• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا بَھر میں اموات کی وجوہ میں سرِفہرست قلب کے عوارض ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں ہارٹ اٹیک، کارڈیک اریسٹ اور دِل کی دیگر پیچیدگیوں کی وجہ سے اموات میں خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ اگر پاکستان کا ذکر کریں، تو ہر ایک گھنٹے بعد 46 اموات دِل کے امراض کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ واضح رہے، تین سال قبل یہ تعداد صرف 12 تھی، جس میں اب چار گنا اضافہ ہوچُکا ہے۔ 

ایک اسٹڈی کے مطابق پاکستان میں عارضۂ قلب میں مبتلا تقریباً 100 مریضوں میں سے 77کو ہارٹ اٹیک گھر میں، راہ چلتے یا پھر اسپتال کے علاوہ کسی اور مقام پر ہوتا ہے۔باوجود اس کے کہ 93فی صد کیسز میں مریض کے ساتھ کوئی نہ کوئی فیملی ممبر یا دوست موجود ہوتا ہے، دِل کے دورے یا کارڈیک اریسٹ کے بعد زندہ بچنے والے مریضوں کی شرح صرف 10فی صد ہے۔ان حالات میں سی پی آر (CardioPulmonary Resuscitation)کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ 

دراصل سی پی آر جان بچانے کا ایک طریقۂ کار ہے، جو اُس وقت آزمایا جاتا ہے، جب اچانک ہی مریض کے دل کی دھڑکن بند ہو جائے یا پھر اُسےسانس لینے میں انتہائی شدید دشواری محسوس ہو رہی ہو۔ ویسے تو عام طور پر اس طریقۂ کار میں مریض کے سینے پرمخصوص انداز سے ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور منہ کے ذریعے مریض کی سانس بحال رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی حالیہ گائیڈ لائن میں compression یعنی سینے پر دباؤ ہی کو تسلّی بخش طریقۂ کار تسلیم کیا گیا ہے کہ اگر یہی عمل درست طریقے سے انجام دے دیا جائے، تو جان بچنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیںاور یہ عمل بےحد آسان ہے، جسے ہر فرد کو سیکھ لینا چاہیے۔ بطور مسلمان ہم پر اس کی اہمیت اور زیادہ واضح ہے کہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں،’’جس نے کسی شخص کی جان بچائی، اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا۔‘‘ (سورۃ المائدہ32)۔

سی پی آر کی اہمیت کے پیشِ نظر دُنیا بَھر کے ماہرینِ امراضِ قلب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ سی پی آر کو نصاب کا حصّہ بنانے کے ساتھ ہر فرد کے لیے اس کی تربیت لازمی قرار دی جائے۔ واضح رہے، بعض مُمالک میںجب اس تربیت کے بعداعداد و شمار اکٹھے کیے گئے تو دِل کے دورے یا کارڈیک اریسٹ کے بعد بچ جانے والے مریضوں کا تناسب 33فی صدپایا گیا۔صرف لندن میں یہ تناسب 15فی صدرہا۔ افسوس کہ ہمارے مُلک میں سی پی آر سے متعلق جامع معلومات اور تربیت نہ ہونے کے باعث یہ تناسب صفر ہے، حالاں کہ پاکستان میں93فی صد کیسز میں مریض کے ساتھ کوئی نہ کوئی فرد موجود ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں، ہمارے یہاں سی پی آر کے حوالے سے آگہی پھیلانااس لیے بھی ناگزیر ہے کہ ہارٹ اٹیک کی صُورت میں صرف50فی صد مریض ہی اسپتال پہنچ پاتے ہیں۔ اگرباقی مریضوں پر سی پی آر کا طریقۂ کار آزمالیا جائے، تو ان کی بھی جان بچائی جا سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ2014ء میں برطانیہ میں برٹش اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ ستمبر کے آخری ہفتے میں کوئی ایک دِن’’لائف سیورز ڈے‘‘کے نام سے منایا جائے، تاکہ مساجد اور اسلامک سینٹرز میں سی پی آر کی تربیت دی جاسکے۔

بعد ازاں، 12سے زائد مُمالک کی اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشنز نے بھی سی پی آر ٹریننگ دینے کا آغاز کیا۔پاکستان میں 2019ء سے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے تحت ’’لائف سیورز ڈے‘‘ منایا جارہا ہے۔سی پی آر کا پہلا مرحلہ بی ایل ایس یعنی Basic Life Support کہلاتا ہے، جس میں مریض کے دِل کو پمپ کیا جاتا ہے، تاکہ دماغ تک خون کی فراہمی بحال رہے۔یاد رہے، اگر دماغ کے خلیوں کو تین منٹ تک آکسیجن نہ ملے، تو وہ متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور تقریباً دس منٹ بعد موت واقع ہو سکتی ہے۔ کسی فرد کے دِل کی دھڑکن یا سانس بند ہونے کے بعد سے طبّی امداد مہیا ہونے تک کے درمیانی وقفے میں سی پی آر کیا جاتا ہے۔ 

سی پی آر کی تین اقسام ہیں، کیوں کہ شیر خوار بچّوں، بڑوں اور عُمر رسیدہ افراد کے لیےاس کے طریقے الگ الگ ہیں،جب کہ عمومی طور پر بڑوں میں اس کی ضرورت زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔ اگر آپ کسی بھی فرد کو زمین پر گِرا ہوا دیکھیں، تو سب سے پہلے قریب جا کر اسے آواز دیں یا ہلائیں۔ اگر وہ جواب دے رہا ہے تو جو ممکن امداد فراہم کر سکتے ہیں ، ضرور کریں۔ اگر مریض کوئی جواب نہیں دے رہا تو بہتر یہی ہے کہ سی پی آر کا عمل شروع کردیا جائے۔ سی پی آرکا عمل5 مراحل پر مشتمل ہے،جوذیل میں درج ہیں۔

٭اگر جسم میں کوئی حرکت نہ ہو رہی ہوتو فوراً فرسٹ ایڈطلب کریں اور ہنگامی نمبرز (1122یا کسی بھی ایمبولینس سروس) پر کال کریں۔٭مریض کو محفوظ مقام پر منتقل کرکےپیٹھ کے بل لٹا دیں۔

٭مریض کی سانس اور نبض کی رفتار چیک کریں۔ اگرسانس کی آمد و رفت محسوس نہ ہویا نبض کی رفتار مدھم لگے، تو اگلے مرحلے پر جائیں۔

٭اس کے بعد ہاتھوں کو مخصوص انداز میں جوڑ کر مریض کے سینے کے اوپر اندازاً ایک منٹ میں 60بار دباؤ ڈالیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنا ایک ہاتھ مریض کے سینے کے بالکل درمیان میں رکھیں اور دوسرا ہاتھ اس کے اوپر رکھ کر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں جوڑ لیں۔ گائیڈ لائن میں دباؤ کی شدّت4تا5سینٹی میٹر تجویز کی گئی ہے۔

٭سینے پر30بار دباؤ ڈالنے کے بعدمریض کی ٹھوڑی تھوڑی اوپر کرکے اپنے منہ کے ذریعے مریض کے منہ میں سانس دیں۔ یہ عمل ایک منٹ میں دوبار کیا جاتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے دماغ اور جسم کے دیگر ضروری اعضاء کی طرف خون کی فراہمی بحال رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

سی پی آر کاعمل اُس وقت تک جاری رکھیں، جب تک مریض کی سانس اور دھڑکن بحال نہ ہوجائے، ایمبولینس یا کوئی دوسری مدد مریض تک نہ پہنچ جائے، آپ خود تھکاوٹ کا شکار ہوجائیں یا پھردو منٹ تک سی پی آر کے باوجود زندگی کے کوئی آثار ظاہر نہ ہوں۔ واضح رہے، یہ ہدایات مفادِ عامہ کے لیے ہیں، جن پر عمل سے قبل کسی ماہر معالج کی نگرانی میں تربیت ضروری ہے۔

اس کے علاوہ سی پی آر کا عمل انتہائی آسانی کے ساتھ چند منٹوں کی تربیت حاصل کر کے بھی سیکھا جاسکتا ہے۔ سیکھنے کا یہ عمل تین مراحل پر مشتمل ہے۔ یعنی تھیوری کی مکمل وضاحت، عملی مظاہرہ کرکے دیکھنا اور شرکاء کا اس تیکنیک پر عمل۔ یہ تربیت ہر عُمر کے افراد کے لیے یک ساں اہمیت کی حامل ہے، کیوں کہ اسے سیکھ کر اس قابل ہواجاسکتا ہے کہ کسی بھی حادثے یا کسی کو دِل کا دورہ پڑنے کی صُورت میں تماش بین بننے کی بجائے آگے بڑھ کر اس کی مدد کی جاسکے اور یقینی طور پر اس عمل کے ذریعے بے شمار زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ (مضمون نگار،لاہور میں بطور پروفیسر آف سرجری خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے شعبہ میڈیکل ریلیف کے انچارج ہیں)

تازہ ترین