پروفیسر صبیح انور
پروفیسر فزکس،ڈین اسکول آف سائنس و انجینئرنگ، لمز یونیورسٹی
محمود غزنوی کی شخصیت کو داغدار بنانے کی بہت کوشش کی گئی اور جاری رہے گی، لیکن جو بھی ہو موجودہ افغانستان کے شہر غزنی سے اُٹھنے والی غزنوی تحریک کے اِس بانی حملہ آور نے جہاں ہندوستان اور لاہور کے کئی علاقوں کو روندا، وہاں اس کے کارناموں کا جُھومر یہ ضرور ہے کہ اِس نے ہندوستان کا علمی اور ثقافتی تعلق وسط ایشیا سے جوڑ دیا۔ محمود اور اس کے بیٹے مسعود کے ہمراہ کئی شاعر، مبلّغ، صوفی، داعی اور بزرگ سرزمین ہندوستان میں داخل ہوئے۔ اِنہی میں داتا گنج بخش بھی تھے۔
جنہوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دِل کی صفائی کا درس دیا۔ ایک اور ہمہ جہت شخصیت ابو ریحان البیرونی تھے جو مُنجّم، ریاضی دان، مورّخ، مہندس، مسافر، سیّاح اور تذکرہ نگار، سب ایک ہی ذات میں مجتمع تھے۔ حُسنِ اتفاق سے موجودہ حکومت نے البیرونی کی ذات کو عام پاکستانیوں سے متعارف کرا دیا کہ ضلع جہلم کی تحصیل پنڈدادنخان کے ایک خُوبصورت گاؤں باغانوالہ سے متّصل ایک پہاڑی پہ موجود تاریخی آثار، وزیراعظم اور ان کے سابقہ سائنس کے وزیر، فواد چوہدری کی توجہ سے تاریخی سیّاحت کے منصوبے کا ایک نادر ذریعہ بن گئے ہیں۔ یہ آثار ’’نندنہ‘‘ کے نام سے موسوم ہیں۔
نندنہ کا تذکرہ تاریخی کتب میں ملتا ہے۔ اِس پہاڑی یہ محمود غزنوی اور مقامی راجائوں کے درمیان جنگ کا ذکر بھی ملتا ہے اور ایک مندر، قلعے اور معدوم مسجد کے نقش اب بھی موجود ہیں۔ 1904ء میں انگلستانی حکومت نے جہلم کے گزٹ میں بھی اس جگہ کا ذکر کیا۔ قیاس ہے کہ البیرونی نے اس مقام پر زمین کا قُطر بنایا تھا، گو مجھے اس دعوے کا کوئی معتبر حوالہ نہیں مل سکا، مگر حقیقت حال جو بھی ہو، نندنہ اور البیرونی کے بارے میں حکومتی بیانات نے موجودہ ارضیات، مساحت اور فلکیات کے تاریخی حوالے کو ایک توانا شادابی بخش دی ہے۔
ایک پہاڑی پہ چڑھ کر اِردگرد کے مناظر کو علم ہندسہ اور کُروی مثلثیات (Spherical Trigonometry) کے سیاق و سباق میں جوڑ کر پوری زمین کا قُطر معلوم کرنا اپنے اندر حیرت کا بے شمار سامان ہے۔ گویا چیونٹی ایک پہاڑ پر چڑھ کر اِردگرد کے چھوٹے چھوٹے کنکروں اور ان کے سایوں کو دیکھ کر پہاڑ کی بلندی معلوم کرے۔ واہ! یہ علم ہندسہ اور ریاضی کی کامل دستگاہ کے بغیر ممکن نہیں۔ ابوالکلام آزاد نے بھی ’’البیرونی اور جغرافیہ عالم‘‘ نامی رسالے میں اس دریافت کی بہت زیادہ تعریف کی ہے۔
البیرونی کا یہ کارنامہ کائنات کے آفاقی مظاہر کو سائنسی علوم کی دُوربین سے دیکھنے کی ایک مثال ہے۔ پاک و ہند کے علاقے بالخصوص لاہور ہمیشہ ہی سے آسمانوں کی سیر کرانے کے لیے عجیب طریقوں سے دُنیا کے شہروں میں معتبر رہے ہیں۔ اَصطرلاب ایک نہایت سنجیدہ مگر نپا تُلا آلہ ہے ،جس سے ستاروں کی سمت اور زاویوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ مغل بادشاہوں کے دور میں لاہور اَصطرلاب سازی کا عالمی گڑھ تھا۔
غالباً اندرون شہر میں اب جو جگہ چوک دالگراں ہے اور لوہے، پیتل اور تانبے کی لوک صنعت کے گزرے عروج کا منظر پیش کرتا ہے، اس فنِ مہارت کی آماجگاہ تھا۔ آج یہ اَصطرلاب لاہور اور کراچی کے قومی عجائب گھروں سمیت دُنیا بھرکے سائنس گھروں کی زینت ہیں۔ اس آلے کے صنّاعوں میں ایک اللہ داد ہمایونی لاہوری کے خاندان کا نام سرفہرست ہے جو ظاہر ہے ہمایوں کے دربار میں علیک سلیک رکھتا تھا۔ اللہ داد اور ان کے بیٹے اور پوتے، عیسیٰ اور ضیاالدین اس فن کے عالمی ماہر تھے۔ لاہوری اَصطرلاب بے شمار یورپی سیّاحوں کے زیراستعمال رہے۔
دُنیا سے اس فن کی مہارت اب تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ چناںچہ اب صرف گنتی کے چند ماہر ہی ان اَصطرلابوں کو سمجھتے ہیں۔ ان میں ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے Dr. Pietr Hogendijk بھی ہیں جو ایک بار ہماری دعوت پر لاہور تشریف لائے اور کچھ شائقین بساط آفاق میں یہ علم منتقل کیا۔ اُمید ہے لاہور کا عجائب گھر اپنے مُقفّل اَصطرلابوں کو جلد عوام کی حِس دلدادگیٔ فن فلکیات کی نذر کر سکے گا۔ میرے لیے یہ بات ہمیشہ باعثِ فخر بنی رہتی ہے کہ لاہور کی بھٹیوں میں تپنے والا ایک سائنسی آلہ صدیوں دُنیا کے آسمان فن پہ جگمگ کرتا رہا۔ یقین مانیں پیتل تیارکرنا، اور اَصطرلاب یا دھات کا خالص، بے عیب کُرہ بنانا جو اندر سے خالی بھی ہو، آج بھی جدید مشینوں پہ بنانا ایک بڑی مہم ہے۔
آسمانوں اور اس پہ بکھرے اجرام سے اُلفت فطری ہے۔ دیہات میں ہمارے بڑے، ستاروں سے راستوں اور وقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ دینی مدرسوں کے نصابوں میں عہد رفتہ کی رُومانوی یاد میں ’’علم التوقیت‘‘ اور ’’علم الہیئتہ‘‘ سے جذباتی لگائو اب بھی موجود ہے، مگر افسوس بیشتر یونیورسٹیاں اور کالج فلکیات کی تعلیم سے کوسوں دُور ہیں۔ البتہ پاکستان بننے سے پہلے کے چند دل چسپ حقائق آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
سیکرٹریٹ کے سامنے پنجاب یونیورسٹی کے کھیل کے میدان ہیں جن کے ایک کونے میں ایک گنبد دِکھائی دے سکتا ہے جو کسی مسجد یا مزار سے قطعاً منسلک نہیں۔ یہ گنبد دراصل گنبدِ افلاک کو دیکھنے کے لیے 7 انچ کے عدسے کی دُوربین کا کائنات کے لئے روزن ہے۔ یہ دُوربین آئرلینڈ کی مشہور کمپنی گرب کی ہنرمندی کا شاہکار ہے اور کئی سالوں تک یہ کمپنی آسمانوں کے رسیا محقّقین کے لیے مواد فراہم کرتی رہی۔ پنجاب یونیورسٹی کے سیمیول لال نے اسی دُوربین کے ذریعے ایک مجموعہ نجم قیطس (Cita) کے ایک ستارے کے بارے میں اپنے فلکیاتی مشاہدات کو فلکیات کے مستند ترین بین الاقوامی جریدے میں شائع کیا۔
2000ءکے لگ بھگ یہ دُوربین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھی اور آسمانی نقشے ردّی کی زینت، چناں چہ اس دُوربین کو ایک تاریخی ورثے کے طور پر محفوظ کرنے کی حسرت اب مکمل دَم توڑ چکی ہے۔ اسی طرح ایف سی کالج میں ایک نوجوان محقّق پیارا سنگھ گِل کام کرتے تھے جنہوں نے شکاگو یونیورسٹی سے نوبل انعام یافتہ آرتھر کومپٹن آپ کے ساتھ پی ایچ ڈی کی اور لاہور کے اس معروف کالج میں کائناتی شعاعوں (Cosmic Rays) میں موجود مویون (Muon) کی پیمائش سے منسلک ہوگئے۔
یہ مویون الیکٹرون کی طرح کے بنیادی ذرّات ہیں جو ہر جگہ سرائیت کیے ہوئے ہیں اور ہمارے جسموں سے بے محابا ٹکرا رہے ہیں اور ہمیں ذرا محسوس بھی نہیں ہو پاتا۔ پیارا سنگھ گِل نے ایف سی کالج میں شعبہ فزکس کے چھت پر ٹین کی چادروں سے فلکی روزن بنایا اور اپنی خودساختہ دُوربین سے ان چھلاوے ذرّوں کی تلاش میں مگن ہوگئے۔ پنجاب یونیورسٹی کا رُتبہ دیکھیں کہ ا ن کے کام کو مالی مدد اس یونیورسٹی نے فراہم کی۔ آزادی کےبعد پیارا سنگھ بھارت میں ایک نامور سائنس دان بن گئے اور ایف سی کالج سے چلے گئے۔خوردبین یا دُوربین سے دیکھنا کسی بچّے کی فکری زندگی کوہمیشہ کے لیے بدل سکتا ہے۔
یونیورسٹیاں ان فلکیاتی مشاہدات کے لیے نرسری کا کام کر تی ہیں۔ اُمید ہے اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ برائے اسپیس ٹیکنالوجی کی نئی قائم شدہ دُوربین محقّقین کے لیے ایک جنت نگاہ ثابت ہو سکے گی۔ کراچی یونیورسٹی کی ر صدگاہ کئی سالوں سے بے اعتنائی کا شکوہ کرتے کرتے ختم ہوگئی ،مگر اب کم از کم اس میں دو نئی دُوربینیں موجود ہیں۔ حال ہی میں پاکستان سائنس فائونڈیشن نے شکرپڑیاں پہ ایک چھوٹی دُوربین تعینات کرنے کا اِرادہ بھی کیا ہے۔
ہاں، چند ہنرمند اور کبھی آرام سے نہ بیٹھنے والے نوجوانوں اور بزرگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت قابل ذکر رصدگاہیں قائم کر رکھی ہیں جو آسمانوں کی سیر میں مشغول رہتی ہیں۔ مثلاً لاہور کے عمیر عاصم زیڈز رصدگاہ میں سیّاروں اور سیارچوں کی دریافت میں جُتے رہتے ہیں۔ کراچی، بلوچستان، لاہور اور اسلام آباد کی فلکیاتی انجمنیں دہائیوں سے تاریک مقامات میں پہنچ کر ستاروں اور کہکشاں کی جلوہ گری سے ہزاروں شائقین کی نظروں کو چُندھیاتی ہیں۔ بلوچستان میں لسبیلہ میں ’’تقویٰ رصدگاہ‘‘ کائناتی مہم جوئی کے لیے زبردست جگہ ہے۔
خوارزمی سائنس سوسائٹی کے فلکیاتی میلوں نے تو 2009ء سے فلکیات کی عوامی ترویج کی راہ ہموار کر رکھی ہے۔ اب بے شمار تنظیمیں اور افراد ملک میں آسمانوں کی سیر کراتے ہیں، اور نظام شمسی اور ماورا کے ٹھکانوں کی تصویریں ، ویڈیوز اور معلومات براہ راست پہنچاتے ہیں۔ ملک میں دُور بینوں کی مانگ میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔کاش ہمارے تعلیمی ادارے بھی لاچارگی، افسردگی اور غیرمعیاری تعلیمی قابلیتوں کی خودفریبی کے گرداب سے نکل کے ہمارے طلبہ اور طالبات کو کائنات کی سب سے بڑی تجربہ گاہ یعنی آسمان کے قریب لا سکیں۔ ظاہر ہے نہ تو آسمان دیکھنے کی کوئی قیمت ہے، نہ اس میں زبان، قومیت یا برادری کی قید۔ آسمان تو سانجھا ہوتا ہے نا!