پاکستان کرکٹ میں نڈر ہوکر بے خوف کھیلنا،ماڈرن ڈے کرکٹ اور پاور ہٹنگ کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے۔ ماضی میں جب بھی ٹیم انتظامیہ خاص طور پر کوچز تبدیل ہوتے ہیں تو ایسی باتیں بار بار سننے کو ملتی ہیں۔ رمیز راجا کا چیئرمین بننا ہو یا مصباح الحق اور وقار یونس کے استعفی ہوں ایسی باتیں ایک بار پھر میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔
سابق کپتان رمیز راجا کے چیئرمین پی سی بی بننے کے بعد بظاہر یہی امید ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں بہتری ہوسکتی ہے۔ وہ کرکٹ بھی سمجھتے ہیں اور کرکٹ کی سیاست بھی ان کے لئے نئی نہیں ہے۔وہ ایسی پاکستانی ٹیم کے رکن تھے جس میں گیارہ کے گیارہ سپر اسٹارز تھے۔ رمیز راجا نے وزیر اعظم عمران خان کو پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لئے جو روڈ میپ دیا ہے اس سے امکان ہے کہ وہ پاکستان ٹیم کو دنیا کی مضبوط ٹیم بنائیں گے۔ سلیکشن میں ہونے والی نا انصافیوں کا خاتمہ کریں گے۔
سب سے بڑھ کر ملک میں ایک ایسا سسٹم لائیں گے جو واقعی مضبوط ہو اور آسٹریلیا طرز کا نعرہ صرف میڈیا تک محدود نہ ہو۔احسان مانی کے تین سالوں میں پاکستان کرکٹ کئی مسائل سے دوچار رہی اس لئے رمیز راجا کو فاسٹ ٹریک بنیادوں پر بہتری لانے کے لئے اچھے فیصلے کرنا ہوں گے۔ رمیز راجا کی پہلی ترجیح گری ہوئی پاکستان کرکٹ ٹیم کا اٹھانا ہے تاکہ ناراض شائقین کرکٹ کی مسکراہٹیں واپس لوٹا سکیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو رمیز راجا نے جو روڈ میپ دیا ہے اس کے مطابق پاکستان کرکٹ اور کرکٹ ٹیم کا کلچر تبدیل کر کے اسے دنیا کے بہترین کرکٹ کھیلنے والے ملکوں کی صف میں شامل کرنا ہے۔اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کا سسٹم ناکام دکھائی دیتا ہے۔
رمیز راجا کے لئے کئی چیلنج موجود ہیں لیکن پاکستان ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل لانے کے ساتھ اچھے کوچز کی تقرری بھی بہت اہم ہوگی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔ ان دونوں کے یہ فیصلے ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب چیف سلیکٹر محمد وسیم نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کا اعلان کیا ۔مصباح الحق ستمبر 2019 میں مکی آرتھر کی جگہ ہیڈ کوچ بنے تھے۔ انھیں چیف سلیکٹر کا عہدہ بھی ساتھ ساتھ دیا گیا تھا۔
وقار یونس کی تقرری بھی اسی وقت کی گئی تھی۔مصباح الحق 16 ٹیسٹ میچز میں کوچ رہے جن میں سے سات جیتے، چھ ہارے، اور تین برابر رہے۔وہ گیارہ ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں بھی کوچ رہے جن میں سے چھ جیتے، چار ہارے اور ایک کا نتیجہ نہ نکل سکا۔مصباح الحق 34 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں کوچ رہے جن میں سے 16 جیتے، 13 ہارے اور پانچ کا نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔وقار یونس ایک بار پھر وقت سے پہلے عہدہ چھوڑ گئے پاکستان کرکٹ ٹیم کے بولنگ کوچ وقار یونس کا کہنا ہے کہ ’مصباح الحق نے جب انھیں اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو ان کے لیے بھی یہی سیدھا سادہ معاملہ رہا کہ وہ بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں کیونکہ ہم دونوں ایک ساتھ ان عہدوں پر آئے تھے، ایک ساتھ کام کیا، اور ایک ساتھ جا رہے ہیں۔1948 سے لے کر اب تک 34 افراد پی سی بی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھال چکے ہیں، جن میں سے صرف چار کرکٹرز تھے۔ ان میں عبدالحفیظ کاردار (77-1972)، جاوید برکی (95-1994)، ظفر الطاف (1999) اور اعجاز بٹ (11-2008) شامل ہیںماجد خان چیف ایگزیکٹیو آفیسر رہ چکے ہیں۔
59 سالہ رمیز راجا ان میں سب سے زیادہ تجربہ کار ہیں۔ سال 1984 سے 1997 پر مشتمل اپنے بین الاقوامی کرکٹ کیرئیر میں جارحانہ مزاج کے حامل رمیز راجا کا تعلق کرکٹ فیملی سے ہے ان کے بھائی وسیم حسن راجا پاکستان کے مشہور ٹیسٹ کرکٹر تھے۔ایچی سن کالج لاہور سے تعلق رکھنے والے رمیزنے مجموعی طور پر 255 انٹرنیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 8674 انٹرنیشنل رنز بنائے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد رمیز راجا نے کھیل سے متعلق اپنے علم کی بدولت دنیا کے معروف براڈکاسٹرز کے ہمراہ بطور کمنٹیٹر کام کیا۔ ان کا شمار مائیکل ہولڈنگ، ٹونی گریگ، این چیپل، سنیل گاواسکر، ڈیوڈ گاؤر، مارک ٹیلر، مائیکل ایتھرٹن، رچرڈ ہیڈلی اور شان پولاک جیسے دنیا کے صف اول کے کمنٹیٹرز بھی کیا جاتا تھا۔
انہیں وائس آف پاکستان کرکٹ کہا جاتا ہے۔ میرلی بون کرکٹ کلب (ایم سی سی )نے کرکٹ کے علم، دانائی اور شعود کی بدولت رمیز راجہ کو ایم سی سی ورلڈ کرکٹ کمیٹی کا رکن بنایا۔ مائیک گیٹنگ اس کمیٹی کے سربراہ جبکہ ایلیسٹر کک، سارو گنگولی، رکی پونٹنگ، برینڈن میکولم، کمار سنگاکارا اور شین وارن اس کے ارکان ہیں۔
رمیز راجا نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت چہرہ اجاگر کرنے میں پیش پیش رہے بلکہ وہ مارچ 2009 میں سری لنکا کرکٹ ٹیم پر حملے اور 2010 میں کرکٹ کرپشن اسیکنڈل کے موقع پر بھی قوم کے سب سے بڑے محافظ بن کر کھڑے رہے۔ یہ دونوں واقعات ملک کے لیے بدنامی کا سبب بنے تاہم رمیز راجاکی طاقتور آواز نے مداحوں اور پاکستان کے کرکٹ تماشائیوں کو تصویر کا دوسرا رخ دکھا کر اس نقصان کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
وہ 1990 میں اس سلیکشن کمیٹی کا حصہ تھے، جس کی منتخب کردہ قومی کرکٹ ٹیم نے ورلڈکپ 1999 میں فائنل میں رسائی حاصل کی تھی۔ سال 1999 سے 2004 تک انہوں نے ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اسٹیٹ آف دی آرٹ نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ سابق چیئرمینوں جنرل توقیر ضیاء اور شہریار خان کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔بھارتی کرکٹ ٹیم نے جب 2004 میں پاکستان کا پہلا مکمل دورہ کیا تو اس وقت رمیز راجاپی سی بی کے چیف ایگزیکٹو تھے۔
اس دورے میں 3 ٹیسٹ اور 5 ون ڈے انٹرنیشنل میچز شامل تھے۔اس سیریز کو پاکستان کرکٹ بورڈ نے جس قدر کامیابی سے کرایا اس کی مثالیں آج بھی بھارت میں دی جاتی ہیں۔رمیز راجا نے چیف ایگزیکٹیو بن کر باب وولمر کے ساتھ ہیڈکوچ کی حیثیت سے کامیاب معاہدہ کیا تھا۔ اب یہ بات یقینی ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا اگلا کوچ اور کوچنگ اسٹاف غیر ملکی ہوں گے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجا کئی غیر ملکی کوچز سے رابطے میں ہیں ۔پی سی بی حکام پیٹر مورز سمیت کئی کوچز سے بات چیت کررہے ہیں تاکہ مصباح الحق،وقار یونس اور یونس خان سمیت دیگر کوچز کا متبادل تلاش کیا جاسکے۔ رمیز راجا پروفیشنل ازم کو ترجیح دیتے ہوئے ایسی کوچنگ ٹیم لانا چاہتے ہیں جو پاکستانی ٹیم کو مکمل تبدیل کرے۔رمیز جلد ڈرائیونگ سیٹ پرآنا چاہتے ہیں۔رمیز راجا جو عام طور پر ہنسی مذاق کرتے ہیں اور جگت بازی کرنے میں شہرت رکھتے ہیں ۔
دو دن پہلے لاہور میں پاکستانی ٹیم سے ملاقات میں وہ سنجیدہ دکھائی دیئے۔کھلاڑیوں کے لئے بھی ان کا رویہ حیران کن تھا لیکن انہوں نے ملاقات میں کھلاڑیوں پر واضع کردیا کہ اب گھبرانا نہیں ہے آپ نے بے خوف ،جارحانہ اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکٹ کھیلنا ہے۔ نئے ہیڈ کوچ اور ان کے ساتھیوں کی تقرری میں کم از کم ایک ماہ درکار ہیں۔ اس لئے ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ سے قبل نئے کوچز کی تقرری مشکل ہے۔
چیف سلیکٹر محمد وسیم نے آئندہ ماہ متحدہ عرب امارات میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے پاکستان کی 15 رکنی ٹیم کا اعلان کر دیا ہے۔ یہی ٹیم ورلڈ کپ سے قبل نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز بھی کھیلے گی۔ اس میں کوئی نیا چہرہ شامل نہیں ہے لیکن پہلے سے موجود متعدد چہرے جو تھوڑے عرصے کے لیے منظرنامے سے ہٹا دیے گئے تھےانہیں دوبارہ سامنے پیش کر دیا گیا ہے اور یہی بات سب کے لیے حیرانی کا باعث بھی ہے کہ پہلے ڈراپ کرنے کی وجہ کیا غلط تھی جو اب اسے درست ثابت کیا جا رہا ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مڈل آرڈر بیٹنگ رہی ہے۔ مصباح الحق کے ہیڈ کوچ بننے کے بعد سے اب تک مجموعی طور پر 17 بیٹسمینوں کو مڈل آرڈر بیٹنگ میں آزمایا جا چکا ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ گمبھیر ہے لیکن مسئلہ حل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ سلیکشن میں غیر مستقل مزاجی بھی ہے۔ بار بار کی تبدیلیاں کسی بھی بیٹسمین کو سیٹ نہیں ہونے دیتیں۔ محمد وسیم نے خوشدل شاہ اور آصف علی کو دوبارہ ٹیم میں شامل کرنے کی خوشخبری سناتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی موجودگی مڈل آرڈر کو فائر پاور فراہم کرے گی۔
محمد وسیم جس قسم کی سلیکشن کررہے ہیں اس میں بہتری لانے کے لئے رمیز راجا کو خود آگے آنا ہوگا۔ پاکستان میں ایسوسی ایشن کے کوچز کے ساتھ تنخواہ دار چیف سلیکٹر کا آئیڈیا ناکام دکھائی دیتا ہے اس لئے اس سسٹم پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ محمد وسیم سے یقینی طور پر یہ سوال چاہیے کہ آصف علی 2018 سے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ کھیل رہے ہیں اور اس عرصے میں وہ 29 میچز کھیل چکے ہیں، لیکن ان 29 میچز کی 27 اننگز میں وہ ایک بھی نصف سنچری بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
آصف علی ایک ایسے کھلاڑی ہیں جنھیں اس عرصے میں سب سے زیادہ مواقع دئیے جا چکے ہیں لیکن کسی بھی موقع پر انہوں نے اپنا سلیکشن درست ثابت نہیں کیا ۔وہ اس سال جنوبی افریقا اور زمبابوے کے دورے میں دو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلے تھے لیکن ڈبل فگرز میں بھی نہ آ سکے۔آصف علی کی ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں مایوس کن کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے آخری 10 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں صرف دو بار دوہرے اعداد ( 25 اور 29) رنزا سکور کیا ہے۔ ایسی فاش غلطیاں شاید پاکستان کرکٹ کے لئے اچھی نہیں ہے اس لئے رمیز راجا سے امیدیں بہت ہیں اب ایکشن کا وقت شروع ہوچکا ہے۔