یہ اب ثابت شدہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام کے بغیر شورش زدہ افغانستان کے 6ہمسائے پاکستان، چین، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران بھی اُس کے اضطراب سے مضطرب رہیں گے یا اُن کی اقتصادی ترقی کی راہیں بند ہی رہیں گی جبکہ روس کا عالمی اور بھارت کا علاقائی سیاست و تجارت میں مثبت کردار بھی بڑھ نہ پائے گا۔
خواہ وہ افغانستان کے حوالے سے بھی اپنے مفادات کے لئے کتنے ہی سرگرم کیوں نہ ہوں، جیسا کہ ہیں۔
روس اپنی امکانی اقتصادی ترقی کی نئی راہیں نکالنے اور بحیرہ عرب تک پہنچ کے بعد بحرِ ہند کے پورے خطے انڈونیشیا تا بحر احمر میں خلیج عقبہ تک خود کو چیس بورڈ آف انڈین اوشن کا بڑا پلیئر دیکھ رہا ہے۔
یہ بھی عجب ہوا کہ کریملن کا یہ خواب روس کے محدود ہونے کے بعد شرمندہ تعبیر ہو، چین اپنی موجود بڑی مملکت اور ساز گار بنتی صورت کی تکمیل پر CONNECTIVITY کی پُرامن فلاسفی کو عمل میں ڈھالنے کا شدت سے منتظر ہے۔
جس سے اسے کسی ترقی پذیر ممالک میں سیاسی مداخلت کے بغیر سرمایہ کاری اور اپنی انفراسٹرکچر کی مہارت سے غیراستعماری اثر کی قبولیت حاصل ہوگی۔ جو کسی بڑی عسکری اور اقتصادی طاقت کے سیاسی نوعیت کی مداخلت کے بغیر ان ممالک میں اثر و رسوخ قائم ہونے اور ممنونیت کا ایک نیا ماڈل تشکیل دے گا۔
ترکی، ایران، پاکستان اور افغانستان تک آسان ارضی رسائی حاصل کرے گا اور یہ ان تینوں کی ترکی تک ایسی ہی سہل بیچ کے ذریعے یورپ میں اپنے اقتصادی اور دیگر قابلِ قبول مفادات کے لئے آسان رسائی حاصل ہو سکے گی۔
چین، روس اور ترکی جیسے انفراسٹرکچر کےماہر اور بھاری بھرکم مشینری کے حامل ممالک خطوں کے اس گروپ کو جو جنوبی ایشیا سے مشرقی یورپ تک پھیلا ہوا ہے اور اپنے میں کتنے ہی چھوٹے خطے سموئے ہوئے ہیں، نیز سنٹرل ایشیا کی وہ لینڈ لاکڈ اسٹیٹس جو اسی خطے کی افغان ہمسایہ ریاستوں کی بیک یارڈ کی حیثیت رکھتی ہیں، وہ بھی تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے ذریعے افغانستان، پاکستان اور گوادر پورٹ تک رسائی حاصل کر سکیں گی۔
کاش! اس میں انڈیا بھی شامل ہو کر اپنی دسیوں کروڑوں کی غریب آبادی کے روشن مستقبل پر آمادہ ہوتا لیکن جموں و کشمیر پر قبضے کو ہر حالت میں جاری رکھنا اور پُرامن افغانستان سے اُس کی بیزاری اسے اس کارِخیر کا حصہ بننے سے نہ جانے کب تک روکے رکھے، یہ بھارتیوں کی قسمت اور اپنے شعور کا معاملہ ہے۔
پاکستان سے ترکی اور بیجنگ و ماسکو سے بحر ہند کے پورے خطے اور مشرقی وسطیٰ و افریقہ تک کایہ متذکرہ سیاسی اقتصادی منظر کوئی خواب یا عظیم اور مشترکہ ارادہ ہی نہیں ہے بلکہ اس تصویر میں سمائے ہوئے خطوں اور ممالک کا وہ امکانی نقشہ ہے، جس کے GENISISافغانستان اور پاکستان میں پیدا ہو کر ابتدائی ارتقائی عمل میں ڈھل چکے۔
اس حسیں خواب، جس کے شرمندہ تعبیر ہونے کے امکانات واضح ہو رہے ہیں، کی تعبیر تب ہی نکل سکتی ہے کہ ہمسایہ خطوں کے جو ممالک سرگرم ہو چکے ہیں وہ سرگرم رہیں۔
انہیں متذکرہ تصویر ان کے اپنے انفرادی فوائد کے حصول کے حوالے سے واضح کرکے انہیں اس کا مکمل یقین دلا کر شامل کرنا عالمی امن و استحکام کی ایک بڑی ضرورت بن گئی ہے۔
اس تناظر میں تاجکستان کے صدر مقام دوشنبے میں شنگھائی اکنامک کواپریشن کے اجلاس کے موقع پر خطے کے ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت سے وزیراعظم عمران خان کی ملاقاتیں، خصوصاً تاجک صدر امام علی رحمٰن سے ان کی طویل ملاقات اہم ترین ہے، جس کا سرگرم فالو اپ بہت نتیجہ خیز ہو سکتا ہے۔
بشرطیکہ اس کے لئے افغانستان کے تمام ہمسایوں اور روس اور ترکی کو بھی مکمل اعتماد میں لے کر آگے بڑھائے جائے، جس کے لئے کثیر الجہت سفارتی آپریشنز ضروری ہیں۔
نیز ایک بڑے سائنٹیفک کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم کی ضرورت وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں افغانستان کے حقیقی استحکام کے لئے طالبان کو دوشنبے میں انگیج کرکے دوحہ طرز پرایک اور پیس پراسیس شروع کرنے کی جو تجویز دی ہے اس پر تاجکستان کی آمادگی افغانستان اور پورے خطے کے لئے بہت حوصلہ افزا ہے۔
اس بڑے سفارتی مشن کو چین، روس، ایران، ترکی کو بھی اطرافی طور پر اعتماد میں ساتھ ساتھ رکھنا ہوگا اور ان ہی کی وساطت سے افغانستان کے تاجک، ازبک اور ہزارہ فیکشنز کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا لازمی سفارتی ضرورت ہے۔
کامیاب آغاز کے لئے پاکستان، چین کے ساتھ اس عظیم سفارتی مشن کاپہلے تو ڈیزائن تیار کرے تاکہ دوران عمل مشکلات حائل نہ ہوں۔
آہ! ڈاکٹر صفدر محمود: تاریخ پاکستان کے سچے مورخ کی رخصتی تحریک پاکستان اور ملک کی بنتی تاریخ کے عظیم اور سچے اسکالر ڈاکٹر صفدر محمود گزشتہ ہفتے اللّٰہ کو پیارے ہوگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
ڈاکٹر صاحب بلاشبہ انتھک اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے اُنہوں نے ابتدائے جوانی سے ہی اپنے روزگار کے ساتھ ساتھ اپنی علمی و قلمی صلاحیت سے قومی خدمت کے لئے مطالعہ پاکستان کو اپنا ایریا آف اسٹڈی و انٹرسٹ بنایا۔ آغاز گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچرر شپ سے کیا۔
مقابلے کا امتحان پاس کرکے بیوروکریٹ بن گئے۔ تعلیم کے وفاقی سیکرٹری رہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے کردار پر پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔
تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے بعد کی تاریخ کے اہم موضوعات پر مکمل تحقیق پر مبنی تصانیف کا سلسلہ شروع کیا جو عمر پیری تک جاری رہا اور 20کتابیں لکھیں۔ انتقال سے ایک سال قبل تک روزنامہ جنگ میں ’’صبح بخیر‘‘ کے حوالے سے کالم لکھتے رہے۔
پاکستان کی ہر خیر کن خبر پر توانا ہو جاتے اور بری پر فکر مند، ان کی تاریخ نویسی صرف تحریک اور اپنے سامنے بنتی تاریخ کے ریکارڈ تک محدود نہیں رہی، اگر کسی بھی ذریعے علمی بددیانتی یا نادانی سے تاریخ پاکستان میں کوئی ملاوٹ کی گئی یا کھوٹ ڈالا گیا اور اپنی سیاست اور نظریے کو ٹھونسنے کی کوشش گئی، انہوں نے اس کی تصحیح کو فوری لازم سمجھا اور بروقت تمام تحقیقی اصولوں کے مطابق اس کی درستی کرکے اسے اپنے کالم اور کتابوں سے عام کیا۔
زیڈ اے سلہری مرحوم کے بعد وہ واحد مورخ تھے جنہوں نے یہ کار خیر تواتر سے کیا۔ اس کے لئے وہ لندن کی لائبریریاں بھی کھنگالتے رہے۔
روزنامہ جنگ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ تاریخ پاکستان کے یہ سچے کھرے برسوں جنگ کے ادارتی صفحے پر تاریخ پاکستان اور قائد اعظم کے سیاسی ابلاغ کی بروقت تصحیح اور پیشکش کی خدمت قومی فریضے کے طور پر کرتے رہے۔
ڈاکٹر صاحب کی کتابیں جن پبلشرز نے شائع کی ہیں انہیں چاہئے کہ ان کی علمی خدمات کے وہ حصے جن میں انہوں نے تاریخ کی درستی کی، اس قابل قدر کام کی اشاعت کو وہ جاری و ساری رکھیں کہ یہ نئی نسل کی پاکستان کے قیام کی حقیقت سے آگاہی کا لازمہ ہے۔