• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

اصل لاہور سے جس کو عشق ہو جائے پھر وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلا جائے، اس کے لاہور سے عشق میں کمی نہیں آتی۔ ہمارا پہلا عشق اور محبت تو لاہور ہے جبکہ دوسرا عشق اور محبت امریکہ میں ہے۔ اس دوسری محبت نے ہی ہمیں لاہور پر لکھنے پر مجبور کیا اور یہی وجہ ہے کہ ہم جوں جوں اپنے پرانے لاہور کو یاد کرتے ہیں ہمارا دوسرا عشق اتنا ہی گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اصل لاہور آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے کا تھا جو 1970تک رہا۔ اس کے بعد وہ لاہور، لاہور نہ رہا اور وہ لوگ، لوگ نہ رہے۔ نئے لاہور نے لوگوں کی سوچ اور روایات تک کو بدل دیا۔ اسی لئے تو پطرس بخاری نے کہا تھا کہ ’’لاہور کے کاٹے کا علاج نہیں، یہ ہم سب کا معشوق ہے اور معشوق ہی رہے گا‘‘۔ ڈاکٹر نذیر احمد کو بھی لاہور سے اتنا عشق تھا کہ انہوں نے ہزاروں میل کا سفر پیدل اور سائیکل پر اس لاہور میں کیا۔ ملکہ نورجہاں (جہانگیر بادشاہ والی) نے کہا تھا کہ ’’لاہور کو ہم نے جان کے برابر کی قیمت پر حاصل کیا۔‘‘ شوکت تھانوی نے کہا تھا کہ ’’مجھے لاہور سے نادیدہ عشق ہے‘‘۔ جسٹس محمد اسلم کیانی نے کہا تھا کہ ’’لاہور میں شادی کے دو موسم ہوتے ہیں ایک گرمی کا دوسرا سردی کا ، اس کے علاوہ جس کو جلدی ہو یا جس نے ولایت جانا ہو تو جون کے مہینے میں بھی شادی کر لیتا ہے۔‘‘ خیر اب تو سارا سال ہی شادیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ابوالاثر حفیظ جالندھری نے کہا تھا ،

وہی لاہور ہے وہی در و بام

وہی ہنگامۂ خواص و عوام

کبھی لوگ کہتے تھے کہ ’’جنے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا نئیں‘‘، ارے بھائی اب اس نئے لاہور میں دیکھنے والی کیا بات رہ گئی ہے سوائے ٹوٹی پھوٹی چند تاریخی عمارتوں کے اور بری روایات کے حامل افراد، اخلاق سے گری ہوئی بات کرنے والے لوگ رہ گئے ہیں۔

لاہور میں کبھی باراتیں بھی ٹرینوں پر آیا کرتی تھیں۔ امیر لوگ تو پوری پوری ٹرین شادی کے لئے بک کرا لیا کرتے تھے۔ آج بھی لاہور کے بعض دیہاتی علاقوں سے (اب تو وہ بھی شہری علاقے ہو چکے ہیں)لاہور کے بڑے اسٹیشن ، جس کو لاہوریے پنجابی زبان میں وڈا اسٹیشن کہتے ہیں، باراتیں آتی ہیں اور کبھی لاہور کے ان دیہاتی ریلوے اسٹیشنوں پر باراتوں کو لوٹ بھی لیا جاتا تھا۔ بڑے بڑے دلچسپ واقعات ہوتے تھے، ہم لاری اڈے گئےوہاںلوگوں سے پوچھا کہ بھائی یہاں بادامی باغ کا ریلوے اسٹیشن تھا کوئی ہمیں لاہور کے بڑے اسٹیشن اور شاہدرہ باغ جنکشن کے ریلوے اسٹیشن کا راستہ بتا دے۔ آخر کسی نہ کسی طرح بادامی باغ ریلوے اسٹیشن کے اسٹیشن ماسٹر اظہار سے رابطہ کیا، انہوں نے ہمیں جو راستہ بتایا اس کو سن کر حیرانی ہوئی کہ یہ تاریخی ریلوے اسٹیشن 1905-06میں قائم ہوا تھا، جب ہم نے اپنے کالج کے زمانے میں 1975میں دیکھا تو اس علاقے میں سوائے لاری اڈے اور سبزی منڈی کے کچھ نہیں تھا البتہ گوروں کے زمانے کی ایک واٹر ورکس کی عمارت تھی جس کا احوال آئندہ بیان کریں گے۔

تو جناب ایک انتہائی تنگ سی سڑک جس کو گلی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا، ایک طرف دکانیں اور دوسری طرف ریلوے کے تاریخی لوہے کے ڈنڈے نصب تھے ، جہاں ایک وقت میں ایک گاڑی گزر سکتی ہے، اسٹیشن ماسٹر اس تنگ گلی تک اپنے موبائل سے ہمیں راستہ سمجھاتے ہوئے خود اسٹیشن کے باہر آئے۔ ہم اس تاریخی اسٹیشن کی زبوں حالی اور بربادی دیکھ کر بہت افسردہ ہوئے۔ کبھی یہ ریلوے اسٹیشن بڑا آباد تھا۔ ٹکٹ گھر بھی تھا مگر ٹکٹ گھر کی کھڑکی بند تھی۔ بقول اسٹیشن ماسٹر کے لوگ یہاں سے ٹکٹ لیتے ہیں جبکہ وہاں ایسے آثار بالکل نہیں تھے، چھتوں میں سوراخ تھے۔ ٹین کے شیڈپر بچے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ اسٹیشن کی سفید عمارت جس میں آج بھی قدیم آلات تو لگے ہوئے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سی بی آئی کا نیا Un.Impressiveسسٹم بھی لگا ہوا تھا۔ عمارت کی چھتیں ٹپک رہی تھیں۔ اسٹیشن پر کوئی رونق نہیں تھی۔ ہمارے ہوتے ہوئے ایک دو ریل گاڑیاں ضرور تیزی کے ساتھ گزر گئیں۔ اسٹیشن کا بتی روم بند پڑا تھا۔ آہستہ آہستہ سڑک اونچی اور یہ تاریخی عمارت زمین میں دھنس رہی ہے۔ عزیز قارئین آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ اس اسٹیشن کے کیبن روم پر کچی آبادی والوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران کچی آبادی کے لوگوں کو مالکانہ حقوق دیئے گئے تو راتوں رات ریلوے کی اربوں روپے کی زمینوں پر لوگوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ بادامی باغ ریلوے اسٹیشن کے اردگرد کم از کم تیس ایکڑ رقبہ تھا جس پر لوگوں نے ناجائز قبضہ کر لیا تھا۔ وہ دن دور نہیں جب لوگ ریلوے کے بند اور ناقابلِ استعمال ریلوے اسٹیشنوں کی عمارتوںکو گرا کر ان جگہوں پر قبضہ کر لیں گے۔ کانا کاچھا ریلوے اسٹیشن میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے جب ہم وہاں پہنچے تو کانا کاچھا ریلوے اسٹیشن کی عمارت کے اندر ٹریکٹر ٹرالی اور اس کے پلیٹ فارم پر بھینسیں اور گائیں بندھی ہوئی تھیں، شدید بدبو تھی۔ اسٹیشن ماسٹر کے کمرے کے اندر پتہ نہیں کیا جلایا گیا تھا جس کی لکڑی کی بد بو آگ کی بدبو سے بہت مختلف تھی۔ عمارتوں کے اندر گائوں کے دیہاتی اپنا چارہ، مال مویشی اس طرح رکھے ہوئے ہیں جیسے یہ ان کا اپنا گودام ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریلوے والے خود اپنی لاکھوں کروڑوں روپے کی ماہانہ آمدنی والے بادامی باغ ریلوے اسٹیشن کو تباہ کر رہے ہیں۔ ارے بھائی ریلوے کے پاس ہزاروں ملازمین ہیں، پولیس ہے، ایک آدھا سپاہی ہی ان خالی عمارتوں کی حفاظت پر مقرر کر دو۔ اب بھی ان ریلوے اسٹیشنوں کے گوداموں سے لاکھوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے جو کرائے پر دیئے ہوئے ہیں۔ اس اسٹیشن کے ساتھ بھی ریلوے کالونی تھی جس میں101کوارٹرز تھے۔ 91کوارٹرز کو کنڈم قرار دیا جا چکا ہے تاکہ قبضہ مافیا اس پر قبضہ کر لے اور دس کوارٹروں میں اب بھی بیچارے ریلوے کے کچھ ملازمین رہتے ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین