِ سربراہ کس قدر ناکام ہوئے ؟ کیا اس ناکامی پر پیپلزپارٹی کو منانے اور واپس لانے کیلئے مولانا کو مستعفی ہونے تک نہیں چلے جانا چاہئے تھا؟ 

البتہ بلاول بھٹو زرداری کو یہ ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ ہر بڑی پارٹی میں دس پندرہ الیکٹ ایبل حکومتی سہولت کار اور ہر حکومت کے دس پندرہ ممبران اسمبلی اپوزیشن کے سہولت کار ہوا کرتے ہیں بلکہ مقتدر کے بھی! اس کا تجربہ ابنِ زرداری کو گیلانی صاحب کے سینیٹر منتخب ہونے اور چیئرمین سینیٹ منتخب نہ ہونے پر یقیناً ہوگیا ہوگا۔

رحیم یار خان کی بھری بزم میں کی جانے والی بلاول بھٹو کی بات کو رد نہیں کیا جاسکتا مگر بطورِ لیڈر انہیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ پی ڈی ایم کا جڑے رہنا یا پی ڈی ایم کو جوڑے رکھنا بلاول بھٹو پر بھی فرض تھا جو فرض وہ ادا نہ کرپائے۔ 

یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ پنجاب میں نون لیگ کا آج بھی سیاسی مقابل کوئی نہیں، اگلا الیکشن اس سطر کا تصدیق کنندہ ہوگا۔ اپوزیشن کے تھوڑے بہت بھرم کا ذمہ حکومت کی کمزوریوں و ناکامیوں نے خود اٹھا رکھا ہے۔ 

یہ درست کہ اگلا الیکشن پیپلزپارٹی اور نون لیگ کا اپنا اپنا ہے مگر نون اور پی پی پی میں دوستی ہو نہ ہو تاہم سیاسی دشمنی تحریک انصاف کے کمزور سیاسی ہاتھوں کو تو توانا کرے گی! بہرحال قوم بلاول اور مریم سے اصلی جمہوریت کی توقع رکھے ہوئے ہے!

تازہ ترین