کسی بھی ملک کی معیشت مضبوط ہو تو قوم بھی مضبوط ہوتی ہے اور اس کے باہمی مفادات، دنیا، عزت اور خوف کے پس منظر میں دیکھتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی ملک کے ادارے مضبوط اور قابلِ اعتماد ہوں تو پھر بھی دنیا میں اُس ملک کو بڑا احترام ملتا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اس مقام سے محروم ہے جو کسی بھی ملک کی شناخت ہوا کرتا ہے، خاص کر معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم ملک۔ پاکستان میں پچھلے دو تین ہفتوں میں کرکٹ کے حوالے سے جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ کسی طور اچھا نہیں ہے اور اسپورٹس مین اسپرٹ رکھنے والے ممالک (جو دنیا کے مہذب ترین ملک ہونے کے دعوے دار بھی ہیں) کی طرف سے پاکستان میں کرکٹ کے پسِ منظر میں جو عالمی سیاست کا نیا کھیل شروع کیا گیا ہے اس پر حکومت اور عوام سب یکساں سوچ اور ردِ عمل رکھتے ہیں کیونکہ نیوزی لینڈ اور پھر انگلستان کی ٹیموں کا سیکورٹی کے نام پر کھیلنے سے انکار کا بظاہر کوئی جواز نہیں ہے اور نہ ہی اسپورٹس مین اسپرٹ کے اصولوں کے مطابق ہے۔ اگر ان ممالک کے سفارت کار آزادانہ یہاں گھوم پھر رہے ہیں تو پھر سیکورٹی کا مسئلہ کہاں ہے؟ ہمارے خیال میں وزیراعظم کو محکمہ خارجہ کے حکام سے ضرور باز پُرس کرنی چاہئے کہ اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی کو دنیا بھر میں مانا جاتا ہے اور اُس کی حمایت کی جاتی ہے تو پھر انگلستان اور نیوزی لینڈ کی حکومتوں نے ہمارے یہ سلوک کیوں کیا؟ یہ ہر لحاظ سے سفارتی میدان میں پاکستان کے لئے ہزیمت سے کم نہیں ہے۔ اس لئے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین رمیز راجہ جو ایک نئے وژن کے ساتھ کرکٹ کو ایک مقبول ترین گیم بنانے کا عزم لے کر آ ئے تھے، اس حوالے سے ان کی پریشانی کو ہم سب کو اپنی پریشانی سمجھنا ہوگا۔ رمیز راجہ بنیادی طور پر اسپورٹس مین خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد محترم بڑے راجہ صاحب انکم ٹیکس کمشنر تھے جبکہ ان کے بڑے بھائی وسیم راجہ اور ہم ایک ساتھ کرکٹ بھی کھیلتے رہے ہیں۔ اُس وقت دنیا کے کسی ملک میں نہ تو کرکٹ میں کوئی سیاست تھی اور نہ مختلف ممالک میں اس حوالے سے کرکٹ کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا تھا البتہ کرکٹ ڈپلومیسی سابق صدر مشرف کے دور میں پاک انڈیا معاملات کے حوالے سے ہوتی رہی ہے لیکن اب تو انگلستان اور نیوزی لینڈ نے حد ہی کر دی ہے۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ ان ممالک کا یہ فیصلہ ہر لحاظ سے غلط تھا، اس لئے دنیا ئے کرکٹ میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف ان ممالک کی ساکھ پر یہ سوال اٹھے گا کہ وہ کتنے سنجیدہ ہیں؟ اس لئے ہماری کرکٹ کو وقتی طور پر دھچکا لگا ہے اور اس سے کروڑوں روپے کے اخراجات اور متوقع آمدن متاثر ہوئی ہے جبکہ سرکاری ٹی وی کے حکام کے بقول، اس کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اس پسِ منظر میں وزیراعظم PCBکے سربراہ اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس بلائیں، جب کہ وزارتِ خارجہ کے حکام سے ضرور باز پُرس کریں کہ ان کے دعوئوں کے برعکس پاکستان کو سفارتی طور پر اتنی بُری صورتحال سے کیوں دو چار ہونا پڑا؟ اس تجویز پر اگر سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا تو پھر پاکستان کے ساتھ مختلف ممالک ایسا کھیل کھیلتے رہیں گے جس سے اسپورٹس کے میدان اور خاص کر کرکٹ کے میدان میں ہماری شناخت پر سوال اٹھتے رہیں گے۔
نیوزی لینڈ اور انگلستان کی ٹیموں کے انکار کے بعد یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ کرکٹ بھی اب ڈپلومیسی کی بجائے بین الاقوامی سیاست کی نذر ہو گئی ہے جس کے بعد قومی سطح پر یہ جذبہ ابھارنے کی ضرورت ہے کہ کرکٹ ہو یا ہاکی یا کوئی بھی کھیل، ہم اسپورٹس مین اسپرٹ کے جذبے کو زندہ رکھیں گے جس سے آئندہ سال کے ورلڈ کپ کے میچوں میں بھرپور مقابلہ کے لئے ہماری قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ دوسرا ان واقعات سے یہ تو ثابت ہو گیا ہے کہ عالمی سطح پر ہماری کرکٹ کے کھلاڑیوں جوانوں کا نفسیاتی طور پر خوف تو موجود ہے، ان شاء اللہ یہ رہے گا بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کرکٹ کے ساتھ ساتھ ہاکی، فٹ بال، اسکوائش اور دوسری کھیلوں کی پروموشن کے لئے اقدامات کریں، جس سے قومی سطح پر اسپورٹس کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ اس سلسلہ میں تمام اداروں میں بلاامتیاز ان کھیلوں کے آغاز کے لئے بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس کے لئے قومی بینکوں، کارپورٹ کمپنیوں اور دیگر اداروں سے اسپانسر شپ لی جائے۔ اس قوم کو معاشی طور پر مضبوط اور صحت مند بنانے سے پوری دنیا اِن شاء اللہ پاکستان کو مزید قدر و منزلت کی نظر سے دیکھے گی۔