• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز قبل وفاقی وزیر دخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ”شہر قائد کے حالات کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے۔ کراچی سمیت پورے صوبے میں امن عامہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کراچی کی خراب صورت حال برداشت نہیں کریں گے دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی ہونی چاہئے۔ مرکز بھرپور تعاون کرے گا۔ شہر کے معاملات ڈھیلے ڈھالے انداز میں نہیں چل سکتے۔“
یہ غالباً 2001ء کا زمانہ تھا جب یہ ملک دہشت گردی، خودکش حملے، بم دھماکوں سے متعارف ہوا۔جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت تھا۔ اور ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آنا شروع ہوا۔ اس وقت سے لے کر آج تک آنے والے ہر وزیر داخلہ نے یہی بیان دیئے۔ فرق صرف یہ تھا کہ چہرے تبدیل ہوتے رہے۔ دہشت گردی ہوتی رہی۔ بیان آتے رہے۔ بے گناہ افراد مارے جاتے رہے۔ شہید ہوتے رہے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اس ملک میں پاراچنار بنوں، سکھر، کراچی، پشاور، کوئٹہ بدترین دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کے بیانات تبدیل نہ ہوئے کتنا عجیب مذاق ہے کہ کراچی کی خراب صورت حال برداشت نہیں کریں گے۔ کون برداشت نہیں کرے گا؟ ارے بھائی جو کچھ کراچی میں ہورہا ہے وہ تو بے چارے مرنے والوں کے خاندان برداشت کررہے ہیں، کسی کا گھرانہ کمانے والے سے محروم ہوگیا، کسی گھرانے میں کئی افراد زندگی بھر کے لیے معذور ہوگئے۔ حکومت نے دو چار لاکھ دیکر اور ایک آدھا بیان دیکر اپنی جان چھڑائی۔ کبھی حکومت کے ارب اور کھرب پتی حکمرانوں نے دہشت گردی کا شکار ہونے والے گھرانوں کا فالو اپ لیا۔ تم جو اس ملک میں ہماری نالائقی کی وجہ سے اس دہشت گردی کا شکار ہوئے ہو۔ اب کس حال میں ہو؟ تمہارے گھر کا چولہا بھی جلتا ہے یا نہیں۔ کسی بوڑھے ماں باپ کا آخری سہارا بھی ان بدبخت دہشت گردوں نے چھین لیا۔ کبھی بڑے میاں جی اور چھوٹے میاں جی نے ان کا فالو اپ لیا۔ کبھی اپنے ان وزیروں کو ان گھرانوں میں بھیجا۔ وزیروں کو چھوڑیں۔ علاقے کے ایم پی اے اور ایم این اے صاحبان نے بھی کبھی مڑ کر دوبارہ دہشت گردی کا شکار ہونے والے گھرانوں کی خبرگیری نہیں کی۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ ان لعنتی دہشت گردوں نے ماہ رمضان میں بھی دہشت گردی کردی۔ سکھر پھر پاراچنار میں ساٹھ کے قریب افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور ابھی دس روزے باقی ہیں۔ رب خیر کرے۔
اس دہشت گردی کا ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ملک کا شعبہ طب کسی طور پر اس قابل نہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی میں جو لوگ زخمی اور معذور ہوتے ہیں۔ ان کا علاج ان خطوط پر نہیں ہورہا ہے۔ بہت سارے زخمی صرف اس وجہ سے بھی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں کہ بروقت انہیں ہسپتال نہیں پہنچایا جاتا۔ یا پھر سرکاری ہسپتالوں میں علاج و معالجے کی وہ سہولیات و مشینری، جدید آپریشن تھیٹرز، معذور ہونے والے افراد کے لئے جدید ترین مصنوعی ٹانگیں، مصنوعی ہاتھ، بازو مہیا کرنے کی وہ سہولیات اس تعداد میں نہیں۔ پھر کبھی حکومت نے جو لوگ زندگی بھر کے لیے ادویات پر آگئے۔ ان کے لیے کوئی فنڈ مقرر کیا؟ کہ ان کو زندگی بھر ادویات، ڈاکٹروں کی طرف علاج و معالجے کی سہولیات ملتی رہیں گی۔ پتہ نہیں پاکستان کی دھرتی کو ابھی کتنا خون چاہئے؟ 1947ء کے فسادات اور ہجرت کرنے والے نہتے مسلمانوں کے خون سے بھی ابھی تک اس دھرتی کی پیاس نہیں بجھی۔ کہتے ہیں کہ دھرتی ماں ہوتی ہے یہ کیسی ماں ہے جو ہر روز خون کے پیالے پیتی ہے یہ کون لوگ ہیں؟ کیا یہ مسلمان ہیں؟ یہ کیسے مسلمان ہیں؟ جو 1947ء میں سکھوں اور ہندوؤں سے بھی زیادہ ظلم اپنے ہی لوگوں پر کررہے ہیں۔ کیا یہ لوگ کبھی بھی زندگی میں ایک بار بھی نماز کے لیے خدا کے حضور نہیں جھکے۔ کیا انہوں نے زندگی بھر کوئی قرآن پاک کی ایک آیت بھی نہیں پڑھی؟ کیا ان کے دلوں پر واقعی مہرلگ چکی ہے۔ یہ کیسی مہر ہے جو کھل نہیں رہی؟ کہاں ہے وہ سول سوسائٹی جو چیف جسٹس کو بحال کرانے کے لیے پورے جوش و ولولہ سے سڑکوں پر آتی تھی اب بے گناہ، نہتے لوگوں کے مارے جانے پر وہ کہیں نظر نہیں آرہی۔ ایم کیو ایم ویسے تو ہر معاملے میں بڑا شدت کا اظہار کرتی ہے۔ مگر اس دہشت گردی پر وہ اس شدت کا احتجاج نہیں کرتی۔ تین روزہ سوگ یا ہفتہ بھر کا سوگ اس سے کیا ہوگا؟
بڑے میاں جی چھوڑیں یہ سوگ منانے، چھوڑیں یہ بیان بازی چھوڑیں یہ بلند بانگ دعوے۔ اگر کچھ کرنا ہے تو عدلیہ سے اور ماہرین قانون سے مشورہ کریں کہ ان دہشت گردوں کو اب بھوکے شیروں کے آگے ڈالیں اور دہشت گردوں کو سزا نہیں دینے کے لیے اب ایسے سٹیڈیم بنا ڈالیں۔ جہاں پر ان کو خطرناک جانوروں اور سانپوں کے آگے ڈالا جائے۔ اس ملک سے اب دہشت گردی جاتی نظر نہیں آتی۔ توکیوں نا قانون میں تبدیلی کر کے ایسا قانون بنایا جائے کہ جو شخص دہشت گردی کرتا ہوا پکڑا جائے اس کے کیس کا فیصلہ صرف ایک ہفتے میں کر کے اس کو اس سٹیڈیم میں لایا جائے اور اسے بھوکے شیروں کے آگے ڈال دیا جائے اور اسے لائیو دکھایا جائے۔ یہ کوئی انسانیت کی تذلیل نہیں۔ انسانیت کی تذلیل تو یہ دہشت گرد کررہے ہیں۔ جو روزانہ کتنے بے گناہ افراد کو موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں۔ سوچیں لاہور میں انارکلی میں دہشت گردی، باری علیگ کے گھر کے سامنے ہوئی۔ وہ بیٹھک جہاں پر راجہ مہدی علی خاں معروف گیت نگار، سعادت حسن منٹو اور کئی نامور ادیب شاعر آتے تھے۔ شاید راجہ مہدی علی خاں کو اندازہ تھا کہ ایک دن اس ملک اور شہر میں بہت دہشت گردی ہوگی۔ تب ہی تو انہوں نے ایک گیت لکھا۔ جو بڑا مقبول ہوا۔ جو فلم ”وہ کون تھی“ کا گیت تھا اور اس کی موسیقی مدن موہن نے دی تھی جس کے بول تھے۔

لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو
شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو
آج اس ملک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے۔ کسے پتہ کہ اس نے اگلی صبح دیکھنی ہے سوچیں اس انارکلی میں جو بچہ چینی پنکھے فروخت کیا کرتا تھا۔ اس نے کتنے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے تھے۔ آج وہ مٹی میں ہے اس علاقے کے ایم پی اے، ایم این اے نے سوچا کہ پنکھے فروخت کرنے والے اس بچے کے گھر والے آج کس حال میں ہیں۔ اب یہ بیان نہ دیں کہ دہشت گردوں کو کڑی سے کڑی سزا دیں گے ارے بھائی آپ کے قانون میں کڑی سزا ہے ہی کہاں؟روایتی انداز میں کیس چلے گا پھر پھانسی یا جیل ہوگی اگر آپ نے دہشت گرد کو پھانسی ہی چڑھانا ہے تو اس کو خطرناک جانوروں کے آگے ڈالیں۔ تاکہ دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں۔ جو بدبخت آئندہ چند روپوں کے لئے دہشت گردی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ان خطرناک ارادوں سے باز رہیں۔ حکومت صرف دہشت گردوں کو ہی یہ سزا نہ دے بلکہ جو فرد یا لوگ ان دہشت گردوں کو استعمال کررہے ہیں۔ انہیں بھی ایسی کڑی سزا دی جائے۔ اس میں بالکل اس بات کا لحاظ نہ رکھا جائے کون کیا ہے؟ اب بھی وقت ہے کہ انہیں دہشت گردی سے روکا جائے۔ اللہ نہ کرے کہ اس ملک میں اس سے بڑی کوئی دہشت گردی ہو جائے۔ دہشت گردوں نے جی ایچ کیو، نیول آفس ائیربیس، آئی ایس آئی کے دفاتر اور پولیس کے ٹریننگ سنٹروں تک پر حملہ کردیا ہے۔ اب کیا پیچھے رہ گیا؟
بڑے میاں جی اس پر ذرا سوچیں؟اس وقت تقریباً پورے ملک میں سال اول کے داخلوں کے لیے سرکاری اور پرائیویٹ کالجوں میں روزانہ ہزاروں سٹوڈنٹس آجارہے ہیں۔ کسی بھی سرکاری کالج اور بعض پرائیویٹ کالجز میں سیکورٹی کا نظام بالکل تسلی بخش نہیں۔ لہٰذا حکومت پنجاب کو خاص طور پر اور دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو بھی اس پر توجہ دینی چاہئے۔ ایک طرف یہ کہا جارہا ہے کہ تین خودکش بمبار داخل ہو چکے ہیں اور پاراچنار جیسی دہشت گردی ہوسکتی ہے چنانچہ حکومت کو سخت ترین سیکورٹی اقدامات کرنے چاہئیں۔ انتظار کس بات کا؟
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کوئٹہ کے شہید ہونے والے ڈپٹی کمشنر کو تو ڈیڑھ کروڑ روپے کے پیکج دینے کا اعلان کیا ہے کہ انہوں نے بہادری کا مظاہرہ کیا۔ جو بے چارے عام پولیس والے اور فوجی شہید ہورہے ہیں کیا وہ بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ نہیں کرتے؟ ان کے لیے کیا پیکج ہے؟
تازہ ترین