• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کابل چڑیا گھر میں طالبان جنگجوؤں کے سیر سپاٹے


افغانستان میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد طالبان کو سماجی اور معاشی سطح پر کئی بحرانوں کا سامنا ہے لیکن بہت سے طالبان جنگجو ایسے بھی ہیں جو ساری مشکلات ایک طرف رکھ کر سیر و تفریح میں مصروف ہیں۔

جنگلوں پر جُھک کر ببر شیر کو دیکھتے، بندر کی حرکتوں سے محظوظ ہوتے اور پرندوں کی تصاویر لیتے یہ افغان طالبان ہیں جبکہ یہ مقام کابل چڑیا گھر ہے جہاں اب مقامیوں سے زیادہ ملک کے کونے کونے سے آئے طالبان جنگجوؤں کا رش ہے۔

کسی نے بندوق کی نال پر گُلاب اٹکا رکھا ہے تو کوئی درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں بینچ پر بیٹھا موبائل فون میں مگن ہے۔

جنگل کے بادشاہ کو چھونا تو ممکن نہیں لیکن اس کے مجسمے کے ساتھ تو بیٹھا جاسکتا ہے، یہ مجسمہ اس چڑیا گھر کے لاڈلے مرجان نامی شیر کی یاد میں امریکی مجسمہ ساز نے تراشہ تھا، مرجان 2000ء میں چل بسا تھا۔

ان طالبان جنگجوؤں نے گزشتہ 20 سال مغربی افواج سے لڑتے ہوئے گزارے ہیں، یہ پہلا موقع ہے جب یہ آزادی سے سیر و تفریح میں مصروف ہیں۔

کابل چڑیا گھر 1967ء میں بنا اور افغانستان کے ہر شہر اور علاقے کی طرح اس نے بھی جنگ کی قیمت چکائی، موٹی کھال والے یاک کے اس جنگلے میں کبھی ایک ہاتھی ہوا کرتا تھا، لیکن یہ 1993ء کی خانہ جنگی میں راکٹ حملے کا نشانہ بنا اور جانبر نہ ہو سکا۔

فی الحال اس چڑیا گھر کا کوئی ڈائریکٹر نہیں، انتظامیہ کے سہمے ہوئے حکام کیمرے کا سامنا کرنے کو تیار نہیں، لیکن انہیں امید ہے کہ یہ تاریخ نہیں دہرائی جائے گی۔

تازہ ترین