• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عقل کے اندھوں کی کوئی کل بھی سیدھی ہو تو میرے پلے بھی ڈالیں۔ ہمیں تو صرف گا، گے، گی کی راگنی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ جب یہ کہتے ہیں کہ حکومت آٹا ، چینی ، گھی پراربوں روپے کاریلیف (جس کا نام انہوں نے سبسڈی رکھا ہے) خیرات میں دے گی تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ بھی کھا پی رہے ہیں حکومت ہمیں سب کچھ خیرات میں دے رہی ہے اور ہم سب کسی قطارمیں کھڑے ہیں۔ ان صاحبانِ علم سے کوئی یہ پوچھے کہ اپنے گھر میں گندم، گنے کی وافر پیداوار کے باوجود انہیں بیرون ملک سے مہنگی خریداری کا مشورہ کس نیم حکیم نے دیا ہے؟ اور یہ جو پٹرول کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ کرکے جلتی پر تیل کا کام کرنے والے وزیر خزانہ صاحب بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ قیمتیں اب بھی خطے میں سب سے کم ہیں تو جناب آپ یہ احسان ہم پر کیوں کر رہے ہیں؟ ایک ہی مرتبہ غریبوں پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دیں تو قصہ ہی ختم ہو جائے۔حکومتی مشیر اور وزیر اگر خان اعظم کی بصیرت کو چکمہ دے کر بیرون ملک سے ایل این جی مہنگے داموں خرید کر لائیں گے، مقامی شوگرملوں سے ایک سو روپے سے کم فی کلو چینی محض اس لئے نہیں خریدیں گے کہ یہ سب طاقت ورلوگوں کی ملکیت ہیں اور ہم غریبوں کو بھی اسی سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھائیں گے تو یقیناً آپ کو آنے والے عام انتخابات کے نتائج کی فکر نہیں ہونی چاہئے، یہ فیصلہ بھی جلد ہی ہو جائے گا کہ ووٹ نام کی یہ چیز کس کے حصے میں آئے گی؟

افغانستان پر طالبان کے اقتدار میں آنے کی قیمت اگر پاکستان کے غریبوںکو ہی ادا کرنی ہے اور ڈالر چھومنتر ہو کر افغانستان اسمگل کیا جانا ہے تو پھر جان لیجئے کہ پاکستان کے غریبوں کے نصیب میں یہ کچھ ہی لکھا ہے۔ غریبوں کو براہ راست ریلیف دینے کی بجائے ”سبسڈی “ دینے کا منصوبہ ہے جس کی نہ مجھے سمجھ آتی ہے نہ میرے جیسے عام پاکستانیوں کو کہ آخر یہ کیا بلا ہے؟ کس کو اور کس طرح دی جاتی ہے؟ عجیب گورکھ دھندہ ہے۔ چند ناتجربہ کاروں کے ہاتھوں پوری قوم کو یرغمال بنادیا گیا ہے۔ ”اوگرا“ نام کے ادارے کو اگر اس طرح پڑھیں ”او، گرا“ تو سمجھ جائیں کہ یہ عوام پر بجلی، گیس کے بم گرانے والا ایک ایسا کارٹیل ہے جو صرف غریبوں کو ہی نشانہ بناتا ہے۔کیا آج سے بیس پچیس سال قبل ادارے ہماری قسمت کا فیصلہ ایسے کرتے تھے؟ ایک وفاقی بجٹ ہوتا تھا جس میں ایک سال نہیں تو کم از کم چھ ماہ تک پٹرول، گیس، بجلی ، پانی کی قیمتیں طے کردی جاتی تھیں۔ لوگ چند روز مہنگائی کا ماتم کرنے کے بعد خاموشی سے اپنے کاروبار کی حکمتِ عملی طے کرتے، مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرکے سکون سے کام چلا لیتے تھے۔ آج صورت حال اس قدر غیر یقینی ہے کہ ایک ماہ میں تین تین بار نئی قیمتوں کا تعین کیا جا رہاہے۔ پھر بھی یقین نہیں ہوتا کہ آج تیار ہونے والی چیزکی کل کیا قیمت ہوگی؟ یہ جو وفاقی وزیر اطلاعات صاحب کہتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں مہنگائی کنٹرول کریں تو جناب اطلاعاً عرض ہے کہ یہ تمام حکومتیں گہری نیند سو رہی ہیں۔ انہوں نے آپ کے ٹویٹ پر نہیں جاگنا، بہتر ہے کوئی وفاقی وزیر ، مشیر لاہور آئے یا پنجاب کے مختلف شہروں میں جائے تو یہ تماشا دیکھے کہ ایک ہی شہر میں سبزی ، پھل روز مرہ استعمال کی اشیاءکی قیمتیں صرف چند فرلانگ کے فرق پر کتنی مختلف ہیں؟آپ اندرون شہر سے کوئی چیزخریدیں تو تھوڑی کم قیمت پر دستیاب ہے۔ کرشن نگر تک پہنچیں تو دس سے پندرہ روپے کلو تک مہنگی، سمن آباد آئیں تو کچھ اور قیمت، جوہر ٹاؤن جائیں تو اور زیادہ مہنگی، گلبرگ اور ڈی ایچ اے وغیرہ میں جس کا جتنا داؤ لگے،دام مانگے جا رہے ہیں ۔ گویا کہ آپ کی گڈ گورننس نے ایک ہی شہر میں قیمتوں کا اختیار بے لگا م چھوڑ رکھا ہے۔ کہاں گئیں آپ کی پرائس کنٹرول کمیٹیاں؟ کہاں ہیں آپ کے منتخب نمائندے؟ کدھر گیا آپ کا مجسٹریٹی نظام؟ سب ٹھنڈے کمروں، گاڑیوں میںبیٹھے واٹس ایپ ،واٹس ایپ کھیل رہے ہیں۔ افسر ماتحتوں کو حکم دیتے ہیں باہر نکلو، حالات کا جائزہ لو، کارروائی کی وڈیوز واٹس ایپ کرو، ماتحت بازاروں میں جاتے ہیں جعلی وڈیوز بناتے ہیں، چھوٹے بڑے دکانداروں سے بھتہ وصول کرتے ہیں، دکاندار بھتے کی رقم بجلی، گیس کے غیر یقینی اضافے کو پٹرول کے ساتھ شامل کرکے عوام کی جیب کاٹتے ہیں اور چار حرف حکمرانوں کی پالیسیوں پر بھیج کر کہتے ہیں کہ پتہ نہیں اس ملک کا کیا بنے گا؟تسلی دینے کے لئے پھر طنزاً کہا جاتا ہے کہ رُل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے!

تازہ ترین