• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُس نے جس اُمید اور آس سے مجھ سے ملنے کا تقاضا کیا تھا، مَیں انکار نہ کر پایا۔ ویسے بھی وہ میرے سامنے ایک سادہ تصویر کی صُورت کھڑا تھا، جس میں رنگ بھرنے کی اشد ضرورت تھی۔ مَیں دیکھ سکتا تھا کہ وہ ایک سامع کا منتظر ہے۔ اکثر انسان کی ضرورت بس اتنی سی ہوتی ہے کہ اُسے ایک سامع مل جائے، جسے وہ اپنے زخم کھول کر دِکھا سکے۔ البتہ فن کاروں پہ اللہ کا یہ کرم ہے کہ وہ اپنے زخم دوسروں کو دکھانے کے بجائے سپردِ فن کر دیتے ہیں۔ وہ بھی ایک فن کار تھا، لیکن وہ فن کار، جس سے اُس کا فن زمانے نے چھین لیا تھا۔ اب اُس میں محض ایک فن کار کی آتما بستی تھی۔ فن کار سے جب اُس کا فن چھین لیا جائے تو پھر اُس سےخوف ناک کوئی ہستی دنیا میں نہیں ہوتی۔ اُس کی ذات ایک خالی ویران بستی کی مانند ہوجاتی ہے، جہاں صرف الّو بولتے ہیں۔ جہاں کے خالی پن اور ویرانی سے خود بستی بھی خوف کھانے لگتی ہے۔

چند ثانیے وہ دیوار پہ موجود گھڑی کو تکتا رہا اور میں اُسے۔ پھر وہ یوں گویا ہوا۔ ’’ہماری دنیا کے لوگ چور ہیں۔ یہ کسی شخص کو اتنا لُوٹتے ہیں کہ اُس کے پاس سوائے بےبسی کے کچھ نہیں بچتا۔ مَیں چاند کی ہمرہی میں سفر کرتا تھا، ہواؤں کے سہارے فضا میں اُڑتا چلا جاتا تھا۔ رنگ برنگی تتلیاں میرے تعاقب میں رہتی تھیں۔ روشنیاں مجھ سے فیض حاصل کرتی تھیں۔ اندھیرے مجھ سے خائف رہتے تھے۔ اور پھر دنیا کے لٹیروں سے میرا سامنا ہوگیا۔ تم اندازہ نہیں کرسکتے کہ انھوں نے مجھے کتنا لُوٹا۔ 

میرا فن، میرا حوصلہ، میرا اعتماد، میری قوّت سب چھین لی۔ اور جانتے ہو…‘‘ وہ یہ کہہ کے رُکا۔ جیسے اب جو کہنے جا رہا ہے، وہ کہنے کی اُس میں سکت ہی نہ ہو۔ مَیں اُس کی گہری اداس آنکھوں کی ویرانی تک رہا تھا۔ چاہتا تھا کچھ تو نمی اُن میں اترے۔ لیکن وہ تو ایک خالی ٹوٹا ہوا برتن تھا۔ ایک گہری سانس کے بعد وہ گویا ہوا۔ ’’جانتے ہو، اِس دنیا نے مجھ سے میرا آپ بھی چھین لیا ہے۔ 

یہ شخص جسے تم دیکھ رہے ہو یہ مَیں نہیں ہوں، میری لاش ہے۔ جس پہ کسی اور شخص کا عکس غالب ہے۔ مَیں جب آئینہ دیکھتا ہوں، تو آئینے میں موجود آنکھیں مجھے اُس کی نظر آتی ہیں۔ میں جب کسی بات پہ مُسکراتا ہوں تو کسی اور کا عکس مجھ پہ حاوی ہو جاتا ہے۔ میری ہنسی غائب ہو جاتی ہے۔ مَیں اپنی نیم مُردہ روح کو چیختے چلّاتے سُنتا ہوں۔ مَیں اپنی موت پہ روتا ہوں، ماتم کرتا ہوں لیکن میرا اظہار گونگا ہے۔ 

جب انسان مکمل خالی ہو کر ٹوٹ جاتا ہے تو اس کا ماتم، اس کی گریہ زاری بھی گونگی ہو جاتی ہے۔ شاید تم بھی سب کی طرح مجھے نفسیاتی کہو۔ یہ لٹیرے لوگ کسی سے اُس کا وجود چھین کر اُسے نفسیاتی سمجھ لیتے ہیں۔ پھر جب سُکون کی خاطر اُس نیم مردہ وجود کا گلا گھونٹ دیا جائے تو پھر یہ اُسے خودکشی کہتے ہیں۔ اُس کے جنازے سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ تم نہیں سمجھ سکتے، تم نہیں سمجھ سکتے…‘‘ وہ بےبسی سے ہاتھ مَل رہا تھا۔

’’تم خود پہ کوئی خول کیوں نہیں چڑھا لیتے…؟‘‘ مَیں بس اتنا ہی کہہ پایا۔ ’’خول کے سہارے کوئی کب تک زندہ رہتا ہے۔‘‘ اُس کی باتوں سے مجھ میں موجود مصوّر چوکنّا ہوچُکا تھا۔ میرے تصوّر کو تقویت مل رہی تھی۔ وہ مجھے ایک زخمی پرندہ لگ رہا تھا، جس سے اُس کے پر چھین کر اُسے لہولہان کر دیا گیا ہو۔ یا ایک ٹوٹا ہوا ساز، جس پہ صرف غم گین صدائیں ہی گونجتی ہوں۔ ’’خول بھی چڑھا کے دیکھا ہے۔ اپنی حقیقت کو پنجرے میں قید بھی کیا ہے۔ لیکن وار ہمیشہ خول سے شروع ہوتا ہے۔ خول چاہے جتنا بھی مضبوط ہو، حقیقت نہیں ہوتا، اُسے رستے سے ہٹنا ہی پڑتا ہے۔ رہی بات وجود کی، تو اگرسرشت میں نرمی شامل ہو، تو خول کی مضبوطی کچھ نہیں کر سکتی۔ فطرت ہمیشہ ایک سی رہتی ہے۔ اندر ظاہر ہو کے ہی رہتا ہے۔‘‘

یہ ٹوٹا ہوا خالی برتن میرے سارے وجود کو لرزا چکا تھا۔ آج کی شام اُسے تصوّر بن کے کینوس پہ بکھرنا تھا اور مجھے اس تصوّر کو جھیلنے کے لیے ہر اُس کیفیت سے گزرنا تھا، جس سے وہ گزر چُکا ہے۔

………٭٭………

’’برسوں پہلے جب ہم تعلیم کی بات کرتے تھے، تو اس سے مُراد فکری اور روحانی تربیت ہوتی تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مادیت پرستی نے ہمارے معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کرلیں۔ اس کے اثرات جہاں ہماری باقی زندگی پہ پڑے، وہیں تعلیم محض مادی ترقی کا ذریعہ بن کے رہ گئی۔ اب تعلیم محض ڈگری کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ تاکہ مادّی ترقی حاصل کی جاسکے۔ اخلاقی اور روحانی تربیت کا اِس سے دُور دُور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔ روحانی ترقی، مادّی ترقی سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ روح کا علم انسان کو محدود دائرے سے باہر نکالتا ہے۔

اس دنیا کے بیش تر انسان اپنی پہچان نہیں کرپاتے۔ اپنی اہمیت کا احساس نہیں دلا پاتے۔ دوسروں کے وضع کردہ اور طے شدہ طریقہ کار کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ انسان زمین پہ خدا کا خلیفہ ہے۔ ہر انسان کو اللہ نے اپنی کسی نہ کسی صفت سےنوازاہے تاکہ زمین پہ اُسی صلاحیت کو پہچانتے ہوئےاللہ کو اپنے اندر محسوس کرے۔ خود کو اُس سے منسلک سمجھے۔ اِس صلاحیت کو سمجھنا اُس کےدونوں جہانوں کے لیےبہت ضروری ہے۔ وہ ایسے کہ اپنی اس صلاحیت کو پہچان کر وہ دنیا میں منفرد حثیت حاصل کر سکتا ہے، تو ساتھ ساتھ خالق سے منسلک ہو کر اُس حقیقی جہان تک بھی پہنچ جاتا ہے، جس کےحصول کے لیے اس جہان میں یہ ساری تگ ودو کر رہا ہے۔ لیکن اس مادّیت پرستی نے تو اصل حقیقت ہی کو مائنس کر دیا ہے۔

اب وہ اپنی پیاس بجھانے کے لیے علوم کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر بھی پیاسا ہی رہتاہے۔ نتیجتاً آج کا دَور ہر ترقی پاکربھی بےچینی کو فروغ دےرہا ہے۔ آج کا ہر انسان خوف کے سائے میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ وجہ روحانی تربیت کا فقدان ہے۔‘‘ اسراء کے لیے آج پہلی بار کسی دانش وَر کی باتیں انتہائی دل چسپی کا باعث تھیں۔ آج عرصے بعد الفاظ و سوالات کا ایک طوفان وہ اپنے اندر محسوس کر رہی تھی، جو باہر آنے کو بےتاب تھا۔ کبھی وقت تھا کہ وہ سوالات پوچھ پوچھ کے اپنے بڑوں کو پریشان کردیتی، لیکن پھر جب اُسےمسلسل غیر تسلی بخش جوابات ملنے لگے، تو اُس نےاپنےہر سوال کو اپنے اندر دفن کرنا سیکھ لیا۔ خاموشی اس کے رگ و پے میں سرایت کرچُکی تھی۔ البتہ کبھی کبھی دنیا سے منسلک رہنے کے لیے وہ مسلسل بولتی تھی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ الفاظ کتنے مہمل ہیں اورخاموشی سے زیادہ پُراثر گفتگو کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔

’’سر! میرا ایک سوال ہے، اگرآپ اجازت دیں تو…؟‘‘ ’’جی بیٹا، ضرور پوچھیے۔‘‘ دانش وَر کی شخصیت میں عجیب سی کشش تھی۔ اسراء محسوس کر رہی تھی، جیسے آج اس شخص نے اُس کی خاموشیوں کو زبان دے دی ہے۔ وہ علم کا ایک بہتا سمندر تھا، جس سے کوئی سوال نہ کرنا، ایسے ہی ہوتا، جیسے کسی ٹھنڈے چشمے کے قریب سے انسان پیاسا لوٹ آئے۔ ’’سر! چوں کہ ہمارا نظام ِ تعلیم اپنی خامیوں کے باعث ہماری روحانی تربیت کا باعث نہیں بن رہا۔

یہی حال اخلاقی تربیت کا بھی ہے، تو ایک اَن پڑھ شخص دیانت داری اور ایمان داری کی مثال بن جاتا ہے، اور ایک پڑھا لکھاشخص اپنےعلم کو دھوکا دہی کےلیے استعمال کرتا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتی کہ سب ایک جیسے ہیں، لیکن اکثریت ایسی ہی ہے، تو جب اخلاقی تربیت کا یہ حال ہے تو اس نظام سے روحانی تربیت کی توقع رکھنا عبث نہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ آج کا نوجوان اپنی روحانی پیاس کی تسکین کہاں سے اورکیسےکرے؟؟ حالاں کہ ہماری روحانی ضروریات مادّی اور جسمانی ضرورتوں سے کہیں بڑھ کے ہیں۔ ہمارا معاشرہ، ہمارے والدین بھی اسی نظام ِ تعلیم کے تربیت یافتہ ہیں۔ ہمارے علما خود ہزار ہا تضادات میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ خود کنفیوژن کا شکار ہیں، توکسی کے علم کی پیاس کو کیا سیراب کریں گے۔پھر طلب کا تناسب ہر شخص میں جدا ہوتا ہے،تو جس میں روحانی طلب کی مقدار بہت زیادہ ہو ، اُسے ایسے ماحول میں کیا کرنا چاہیے؟‘‘

’’بہت اچھا سوال ہے بیٹی آپ کا۔ بالکل درست نشان دہی کی آپ نے۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے کوئی پودا، اپنی تمام ضروریات کی تکمیل کے لیے ماحول پہ انحصارکرتاہے۔ پودےکی نشوونما کے لیے اس کی بنیادی ضروریات کی تکمیل مثلاً روشنی، ہوا، پانی، کھاد وغیرہ کا ملنا اشد ضروری ہے۔ اگر یہ سب اُسے نہ ملے تو وہ سوکھنے لگتاہے۔ یک سر کُملا، مرجھا جاتا ہے۔ لیکن آپ نے مطابقت کا اصول بھی دیکھا ہوگا۔ بہت سے جان داروں کی ضروریات جب ماحول پوری نہیں کر پاتا، تو وہ مطابقت اختیار کرلیتے ہیں۔ 

یہاں میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ خود کو ہر طرح کےحالات کےمطابق ڈھال لیا جائے بلکہ صحرا میں اُگنے والا پودا جیسے اپنا وجود قائم و دائم رکھنے کے لیے ماحول کے بجائے خود اپنی طرف دیکھتا ہے، تو روحانی تربیت کےخواہش مندوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ روح کی پرورش اکثر ہمارے ارد گرد کا ماحول نہیں کر پاتا، تو پھر یہ کام اُسےخود ہی کرنا پڑتا ہے۔ انسان اِس کائنات کا دل ہے، اور انسان کی کائنات اُس کا دل۔ تو بس، اُسی طرف رجوع کریں۔ تنہائی اختیار کریں، مثبت سوچ اپنائیں۔ 

اللہ کو اُس کی ہر تخلیق کے آئینےمیں دیکھیں۔ جب انسانوں میں اللہ کا رُوپ دکھائی دینے لگے تو پھر خالق تک کا سفر بہت آسان ہونے لگتا ہے۔ وہ پوشیدہ نہیں، وہ ظاہر ہے۔ بس آپ کو اپنی روحانی دنیابیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ روح کی آنکھ کی ضرورت ہے۔ روحانی دنیا بھی ایک حقیقت ہے، اُسے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ خود کو وقت دیں، پردے ہٹنے لگیں گے۔ منظر صاف ہو جائے گا۔ پھر روح خود اپنی تربیت کے لیے آپ کی ہم نوا ہوجائے گی۔ جیسے کہ کیکٹس کا پودا۔‘‘

………٭٭………

کہانی کار بالآخر اُس کی عظیم کہانی کا آغاز کر چُکا تھا۔ مَن کی دنیا کے اِس حسین گلستان میں جو کونپل دھیرے دھیرے پُھوٹ رہی تھی، اُس سے وہ بےخبر نہیں تھی، البتہ اِس بات کا احساس ابھی اُسے نہیں ہو پایا تھا کہ دنیائے دل میں یہ اُتھل پتھل، ہلچل کیا رنگ لائے گی۔ حسین راہیں اکثر ناموافق منزل کی طرف لے جاتی ہیں اور دشوار راہوں کی منزل ہمیشہ حسین ہوتی ہے۔ خواب نگر کی یہ لڑکی حقیقت سے ابھی بہت دُور تھی۔ اُسے ابھی حقیقت کی تلخیوں کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ وہ تو حقیقت کو خواب سے بھی حسین سمجھ بیٹھی تھی۔ بس، دل کی دنیا میں ہونے والی یہ ہلچل اس کےلیےایک بہت حسین تجربہ تھی۔

شام کے اس حسین پہر میں اُس کی سوچ کا محور محدودیت کے چنگل سے نکلنے کو بےتاب تھا۔ افلاک کی وسعتیں پر پھیلائےاُسے اپنی آغوش میں سمیٹنے کو مچل رہی تھیں۔ کائنات کے راز اس پہ افشا ہونے کو تیار تھے، مگر یہ سب اتنا آسان کہاں تھا۔ ابھی توکہانی کی ابتداتھی۔ ابھی اُسےکلائمیکس کی اذّیتوں سے گزرنا تھا۔ ابھی تو وقت نے اُس کے پر چھین کر روح کو طاقتِ پرواز عطا کرنی تھی۔

ہلکی ہلکی ہوا، سورج کے غروب ہونے کا حسین منظر، درد کی ہلکی ہلکی دستک، نئے نئے جذبات کی پُھوٹتی کونپلیں…اِن سب کے بیچ وہ کل ہونے والے مشاعرے کے لیے اپنی نظم پہ نظرِ ثانی کر رہی تھی۔ جانے کیوں، آج اپنی یہ بہترین نظم اُسے ذرا نہیں بھا رہی تھی۔ گھڑیاں ویسے بھی اُس پر مہربان تھیں۔ سو، کاغذ قلم لے کر وہ کچھ نیا لکھنےکو بیٹھ گئی۔ جذبات و خیالات کی تبدیلی، تخلیقات کا رُخ موڑ کر انھیں بھی نئی سمت عطا کر دیتی ہے۔ سو، تبدیلی کی اِسی کیفیت سے گزرتے ہوئے وہ شام کی گھڑیوں کے نام جذبات کی روانی کر چُکی تھی۔ اُسے کہاں معلوم تھا کہ یہ الفاظ کسی خاموش ساحل میں اضطراب پیدا کر کے اس کی سمت متعیّن کردیں گے۔

………٭٭………

خوشبو کے تعاقب میں تتلیاں پھولوں کو دیوانہ وار چُومتی ہیں۔ عشق، خوشبو سے ہوتا ہے اور طواف پھولوں کا کرتی ہیں۔ یہی حال پتنگے کا ہے، روشنی کی محبّت میں چراغ پہ زندگی وار دیتا ہے۔ ہم انسانوں کا بھی یہی معاملہ ہے، تخلیق کار کے حُسن کو تخلیق میں دیکھ کر اُس کی پرستش شروع کردیتے ہیں کہ تخلیق کار کی قابلیت تخلیق کی روح بن کر اُس میں اُترتی ہے۔ محبّت کا تعلق اِسی روح سے ہے۔ خوشبو پھول کی روح ہےاور روشنی چراغ کی۔ لیکن نہ تتلیوں کو اس کی خبر ہے، نہ پتنگے ہی کو کچھ آگہی ہے۔ یہ وہی لمحہ تھا، جب میری مصوّری کو روح کی عطا کا آغاز ہوا تھا۔ روح چوں کہ غیر فانی ہے، سو اوجِ افلاک پہ وقت قلم لے کر میرے فن کی معراج کے انتظار میں بیٹھ چُکا تھا تاکہ ہمیشگی اس کے نام رقم کرسکے، لیکن اُس لمحے مجھے کہاں معلوم تھا کہ یہ معراج کتنے طواف کے بعد حاصل ہوگی۔ کتنی قیدیں جھیلنی تھیں۔ دائرے کی حدود میں رہتے ہوئے، دائرے سے باہر کا سفر کرنا تھا۔

اُس کے الفاظ تھے کہ جیسے ویران بنجر صحرا میں سریلی بانسری کی صدا، جس سے مُردہ زمین پہ اک ہلچل سی مچ گئی ہو۔ شاعری اور مصوّری ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ اس مشاعرے میں کتنے ہی معروف شعراء لوگوں کو اپنے الفاظ کے سحر میں جکڑ رہے تھے، مگرمَیں… باقی سب سے قطع نظر اس نو آموز شاعرہ کے الفاظ کے مدوجزر میں کھو چُکا تھا۔

مشاعرے کے اختتام پہ وہ مجھ تک پہنچی تھی۔ اُس کی مُسکراتی آنکھیں مجھ تک پہنچ کر طواف کی آرزومند تھی اور میں اَن جانے خوف میں گِھرا اس آزاد پرندے کو باز رکھنے کی ناکام سعی کررہاتھا۔ اُس کی مُسکراہٹ مجھے اِک غیبی اشارہ سا دے رہی تھی کہ حسین چراگاہوں کا یہ بلند پرواز، آزاد پرندہ کہیں راہ بھٹک کر کسی صحرا کا مکین نہ بن جائے، جہاں کی ویرانیاں اور وحشتیں پھر پَر نوچ نوچ کر پرندوں کی بلند پروازی کے خواب مٹّی میں ملا دیتی ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین