• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی ابھی میں بادشاہی مسجد سے نکلا ہوں۔ مزارِ اقبال پر دعا کے چند پھول بکھیرے ہیں۔ علم و قلم کے موتیوں کو اپنے ارد گرد چمکتے ہوئے دیکھاہے۔قبر کے تعویذ کے پاس بیٹھ کر تصور میں حضرت اقبال سےہم کلام ہورہا ہوں ۔ اُس اقبال سے جس نے اپنے تدبر، عظم اور اعلیٰ حکمت عملی سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا، انگریزی سامراج اور ہندو منافقانہ سیاسی چالوں کا مقابلہ، مسلمانوں کی رہنمائی کے ساتھ اخلاص و جان فشانی سے کیا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اس مرد قلندر کی ساری محنت، ہم نے ذاتی لالچ، حرص اور ناعاقبت اندیشی کے گہرے سمندروں میں ڈبو دی۔

تعلیم کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، ہم نے اس کو بھی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ کسی شخص یاادارے کی پہچان اور تشخص باقی نہیں رہنے دیا،تعلیم و تربیت کی بستیوں میں بربادی پھیلا دی ہے۔ ایک اچھا خاصا چلا چلایا نظام تھا۔اسے، دولت اور روپے کی خاطر قصداً تباہ کر دیا گیا۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے قیام کی آڑ میں، سرمایہ داروں نے، وہ اودھم مچا رکھا اور مچا رہے ہیں کہ نامور سرکاری ادارے، بے توقیر ہو گئے ہیں۔ اب لاہور کے سنٹرل ماڈل اسکول کی بات یا حمایت، جہالت و حماقت بن گئی ہے، بڑے بڑے کالج اپنا وقار کھو رہے ہیں، گورنمنٹ کالج لاہور کا نام گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی رکھ کر اس کی تباہی کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ یہ تو گورنمنٹ کی خوش قسمتی ہے کہ اسے اصغر زیدی جیسا وائس چانسلر میسر آگیا ہے اور اس کے معاملات بہتری کی طرف رواں دواں ہو گئے ہیں وگرنہ ماضی میں یہ حال ہو گیا تھا کہ طالب علم گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کو چھوڑ کر پنجاب یونیورسٹی میں داخل ہونے لگے تھے۔ بے شک پچھلے دو سال پنجاب یونیورسٹی نے بہت نام کمایا ہے اوراس کا کریڈٹ صرف ڈاکٹر نیاز احمد کو جاتا ہے۔ مگر ہائر ایجوکیشن کمیشن میں بیٹھے ہوئے بزرجمہروں نے جو کچھ کیا ہے، اسے شاید پاکستانی قوم کو برسوں بھگتنا پڑے۔ اس تحریر کی تحریک مجھے میڈیا اور اخبارات میں شائع ہونے والی، میڈیکل میں داخلے کے ٹیسٹ ایم ڈی کیٹ میں اعلیٰ پیمانے پر ہونے والی بے ضابطگیوں سے ملی ۔ اس ٹیسٹ کے فراڈ کا شکار قوم کے نونہال ہو رہے ہیں۔ کراچی کے ایک بہت قابل بچے نے ایم ڈی کیٹ کے مبینہ جعلی رزلٹ کی وجہ سے خود کشی کر لی۔ میں اس کا لہو کس کے ہاتھ پر تلاش کروں،کسے اس کا قاتل قرار دوں۔ کچھ لوگ اس کا الزام وزیر تعلیم پر لگا رہے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس کا ذمہ دار یہ تعلیمی نظام ہے جسے بدلنے کی قوت وزیر تعلیم نہیں رکھتے۔

لاہور کے کچھ سنٹرز میں دھاندلی، اقربا پروری اور بددیانتی کے چرچے ہو رہے ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ اس گھناؤنے کاروبار میں میڈیکل نظام چلانے والی بڑی بڑی شخصیات سرمایہ کاری میں حصہ دار ہیں۔ایک امیدوار جس کے گزشتہ امتحان /ٹیسٹ میں بہت اچھے نمبر تھے اور اس کا میرٹ نہیں بن سکا تھا اس دفعہ پھر ٹیسٹ میں شامل ہوا اور باوجود دن رات محنت کے فیل ہو گیا۔اسی طرح کے سینکڑوں سوال اس سارے عمل کو مشکوک بنا اور بتا رہے ہیں اور اس سب کے پیچھے ایک طاقتور مافیا ہے، جس پر ہاتھ ڈالنا شاید اربابِ اختیار کے لئے بھی مشکل یا ان کے اپنے مفادات کے منافی ہے۔ مالکان ِادارہ جات و حصہ داران، ملک کو ضرور لوٹیں، اس کی جڑیں کھوکھلی کرکے اپنے پرائیویٹ ادارے اور میڈیکل کالج ضرور بنائیں، جعلی ادویات بناکر مریضوں کی جانیں ضرور لیں، لیکن خدارا اپنی کھیتیاں نہ اجاڑیں، عوام کے بچوں کا تعلیمی قتل عام نہ کریں، یہ آپ کے ملازمین ہیں، یہ غریب ڈاکٹر بن کر بھی آپ کے اداروں میں آپ کے ملازم بن کر آپ کو پیسا کما کر دیں گے کیونکہ آپ کے نالائق بچوں کے پاس آپ کے اداروں بلکہ دیگر ترقی یافتہ ممالک کی پیسے سے خریدی گئی ڈگریاں، آپ کے مردہ اور بےحس دل کا علاج نہیں کر سکیں گی اور آپ کو مالی نقصان ہو گا کیونکہ آپ کے سامنے وہی اہم ہے، انسان اور انسانیت تو آپ صرف تقریروں میں استعمال کرتے ہیں۔ آخر میں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی کے مصداق کوئی اتھارٹی یا ادارہ اس کام کا ذمہ دار ہے یا پھر خود حصہ دار ہے تو خدا را وہ بھی زبان خلق کو سن لے۔ ورنہ قانون فطرت تو عمل میں آئے گا ضرور اورتمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔

چند سال قبل جب موجودہ ٹیسٹ نظام رائج نہیں تھا تو پاکستان کے ڈاکٹرز دنیا کے قابل اعتماد اور نہایت ماہر ڈاکٹر مانے جاتے تھے۔ پاکستان کے تعلیمی بورڈز سکریسی اور اپنے اعلیٰ نظام میں قابل اعتماد تھے۔ جنرل مشرف کے دور میں جہاں اعلیٰ پیمانے پر کمپیوٹرز اور موبائل امپورٹ کرنے کا کاروبار اپنے رشتہ داروں اور اقربا کو مالی منفعت پہنچانے کے لئے عروج پر لے جایا گیا وہیں پر تعلیمی مافیا، تعلیمی اداروں، بورڈز اور سرکاری جامعات کو بدنام کرنے لگا اور اس طرح پرائیویٹ اکیڈمیوں کا رواج پڑا اور سرمایہ داروں نے بڑی بڑی ایئرکنڈیشن اکیڈمیاں بنائیں ۔ ارباب اختیار و اقتدار سے سوال یہ ہے کہ پاکستان میں جو نظام رائج کیے گئے ہیں مثلاً اکیڈمی سسٹم، یا NTS یا اسی طرح کے اور نوکریوں کے لئے پرائیویٹ اداروں سے کرائے جانے والے ٹیسٹ کہاں موجود ہیں:کیا یو کے میں لوگوں کو ایک ڈگری مکمل کرکے، اگلی سطح پر داخلہ کے لئے کوئی ٹیسٹ دینا پڑتا ہے؟ یہ سارا نظام ذاتی منفعت پسندی اور رشوت ستانی نیز غیر ملکی طاقتوں کے ایما پر ملکی اداروں کو تباہ کرنے کے لئے وضع کیا گیا۔ابھی تو ایک اور فتنہ سر اٹھا رہا ہے اور وہ ہے یونیورسٹیوں میں ایف اے اور ایف ایس سی اور کمپیوٹرز ڈگریوں میں داخل ہونے کے لئے HEC کا ٹیسٹ، جس کی فیس HEC تو 1200 روپے لے گی اور یہ پورے پاکستان میں طالب علموں سے لیا جائے گا۔اب غور کریں کہ ہر گاؤں، قصبہ، شہر، ضلع سبھی جگہ اس ٹیسٹ کی تیاری کے لئے اکیڈمیاں بنیں گی۔ بھلا ایک مزدور اور ریڑھی بان، جو کبھی کبھی بچوں کو سرکاری یونیورسٹی میں بھیجنے کا سوچ بیٹھتا تھا، وہ کیا کرےگا؟

تازہ ترین