• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیرزادہ شریف الحسن عثمانی ،سکھر

دُنیا میں شاید ہی کوئی انسان ایسا ہو، جو یہ کہہ سکے کہ مجھے کوئی مشکل درپیش نہیں۔ عُمر کے ہر حصّے میں ہمارا مشکلات سے واسطہ رہتا ہی ہے۔ ہاں ہر بار ان کی نوعیت اور شدّت مختلف ہوسکتی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اگر کوئی ہمارا ساتھ نبھاتا ہے، تو وہ مشکلات ہی ہیں۔ ایک صاحب سخت غربت کا شکار تھے۔ دو وقت کی روٹی کا حصول بھی اُن کے لیے سخت مشکل تھا۔ 

حسرت بَھری نگاہوں سے لوگوں کو کھاتا پیتا دیکھتے اور آہیں بَھرتے۔یہ صاحب دِن میں تو چھوٹی موٹی مزدوری کرکے کچھ کھا پی لیتے، مگر رات بھوک کے مارے کروٹیں بدلتے گزرتی۔ قسمت مہربان ہوئی تو کہیں ملازم ہوگئے۔ ایک مشکل دُور ہوئی، تو دوسری نے آدبوچا۔ کام سخت محنت کا تھا۔پہلے بھوک سونے نہیں دیتی تھی ، پھر دِن بَھر کی تھکن۔ بہرکیف، تنگ آکر ملازمت چھوڑ دی اور ایک چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرلیا۔ محنت سے جان چھوٹی تو مقروض ہوگئے، لیکن ہمّت و حوصلے سے کاروبار کرتے رہے،تو اللہ تعالیٰ کےکرم سے ایسی برکت ہوئی کہ سارا قرض ادا ہوگیا اور دولت کی ریل پیل بھی ہوگئی۔ لیکن اب چوری چکاری کا کھٹکا سونے نہیں دیتا تھا۔ 

بالآخر مسلسل بے آرامی میں صحت کھو بیٹھے۔ پہلے ہائی بلڈ پریشر، پھر ذیابطیس کاعارضہ لاحق ہوا۔ کچھ ہی عرصے بعد دَمے میں بھی مبتلا ہوگئے۔اب پرہیزی کھانے کھاتے ہیں اور لوگوں کو کھاتا پیتا دیکھ کر آہیں بَھرتے ہیں۔مشکلات کے حوالے سے ایک لطیفہ بھی مشہور ہے۔ایک صاحب کوکام کے سلسلے میں پورا دِن کافی پیدل چلنا پڑتا تھا،جس سے سانس پُھول جاتی تھی۔ اس مشکل سے نجات کے لیے سائیکل خرید لی۔ 

سانس قابو میں آگئی، مگر پیڈل مار مار کر کچھ ہی عرصے میں گُھٹنے درد کرنے لگے۔ اس مشکل سے تنگ آکر موٹر سائیکل خرید لی، تو گھٹنوں کا درد کمر میں منتقل ہوگیا۔ اس مصیبت سے جان چُھڑانے کے لیے کار خریدی۔ اب کمر درد تو غائب ہوا، لیکن کچھ ہی عرصے میں توند نکل آئی۔ ایک بار پھر چلتے پھرتے سانس پُھولنے لگی۔ پریشان ہوکر ڈاکٹر سے رجوع کیا، تو انہوں نے روزانہ دو گھنٹے سائیکل چلانے کو کہا۔ اب روزجِم جا کر دو گھنٹے سائیکل چلاتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں مشکلات کی’’ ری سائیکلنگ‘‘۔

ویسے زندگی کے مختلف ادوار میں پیش آنے والی مشکلات کا جائزہ لیا جائے، تو عہدِ شباب میں درپیش مشکلات کی نوعیت بالکل الگ نظر آتی ہے۔اب تو خیر حالات بدل گئے ہیں، لیکن گزرے زمانوں میں اکثر احباب کی مشکلات کا بڑا حصّہ ’’عشق و محبّت‘‘ ہی سے مشروط تھا۔ سب سے بڑی مشکل محبوب تک پیغام رسانی تھی۔ کسی زمانے میں یہ ذمّے داری کبوتروں کے سَر تھی، مگر جب ایک فلم میں نورجہاں نے سلیم کے کبوتر اُڑا دئیے، تو ڈر کے مارے متبادل کے طور پر یہ ذمّے داری رازدار قسم کے دوستوں کے سپرد کردی گئی، لیکن جب یار دوستوں میں ملوث ہونے لگے اور بعض رقابت کے منصب تک جاپہنچے، تونامہ بَری کا مِشن بھولے بھالے بچّوں کے حوالے کردیا گیا۔ 

اس طرح چونّی یا اٹھنّی کے عوض یہ خفیہ مراسلاتی مہم جاری رہی، مگر مشکل یہ تھی کہ اگر نامہ بَر زیادہ معصوم ہوتا، تو خط ’’غلط ہاتھوں‘‘ میں پہنچ جاتا اور جو ذرا ہوشیار ثابت ہوتا، تو جلد ہی دگنے تگنے معاوضے کا مطالبہ کرنے لگتا۔ کچھ عرصے بعد اس مشکل کا یہ حل سامنے آیا کہ رقعے کو ایک پتھر پر لپیٹ کر اُچھالنے کا طریقہ رواج پا گیا۔ مگر اس بار مشکل یہ رہی کہ کبھی کبھار کبھی پتھر گھر کے کسی اور فردکے سَر پر جا لگتا ،تو دِن میں تارے نظر آجاتے۔ اگر اُس دَور میں موبائل میسیج کی سہولت عام ہوتی، تو لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد، ہیر رانجھا وغیرہ کی فہرست میں کافی نام تو ہمارے معاصرین کے بھی شامل ہوجاتے۔ 

اِسی طرح واٹس ایپ کی عدم دست یابی کے سبب اکثر اوقات محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کی خاطرگھنٹوں گلیوں میں خوار ہونا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں چوں کہ موٹر سائیکل پر وَن ویلنگ کا رواج نہیں تھا، تو ہڈی جوڑ پہلوانوں اوراتائیوں کو اِسی وسیلے سے خُوب روزی ملتی۔ محبوب کا دیدار کتنا مشکل مرحلہ ہوا کرتا تھا، اس کا احساس ایک دِل جلے کے اس شعر سے بخوبی ہوجائے گا کہ؎’’یہ سوچ کر کہ وہ کھڑکی سے جھانک لے شاید…گلی میں کھیلتے بچّے لڑا دیے ہم نے‘‘۔ آج موبائل فون ہاتھ میں ہے،تونوجوان اس قسم کے ضروری کام کھاتے پیتے، چلتے پھرتے نمٹا لیتے ہیں اورکسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔ سو، اب اُس طرح کی مشکلات رہیں، نہ وہ وَن ٹو وَن عشق رہا۔ محبّتوں کی وہ پہلے سی نزاکتیں اور لطافتیں بھی کافور ہوگئیں۔ اب تو بچّہ بچّہ ’’میرا پیغام محبّت ہے، جہاں تک پہنچے‘‘ کی عملی تفسیر بنا پھرتا ہے۔

یوں تویہ فلسفہ اتنا مشکل نہیں، مگر اصل مشکل یہ ہے کہ اکثر اوقات ہمیں آسان بات سمجھنا ذرا مشکل لگتی ہے۔ دراصل، ہمیں جو مشکل زیادہ مشکل لگتی ہے، ہم اسے نسبتاً آسان مشکل سے بدل کر سمجھتے ہیں کہ ’’مشکل آسان ہوگئی‘‘۔ یوں مَرنے تک مشکلات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بقول شخصے ’’سُکون تو صرف قبر میں ملتا ہے۔‘‘ ہمیں اس نادر و نایاب فقرے کی آفاقیت و بقراطیت میں ہرگز کوئی کلام نہیں کہ بخدا معمولی سے اضافے کے ساتھ ہم بھی تہہ دِل سے قائل ہیں کہ سُکون صرف قبر ہی میں جا کر ملے گا،بشرطیکہ بیس بائیس کروڑ لوگوں کی مشکلات کا حساب کتاب گردن پر نہ ہو۔

تازہ ترین