دنیا کا ساتواں عظیم ریگستان، صحرائے تھر، اب نخلستان میں تبدیل ہورہا ہے۔ مٹھی ، ڈاہلی ،ڈپلو، کلوئی، نگرپارکر اور اسلام کوٹ کی بنجر زمینیں سر سبز و شاداب ہوتی جارہی ہیں۔یہاں کے کئی علاقوں میں لہلاتے ، کھیت درخت اور باغات نظر آنے لگے ہیں۔ مون سون کے موسم میں جب یہاں ابرکرم برستا ہے تو کچھ ہی دنوں میں پورا تھر سرسبز و شاداب ہوجاتا ہے ۔ لوگ اپنی زمینوں پر گوار، باجرے، تل، مونگ اور تربوز کی فصلیں اگاتے ہیں جبکہ قدرت ان کے مویشیوں کے لئے گھاس اور مختلف اقسام کے خودرو پودےاگادیتی ہے جو کئی ماہ تک تھر کے لاکھوں مویشیوں کے لئےچارے کاسامان ہوتے ہیں۔
برسات کے بعد ریت کے تودوں پر اگنےوالی کھمبیاں ( مش روم) بھی اہالیان تھر کے لئے قدرت کا بیش قیمت عطیہ ہیں جبکہ’’ کنڈی‘‘ کے درختوں پر لگی پھلیاں اور پتے مویشیوں کی مرغوب غذا ہیں۔ تھر کے باسی ان پھلیوں کو اپنی روزمرہ خوراک کے لیے بطو رسبزی پکاتے ہیں۔
جب بارشیں کم ہوتی ہیں یا کسی سال نہیں ہوتیں تویہاں آبی قحط ہوجاتا ہے، لوگ پینے کے پانی کو بھی ترس جاتے ہیں ، درخت اور پودے سوکھ جاتے ہیں اوروہ انتہائی حسرت و یاس سے اپنی بنجر زمینوںکو دیکھتے ہیں، جس کے بعد مجبور ہوکر قحط زدہ علاقوں سے نقل مکانی کرتے ہیں۔ غربت، افلاس، بیماریاںاور ہجرت ،صحرائے تھر کے باشندوں کا مقدر بن چکی ہے-حکومت نے اس خطے کی حالت زار اور وہاں کے باشندوں کی مفلوک حالی سے چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے۔ لیکن اب وہاں کے جفاکش باشندوں نے ہر طرف سے مایوس ہوکراپنی مدد آپ کےاصولوںپر عمل شروع کردیا ہے اور بعض فلاحی تنظیموں کی مدد سے ریگستان کونخلستان میں بدلنے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں۔
علی محمد لونڈ، اس صحرائی خطے کا باشندہ ہے جو تحصیل کلوئی کے گوٹھ لکھا ڈنو لونڈ میں رہتا ہے۔ستمبر 2015 تک وہ ’’دیوی‘‘ یعنی جنگلی کیکر کی لکڑیاں کاٹ کر کوئلے بنانے والی بھٹیوں کو فروخت کیا کرتا تھا- صبح سویرے کلہاڑی لے کر گھر سے نکلتا ، دن بھر تپتے ہوئے ریتیلے ٹیلوں پر قیامت خیز گرمی میں شام ڈھلے تک کانٹے دار جھاڑیاں کاٹتا ،جن کی موٹی شاخیں کوئلہ بنانے کے کام آتی ہیں۔اس مشقت کے نتیجے میں اسے لکڑیوں کی فروخت سے ماہانہ آٹھ نو ہزار روپے آمدنی ہوتی تھی ،جس سے اس کا کنبہ بہ مشکل گزر بسر کرپاتا تھا۔
ایک دن اس کے گوٹھ میں کراچی سے کچھ لوگ مطالعاتی دورے پر آئے جو ایک فلاحی تنظیم سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے علی محمد سے کہا کہ وہ اس کی زمین پر ایک ٹیوب ویل نصب کرنا چاہتے ہیں تاکہ علاقے کے لوگوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کے علاوہ زمین پر فصلیں بھی کاشت کرنا ممکن ہوسکے۔ علی محمد نے ان سے کہا کہ یہاں کی بنجراراضی پر زمین سے نکالے ہوئے پانی کی مدد سے کاشت کاری کسی طور ممکن نہیں ہے، ہم لوگ کاشت کاری کے لیےبارش کا انتظارکرتے ہیں تاکہ باجرا اور گوارکی کاشت کی جاسکے۔تنظیم کے نمائندوں نے اسے جب ٹیوب ویل سے نکالے گئے پانی کے نمونے دکھائے اور ان کی افادیت کے بارے میں سمجھایا تو وہ راضی ہوگیا۔
ستمبر2015ءمیں اس کی زمین پر ٹیوب ویل نصب کیاگیا۔یہ مخصوص پرزوں کی مدد سے بنایا گیاتھا، اسے نصب کرنے کے لیے دو انچ کے آٹھ بور کروائے گئے تھے اور انہیں آپس میں جوڑ کر چار انچ قطر کے پائپ سے پانی حاصل کیا گیا۔خوش قسمتی سے خطے کے دیگر صحرائی علاقوں کے برعکس ، اس علاقے میں بجلی موجود تھی ،لہٰذا پانی نکالنے کے لئے ہیوی موٹر اور پمپ نصب کیا گیا۔ زمین میں پانی کی سطح 120 فٹ نیچے تھی اور آبی ماہرین کے مطابق ،اس کا ’’ٹی ڈی ایس‘‘ یعنی ٹوٹل ڈزلوڈ سالونٹس ( پانی میں شامل نمکیات اور دیگر مادے) 1500 تھا جبکہ پینے میں ذائقہ بھی میٹھا تھا۔آبی ماہرین کے مطابق صحرائے تھر کے بعض علاقوں میں500 سے لے کر 10000 ٹی ڈی ایس تک کا پانی نکلتا ہے جس کا ذائقہ زیادہ تر مقامات پر انتہائی کڑوا ہوتا ہے۔
ٹیوب ویل کی تنصیب کے بعدعلی محمد نے اپنی زمین پرسب سے پہلے سرسوں کی کاشت کی ،جس کی فروخت سے اسے دو لاکھ روپے کی بچت ہوئی۔ یہ آمدنی اس کی توقعات سے بڑھ کر تھی۔ اس کے بعد اس نے کپاس، گندم اور’’ جنتر ‘‘جیسی فصلیں لگائیں اور چند سال میں ہی اس کا شمار تھرپارکر کے خوش حال افراد میں ہونے لگا۔گزشتہ سال دس ایکڑرقبے پرپانچویں مرتبہ سرسوں کی فصل کاشت کی ،جس کی فروخت سے اسے آٹھ لاکھ روپے حاصل ہوئے۔
گھاس پھوس کے بنے چوئنرے میں رہنے والا علی محمدجو’’ دیوی‘‘ نام کے درخت کی لکڑیاں فروخت کرکے بہ مشکل اپنے اہل خانہ کا پیٹ بھر پاتا تھا، اب پختہ مکان، مویشیوں کے ریوڑاور موٹر سائیکل کا مالک ہے۔ اس کے بچے تھرکےاچھے اسکول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ مذکورہ فلاحی ادارےنے اس تجربے کی کامیابی کے بعد لق و دق صحرا کی تحصیل کلوئی، ڈیپلو، اسلام کوٹ ،نگرپارکر اور ڈاہلی میں51 ایگروفارم بناکر مقامی کسانوں کو دیئے ہیں۔
ٹیوب ویل کے ذریعے پانی کی فراہمی زراعت اور باغبانی میں بہت مفید ثابت ہوئی ہے۔ تھرکے کاشت کار اپنی مدد آپ کے اصول کو بروئے کار لاتے ہوئے فلاحی تنظیموں کے تعاون سے چھوٹے چھوٹے زرعی منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ اکتوبر 2018 میں تھر کی دوسری بڑی تحصیل ڈاہلی میں ایک اسکول ٹیچر اور سماجی کارکن شہاب الدین سمیجو کی آبائی زمین پر تھر کی تاریخ کا پہلا باغ لگایا گیاجس میں مختلف اقسام کے پھلوں کےسیکڑوں درخت لگائے گئےہیں۔شہاب کا گوٹھ ’’سخی سیار ‘‘تحصیل ڈاہلی کا ایک بڑا گوٹھ ہے جسے سندھ میں پاکستان کا آخری گوٹھ کہا جاسکتا ہے۔
یہ ہندوستان کی سرحد سے بالکل متصل جدید دنیا سے کٹا ہوا گوٹھ ہے، یہاں نہ پانی ہے،نہ بجلی ہے، نہ سوئی گیس ہے ،نہ ذرائع نقل و حمل اور مواصلات کی سہولت موجود ہے۔ اس علاقے میں موبائل نیٹ ورک بھی نہیں آتے، جس کی وجہ سے گاؤں کے باشندوں کا رابطہ دنیا سے کٹا رہتا ہے۔چونئنروں کے اطراف میں حد نگاہ تک ریتیلی زمین اور ریت کے بڑے بڑے ٹیلے یا خاردار جھاڑیاں نظر آتی ہیں۔ کہیں کہیں نیم اور بیر کے درخت بھی لگے ہوئے ہیں۔ پاک بھارت سرحد کی دوسری جانب صحرائے تھر کا ضلع ’’بارمیر ‘‘واقع ہے۔
شہاب سمیجو کی اراضی پر 12 انچ قطر کی 450 فٹ گہری بورنگ کروائی گئی ، پانی ذخیرہ کرنے کے لیے 16 ہزار گز پر محیط وسیع و عریض آب گاہ بنوائی گئی جب کہ واٹر پمپس اور مشینری چلانے کے لئے سولر سسٹم نصب کیا گیاہے۔یہاںکپاس، سرسوں، گندم، زیرہ اور اسپغول جیسی فصلوں کے ساتھ ساتھ بیر، انار،ڈریگن، زیتون اور کھجور کے ایک ہزار سے زیادہ درخت لگائے گئےہیں۔اتنے بڑے پیمانے پر پھلوں کے درخت لگانے کا صحرائے تھر میں کیا جانے والا یہ پہلا تجربہ تھا جسے کامیاب بنانے میں عمرکوٹ میں واقع، وفاقی حکومت کے ادارے’’ ایرڈ زون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عطاء اللہ اور ان کی ٹیم نے کافی تعاون کیا۔
خیرپور سے کھجوروں کی ’’اصیل نسل‘‘ کے 125 درخت، اسلام آباد سے زیتون کے 100 پودے جبکہ میرپور خاص سے بیر اور انار کےسیکڑوں پودے منگواکر لگائےگئے اور انہیں پانی دینے کے لئے ’’ڈرپ اری گیشن‘‘ سسٹم نصب کیا گیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ سندھ حکومت زراعت کے فروغ کے لئے ڈرپ سسٹم کی تنصیب پر 60 فیصدسبسڈی دیتی ہے لیکن آگاہی نہ ہونے اور شعور کی کمی کی وجہ سے کاشت کاراس سرکاری سہولت سے استفادہ نہیں کرسکے۔
سخی سیار گوٹھ کی زمین پر جو ڈرپ سسٹم لگایا گیا اس کے لئےبھی سبسڈی حاصل نہیں کی جاسکی ۔کھجور کے 26 درختوں پر صرف 2 سال آٹھ مہینے کے بعد ہی پھل آگئے گو کہ ان کا سائز چھوٹا ہے۔ زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ کھجور کا درخت زمین میں لگائے جانے کے چار سال کے بعد پھل دینا شروع کردیتا ہے اور مختلف نسلوں کے درخت 100 سے 150 سال تک پھل دیتے رہتے ہیں۔
’’اصیل‘‘،’’ ڈھکی‘‘ اور کربلائی نسل کے درختوں پر 70 تا 100 کلوگرام پھل لگتا ہے۔بارڈر کی دوسری طرف بھارتی علاقے،راجستھان کے مختلف اضلاع میں 2009 سےکھجور کی کاشت ہورہی ہے- بھارت کے زرعی ماہرین نے کاشت کاروں کے تعاون سے بڑے پیمانے پر سعودی عرب سے کھجور کے پیڑمنگوائے تھے جو’’ ٹشوکلچر تیکنک‘‘ سے تیار کئے گئے تھے-’’ میڈجول‘‘،’’ برہی‘‘،’’ عجوہ‘‘،’’ عنبر‘‘، ’’مبروم‘‘ جیسی اعلیٰ نسل کے کھجور کے ان درختوں نے تھر کے اضلاع بارمیر اور جیسلمیر وغیرہ میں کسانوں کو خوش حال بنادیا ہے۔
اس سلسلے میں مذکورہ سماجی ادارے کے عہدیدار،ڈاکٹر فیاض عالم کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں کھجور کی کامیاب کاشت کے تجربے کی کامیابی نےیہاں کے باسیوں کی صدیوں کی غربت کے خاتمے کی اُمید پیدا کردی ہے-ڈاکٹر فیاض کے مطابق اس تجربے کے بعد، انہوں نے تحصیل ڈاہلی کے ایک اور گوٹھ ’’بگل‘‘ میں بھی سو درخت لگائے ہیں جن میں سے چند ایک پر پھل بھی آگیا ہے۔ اسلام کوٹ اور ڈیپلو کے چار گوٹھوں میں بھی کھجور اور بیر کے درخت لگائے ہیں۔ زرعی ماہرین کے مطابق ،صحرائی علاقے کھجور کی پیداوارکے لیے انتہائی سازگار ہوتے ہیں، لیکن تھرپارکر کی 5 ہزار سالہ تا ریخ میں آج تک کھجور کی کاشت پر توجہ نہیں دی گئی۔
تھر کے بیشتر علاقے جنگلی بیر کے درختوں سے بھرے ہوئے ہیں-بیر کے درخت کی یہ خاصیت ہے کہ وہ اپنی کاشت کے تھوڑے عرصے بعد ہی پھل دینے لگتا ہے۔ اس پودے کی دیکھ بھال زیادہ مشکل نہیں ہے۔تھرپارکر کےجفاکش لوگ غربت بھوک و افلاس کے ہاتھوں بدحال اس خطے کی قسمت بدلنے کے لیے کافی پرامید ہیں۔ کسانوں کی فلاحی و بہبود کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم کے سربراہ محمد عامر ،کھجور کی کاشت کے کامیاب تجربے کو صحرائے تھر کے لئے’’ گیم چینجر‘‘ قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم بہت جلد عجوہ، میڈجول اور برہی نسل کے پودے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت کی نرسریوں سے حاصل کریں گے جب کہ زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرحکومت پانی کی فراہمی کے لیے ہر علاقے میں ٹیوب ویلز کی سہولت فراہم کرے اور کاشت کار اپنی زمینوں کے دو سے ڈھائی ایکڑ رقبے پرصرف کھجور کاشت کرنا شروع کردیں تو اس خطے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ خیر پور اور سکھر کے بعد کھجور کی کاشت کے حوالے سے تھرپارکرتیسرا بڑا علاقہ بن سکتا ہے جس سے غذئی قلت کا شکار خطے کے باسیوں کو نہ صرف مقوی خوراک میسر آئے گی بلکہ اس پھل کو ملک کے بڑے شہروں اور غیر ممالک برآمد کرکے تھر کی معیشت کو سدھارا جاسکتا ہے۔
زرعی ماہرین کی ٹیمیں مذکورہ این جی او کے ساتھ مل کرڈاہلی تحصیل کے مختلف گوٹھوں میں مویشیوں کے لئے چارے کی فراہمی کے تجربات بھی کررہی ہیں- 5000 ٹی ڈی ایس کے کھارے پانی سے روڈز گراس، آئپل آئپل، جنتر اور آسٹریلین کیکر کے پودے لگانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔ اس زرعی مشن میں انہیں تھراینگروکول کمپنی کا بھی تعاون حاصل ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی صحرائے تھر میں غربت میں کمی کے لیے جاری اس فلاحی منصوبے میںمالی معاونت کررہے اگر نجی سطح پر جاری ان زرعی منصوبوں کو وفاقی و صوبائی حکومت کی مدد حاصل ہوجائے تو نہ صرف صحرائے تھر بلکہ سندھ کے تمام بے آب و گیا علاقوں کو جدید زرعی تیکنیکس، ٹشو کلچر تیکنیک اورمصنوعی آبی ذرائع کے توسط سے پھلوں ، سبزیوں اور اناج کے کھیت اور باغات لگا کر سرسبز و شاداب اور خوش حال بنایا جاسکتا ہے۔