اوپر سے نیچے تک ہم ننگے تضادات کے ستر پوش شہکار ہیں لیکن اکثریت کو دکھائی نہیں دیتے۔ اوپر بلکہ سب سے اوپر تو ہمارے ملک کا نام ہے.... ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘۔
اس نام پر غور کریں تو جھٹکا نہیں جھٹکے لگتے ہیں کیونکہ ایک طرف تو ہمارا خیال ہے جو صحیح ہے کہ دین اسلام ’’مکمل ضابطۂ حیات‘‘ ہے اور اگر ہے تو ہم نے ساتھ ’’جمہوریہ‘‘ کی پخ کیوں لگائی ہوئی ہے کیونکہ یہ تو ’’مغربی جمہوریت‘‘ ہے جس کا حضرت علیؓ کی خلافت تک کے اسلام سے دور پار کا بھی کوئی تعلق نہیں کیونکہ ’’بیعت‘‘ کی تو دنیا ہی اور ہے۔
اسلام میں سیاسی پارٹیوں کی بھی کوئی گنجائش نہیں اور کسی بھی ’’مکمل ضابطۂ حیات‘‘ میں سیاسیات اور اقتصادیات ہی تو اہم ترین ہوتی ہیں یعنی اگر آپ کا سیاسی نظام بھی غیروں سے مستعار شدہ ہے اور اقتصادی نظام (سرمایہ داری) بھی مغرب سے درآمد شدہ ہے تو پھر ’’اسلامی‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ اسی طرح کا ایک فکری فراڈ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کیا اور عوام یہ زہریلی گولی بغیر پانی کے نگل گئے۔
یہ ’’فکری فراڈ‘‘ بھٹو صاحب کے منشور کا نمایاں ترین حصہ تھا
’’اسلام ہمارا دین‘‘
’’سوشلزم ہماری معیشت‘‘
پھر وہی بات کہ اگر اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے تو پھر اس کی معیشت غیر اسلامی یا اسلام کے دائرہ سے باہر کیسے ہو سکتی ہے؟ لیکن یہ نعرہ بھی خوب چلا کیونکہ ہمارے ہاں ’’ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے‘‘ ۔
سیاست سے لے کر معیشت تک، ثقافت سے لے کر صحافت تک ہر طرف ’’ٹیلنٹ‘‘ کے آتش فشاں پھٹے پڑ رہے ہیں۔ تازہ ترین شوشا ن لیگ کی طرف سے آیا ہے۔
مریم نواز نے آرمی چیف کی توسیع کی مخالفت جبکہ حمزہ شہباز نے حمایت کر دی ہے تو کیا یہ جمہوریت کا حسن و جمال ہے یا اس کی سیکس اپیل جسے کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں ہوتی یعنی جمہوریت نہ ہوئی، مارلین منرو یا مدھو بالا ہو گئی۔
سمجھ نہیں آ رہی ہم چوں چوں کا مربہ ہیں یا آدھا تیتر آدھا بٹیر؟ وہ کوے ہیں جو ہنس کی چال چلتے چلتے اپنی چال ہی بھول گئے یا وہ ہنس ہیں جو کوے کی چال چلتے چلتے اپنی چال گنوا بیٹھے یا پھر دو کشتیوں کے سوار ہیں جو نہ آر نہ پار بلکہ بیچ منجدھار غوطے کھا رہے ہیں اور اس بات پر اترا بھی رہے ہیں کہ دیکھو ہم ابھی تک پوری طرح غرق نہیں ہوئے۔
ہوئے مر کے ہم جو رسوا،ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اُٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
گزارش صرف اتنی ہے کہ کسی ایک طرف تو لگو کہ رولنگ سٹون پر کبھی گھاس نہیں اگتی۔ تقریباً 8،9 صدیوں سے ’’کھایا پیا کچھ ناں گلاس توڑا چار آنہ‘‘ کی نوٹنکی چل رہی ہے اور ہر شو سپرہٹ جا رہا ہے لیکن مجال ہے جو کسی پروڈیوسر، ڈائریکٹر، سکرپٹ رائٹر کے کان پر جوں بھی رینگے۔
سب سلطانی، سونے، چاندی، ڈالروں کے دیوانے اور عوام ان کے دیوانے، ’’آوے ای آوے، جاوے ای جاوے‘‘ کی اس جادونگری میں پتھر کا ہو جانے کیلئے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں ۔
گورا چلا گیا لیکن اس کا سب کچھ جوں کا توں موجود ہے۔ ڈیمو کریسی سے لے کر کرکٹ تک کچھ بھی اپنا نہیں، نہ معیشت اپنی رہی نہ ثقافت اور ہاں کرکٹ تو چھوڑو، کوئی ایک معقول مقبول کھیل تو بتائو جو ان کی عطا نہ ہو۔
فٹ بال، والی بال، لان ٹینس، بیڈ منٹن، گالف، کیرم، لڈو، ہاکی وغیرہ وغیرہ تو پھر کیا گلی ڈنڈا کھیلیں یا آنکھ مچولی؟ منگ پتہ کھیلیں یا چھکڑی؟
ووٹ کیا ہے؟ رائے، تو بھائی! رائے کیلئے صرف ہاتھ، زبان کافی نہیں، ذہن بھی بہت ضروری ہے جو تعلیم، تربیت، حقیقی آزادی کے بغیر ممکن نہیں کہ جس کے پائوں تلے زمین اور سر پر چھت اپنی نہیں، اس کی رائے بھی اپنی نہیں ہو سکتی جبکہ یہاں
سرمایہ کیا، رائے چرائی جا سکتی ہے
پانی میں بھی آگ لگائی جا سکتی ہے
کچھ کے پاس وسائل، باقی سارے سائل
ریا کاری عام جبکہ ’’رائے‘‘ کا ریا کاری سے پاک ہونا بھی بہت ضروری ہے لیکن یہاں تو ذاتیں، برادریاں، ضرورتیں ہی نہیں جینے دیتیں تو یہ جمہوریت پھر وہی کچھ جنمے گی جو پہلے جنتی آئی ہے۔
ایک کھرب پتی لیڈر جب سٹیج پر چڑھ کر بھوکوں، ننگوں، بے کاروں، بے روزگاروں کو مخاطب کرتے ہوئے، ’’میرے بزرگو، بھائیو، بچو، مائوں، بہنوں، بیٹیو‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے تو اس الماس بوبی ٹائپ جمہوریت کی کیٹ واک پر کبھی ہنسی آتی ہے کبھی رونا آتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)