• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرد ہوا چلنےکے باوجود اُسےگھٹن کا شدید احساس ہو رہا تھا۔ بےآب و گیاہ صحرا میں وہ بالکل تنہابھٹک رہی تھی۔ ہوا کے چلنے سے، صحرا میں ریت اور مٹی کے طوفان کے سبب وہ روشنی میں بھی کچھ دیکھنے سے قاصر تھی۔ اگلا قدم کہاں رکھناہے،کس سمت چلناہے،اسےکچھ بھی سُجھائی نہیں دے رہا تھا۔ جوں ہی وہ ایک قدم آگے بڑھتی، ہوا کی شدّت اُسے دو قدم پیچھے دھکیل دیتی۔ اِسی کشمکش میں وہ تھک کر، اپنی جگہ ہی پر آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھ گئی۔ 

گھٹن کا احساس شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا تھا۔ جسم کی قید میں روح ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی اور وہ شدید بےبسی میں حالات کے مہربان ہونے کی جستجو میں تھی۔ یہ انسان کی نفسیات ہے کہ جب وہ خود کو مکمل بےبس محسوس کرتا ہے، تو چیخ چِلّا کر اپنے بےبسی کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن اُس کی زبان باوجود کوشش کے، اُس کا ساتھ نہیں دے پا رہی تھی۔ یک لخت اُس کے منہ سے ایک چیخ برآمد ہوئی اور اُس کی آنکھ کُھل گئی۔ خشک گلے کو دو گلاس پانی سے تر کرنے کے باوجود نہ گلا تر ہو رہا تھا، نہ ہی گھٹن میں کمی آ رہی تھی۔

’’صحرا میں اُگنے والا پودا اپنا وجود قائم رکھنے، اپنی چمک دمک برقرار رکھنےکے لیےماحول کے بجائے اپنی طرف دیکھتا ہے۔‘‘دانش وَر کے کہےالفاظ اِس وقت اسراء کو شدّت سے یاد آ رہے تھے۔ ’’میری روح آزادی کی طلب گار ہے اور روح کی پرورش کے لیے قید انتہائی ضروری ہے۔‘‘ وہ خود سے گویا ہوئی۔ ’’لیکن روح چاہےتو وہ اِسی قید میں رہ کر ایک لامتناہی سفر پہ بھی گام زن ہوسکتی ہے۔‘‘ 

یہ خیال جانےکہاں سے صحرا کی ریتیلی وادیوں پہ بارش کے اوّلین قطروں کی طرح اس کے ذہن سے ٹکرایا تھا، لیکن اُسے ایک سمت مل چکی تھی۔ دائرے میں رہتے ہوئے، دائرے سے باہر کا سفر۔ ’’لیکن کیا یہ سب اتنا آسان ہے۔ کیا روح محض مسافر ہے یا اس کی کوئی منزل بھی ہے؟ روح کی سیرابی کیا کبھی ممکن بھی ہو پائے گی یا نہیں…؟؟‘‘ وہ اِس وقت اندیشوں، وسوسوں اور اِک اَن جانے خوف میں بُری طرح گِھری ہوئی تھی۔ خواہش سب ترک کرنے کی تھی، مگر پیاس پانی کی طلب میں سفر پہ اکسا رہی تھی۔ وہ سفر، جس کی سمت قدم اُٹھانے کے بعد ہی عیاں ہوتی ہے۔

………٭٭………

یہ نایاب کی خوش قسمتی تھی یا بدقسمتی کہ آج اِس مشاعرے میں وہ بھی موجود تھا، جس کی مصوّری کی ایک جھلک نےاُس کے قلم کی نئی سمت متعیّن کردی تھی۔ روانی اورفصاحت ہمیشہ سے اُس کا خاصّہ تھی، لیکن آج اپنی نظم پیش کرتے ہوئے اُسے محسوس ہو رہا تھا، جیسے زبان و الفاظ دونوں اس کی قدرت میں نہیں۔البتہ صدیوں کا سوز جانے کہاں سے اُس کی آواز میں اُترآیا تھا۔ وہ جو سیکڑوں لوگوں کے سامنے اعتماد سے بولتی تھی، آج محض ایک سامع کی وجہ سے اُس کے اظہار میں لڑکھڑاہٹ تھی۔ 

جیسے تیسے اُس نے نظم مکمل کی۔ اور…وہ بھی تو مکمل سامع بن کر، اردگرد سے بےگانہ بس اُسے ہی سُنےجارہا تھا۔ نایاب کےدل میں ایک موہوم سے اُمید تھی کہ شاید اُسے یہ الفاظ بھائے ہوں، حالاں کہ ایک خیال یہ بھی سَتارہا تھا کہ وہ اتنا بڑا مصوّر، بھلا ایک سے بڑھ کر ایک شاعر کو چھوڑ کر اُس کے الفاظ پہ کیوں توجّہ دےگا۔ لیکن قدرت کو معلوم ہوتا ہے کہ کون سی لہریں کس ذریعےسے ہو کر کس کی روح میں ہلچل پیدا کرسکتی ہیں۔ وہاں اعلیٰ و ارفع کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی۔ اُس عظیم ترین کہانی کار کےتو بس اپنے ہی فیصلےہوتے ہیں۔

نایاب دھڑکتے دل کے ساتھ اس مصوّر تک پہنچی تھی، جو اُس کی نگاہ میں روئے زمین پہ بہترین مصوّر تھا۔ اُس کی ویران وحشت بَھری نگاہوں نے چند لمحوں کے لیے تو اُسےخوف میں مبتلا کردیا۔ مگر پھر ایک بھرپور مُسکراہٹ کے ساتھ، وہ اُسے اس کی مصوّری کی داد دے کر، لیکن خود اپنا آپ، وہیں کہیں بھٹکتا چھوڑ کر واپس چلی آئی۔

………٭٭………

شب کی گہری چُپ نے میری روح میں موجود سناٹے کو بھی مزید گہرا کردیا تھا۔ خاموشی اس قدر گہری تھی کہ اس طویل چُپ کی سِسکیاں باآسانی سُنائی دے رہی تھیں۔ مَیں رات کا لحاف اوڑھے خوابوں کو پِھر سے سُلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ روح کے قبرستان میں زندہ درگور آرزوئیں جب کروٹ بدلتیں، تو اِن سِسکیوں کا شور مزید بلند ہو جاتا۔ پہلے پہل تو یہ سناٹا مجھے عجیب سے خوف میں مبتلا کردیتا تھا لیکن اب مجھے اس سے اُنسیت سی محسوس ہونےلگی تھی، جیسے ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں۔ مَیں اکتاہٹ کے اُس مرحلے پہ پہنچ چُکا تھا، جہاں خود کو اذیت دینا سُکون کا باعث تھا۔ اِس مرحلے پہ پہنچ کر میں جان چُکا تھا کہ خودکُشی کیوں کی جاتی ہے۔

اکتاہٹ حد سے بڑھی تو مَیں نے کمرے کو وقتی طور پہ روشن کر دیا۔ میرے حقیقی رُوپ پہ شب کا اندھیرا ہمیشہ پردہ رکھتا ہے، لیکن اچانک پڑتی روشنی نے مجھے میرے سامنے بےنقاب کر کے رکھ دیا تھا۔ سامنے قطار میں موجود میرے قیمتی ترین شاہ کارموجود تھے۔ اور اُن سب سے الگ ایک کونے میں میری پسندیدہ ترین ’’پینٹنگ‘‘ بھی تھی ،جسے مَیں نے حقیقی معنوں میں خونِ جگر دے کر تخلیق کیا تھا۔ سب کو معلوم ہےکہ مَیں اپنی تخلیقات فروخت نہیں کرتا، مگر اِس تصویر کے لیے تو مجھے بہت ہی بڑی بڑی آفرز ہوئیں، لیکن مجھےاپنا یہ شاہ کارخود سے بھی زیادہ عزیز تھا۔ 

میری صبح و شام اِسے ہی دیکھتے گزرتی۔ دیکھنے والےبھی جب اِسے دیکھتے تو چند ثانیے تو اِسی کے سحر میں مدہوش رہتے۔ اور کیوں نہ مدہوش ہوتے کہ مَیں نے اِسےرنگوں کے بجائے اپنے لہو سے تخلیق کیا تھا۔ اِس نقش میں تخیّلات کا اِک مکمل جہاں پوشیدہ تھا، جو دیکھنے والے کو اپنی طرف یوں کھینچتا، جیسے مقناطیس لوہے کو۔ میری اس محبوب ترین تخلیق کی ایک اور اہم بات یہ بھی تھی کہ باطنی آنکھ رکھنے والے اِسے صرف دیکھتے ہی نہیں بلکہ اپنے ارد گرد محسوس بھی کرتے تھے۔

مَیں لمحہ بھر اُسے تکتا رہا، جسے روز تکتا ہی نہیں، خود پہ طاری بھی رکھتا ہوں۔ لیکن آج یہ پینٹنگ مجھے بکھرے رنگوں کے سوا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اور رنگ بھی وہ، جو آنکھوں کو خیرہ کرنے کے بجائے چُبھن کا احساس دلا رہے تھے۔ جب مَیں ساری دنیا سے اکتا جاتا ہوں، تو اس تصویر میں موجود تخیّلات کا نیا جہاں ہی مجھے سہارا دے پاتا ہے، لیکن آج اس تصویر سے بھی اس درجہ اکتاہٹ پہ میں نےاپنے اندر خوف کی ایک لہر محسوس کی۔ جیسے کسی چیز کےخاتمے کا خوف، کسی کے مرجانے کا خوف۔ 

اکتاہٹ حد سے بڑھنے لگی، تو مَیں نے سُرخ رنگ کی بڑی مقدار لے کراُس نقش پہ چھڑکاؤ کر ڈالا۔ پینٹنگ میں موجود سفید پرندے پہ سُرخ رنگ کچھ یوں پڑا، جیسے اُڑتے پرندے کے پَروں سے لہو کی اِک دھار جاری ہوگئی ہو۔ اپنی وحشت کےقرار کے لیے مَیں نے اپنی پسندیدہ ترین چیز کو اپنے ہی ہاتھوں بربادکر ڈالا تھا۔ شاید رات کی سِسکتی خاموشی اور میری روح کے گمبھیر سنّاٹے میں کہیں تو درد اور افسوس کی کوئی لہر اُٹھے۔ اور پھر… اک دیوانہ وار قہقہے کے ساتھ مَیں نے روشنی کو پھر سے اندھیرے میں تبدیل کر دیا۔

………٭٭………

اسراء کو اِن سارے انتظامات کا ثمر پروگرام کی کام یابی کی صُورت مل رہا تھا۔ مگر ہمیشہ کی طرح کریڈٹ کے وقت وہ منظر سے ہٹ چُکی تھی اور اُس کے حصّے کا ثمرکوئی اور ہی سمیٹ رہا تھا۔ وہ جو صبح سے ایک ایک جہاں دیدہ، زندہ دل لڑکی کے رُوپ میں سب انتظامات کا جائزہ لے رہی تھی، اب ہر شے سے بے زار یوں الگ تھلگ تھی، جیسے اُسے کسیسے متعلق کچھ معلوم ہی نہ ہو۔ اُسے روپ بدلنے میں چند لمحے ہی تو لگتے تھے۔ وہ زیادہ وقت سراب کو خود پہ طاری نہیں رکھ سکتی تھی۔ یہ اس کی مجبوری تھی۔ وہ ذات کی درویش تھی، مگر یہ دنیا داری اُس پہ زبردستی تھوپ دی گئی تھی۔

’’اسراء میرا ایک سوال ہے…‘‘ وہ جانے کہاں گم تھی، جب ثانیہ اپنا سوال لیے اُس کے سر پہ آکھڑی ہوئی۔ ’’جی ثانیہ پوچھیے… کیا سوال ہے آپ کا؟‘‘ ’’آج یومِ اقبال پہ سب تقریروں کا خلاصہ یہی تھا کہ کام یابی خود کو پہچاننے میں ہے۔ مگر، خود کو آخر کیسے جانا پہچاناجا سکتا ہے؟‘‘ ’’ثانیہ! یہ جو بہت سے چلتے پھرتے انسان ایک ایک چہرہ لیے تم کو نظر آ رہے ہیں، یہ اُن کا ایک چہرہ نہیں، یہ اُن کا ایک رُوپ نہیں۔ ہر انسان کئی چہرے رکھتا ہے۔ انسان وقت، جگہ، ماحول اور حالات کے مطابق اپنا ایک رُوپ تبدیل کر کے دوسرا رُوپ اختیار کر لیتا ہے۔ یہ اُس کی مجبوری ہے کہ وہ ہر جگہ ایک رُوپ کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ اور جو اُس کا حقیقی رُوپ یا چہرہ ہوتا ہےناں، وہ ان مختلف رُوپ کی تہوں کے نیچے کہیں چُھپاہوتا ہے۔

ایک انسان دوسرے انسان کا صرف وہی رُوپ دیکھ سکتا ہے، جو وہ اُسے دکھانا چاہتا ہے۔ کبھی کبھی تو انسان اپنے حقیقی رُوپ سے خود بھی بےخبر رہتا ہے۔ جانتی ہو، دو طرح کے لوگ اس چہرے کو پہچان لیتے ہیں، ایک وہ جنھیں دنیا کام یاب کہتی ہے، اور دوسرے وہ، جو باطن کی دنیا کے مسافر بن جاتے ہیں۔ یہ جو اپنے حقیقی چہرے کو پہچاننا ہے ناں، یہی خود کو پہچاننا ہے۔ ہر انسان اللہ کی ایک صفت لے کر پیدا ہوا ہے۔ یہ صفت اگر وہ وقت اور حالات کی گرد ہٹا کر پہچان لے، تو اس پہ نئی راہیں آشکارا ہونے لگتی ہیں۔ دیکھو، اللہ انسان میں کہیں نہ کہیں پوشیدہ ہے، جیسے دنیا کے ہر تصوّر میں مصوّر کا اپنا عکس پوشیدہ ہوتا ہے۔‘‘

وہ چند لمحے سانس لینے کو رُکی، پھر بولی۔ ’’ہر تخلیق میں اس کا خالق خود بھی کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔ تصویر میں مصوّر کا اپنا عکس جھلکتا ہے۔ شاعری میں شاعر اور افسانے میں افسانہ نگار کی ذات نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ فن پارے تخلیق کرنے والے کی نفاست اُس کے کام میں نظر آتی ہے۔ اِسی طرح خالقِ کائنات بھی اپنی عظیم اور محبوب ترین تخلیق ’’انسان‘‘ میں خود بھی کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے۔ کبھی کسی کی مُسکراہٹ میں، کبھی کسی کی آنکھ کا اشک بن کر، کبھی کسی کی اچھائی میں، دردمندوں کو آسودہ کرتے محبّت کے الفاظ میں، کبھی کسی کے حُسن میں، کبھی ماں کی مامتا میں، کبھی کم زور، لرزتےبوڑھے دُعا کےلیےاٹھے ہاتھوں کی صُورت، وہ خود کو ظاہر کرتا رہتا ہے۔ اور جس شخص کو یہ بات سمجھ آجائے، وہ پھر کبھی کسی انسان سے نفرت نہیں کر پاتا۔ ایسے ہی اُس میں بھی اللہ کی صفات کسی نہ کسی رُوپ میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ تب ہی روحانیت کی راہ پہ چلنے والے لوگ انسان کو باہر کے بجائے اندر کا سفر کرنے کو کہتے ہیں۔ اپنے آپ کو دریافت کرنے کو بات کرتے ہیں۔‘‘

………٭٭………

’’انسان کے انسان سے عشق کے بارے میں ضرور سُنا ہے، لیکن نایاب! کسی کی مصوّری سے عشق… یہ کیا پاگل پن ہے؟‘‘ ’’مَیں نے پہلے بھی کہا تھا، تخلیق کی محبّت ہمیں اُس کےخالق تک لےجاتی ہے۔‘‘ ’’اچھا چھوڑو، اِن سب فلاسفیز کو۔ اب یہ بتاؤ کہ جشن بہاراں پہ شاعری مقابلے میں حصّہ لے رہی ہو؟‘‘ ’’میرا دل نہیں چاہ رہا۔‘‘ نایاب نے اُداسی سے کہا۔ ’’تمہارا دل نہیں چاہ رہا… یہ کیسے ممکن ہے۔ بہار تو تمہارا پسندیدہ موسم ہے۔ تتلیوں، پھولوں، رنگوں کے اس موسم کی تو تم دیوانی ہو، مجھے کچھ نہیں پتا، بس تمہیں اس پہ ضرور لکھنا ہے۔‘‘ ’’پہلے مجھے بہار پہ اُسی مصور کی پینٹنگز لا کر دو، اُنھیں سامنے رکھ کے ہی مَیں کچھ لکھوں گی۔‘‘ نایاب نے بچّوں کے سے ضدّی لہجے میں کہا۔ ’’اف… اب یہ کیا معاملہ ہے نایاب۔ تمہیں ہو کیا گیا ہے۔ 

تم خود کوئی پینٹنگ بنالو ناں۔‘‘ ’’مجھے مصوّری کہاں آتی ہے۔ میرے ذہن میں اَن گنت تصوّرات ضرور ہیں، حسین ترین تصوّرات… لیکن مَیں نےجب بھی اُنھیں تصویر کرنےکی کوشش کی، خود کو ناکام ہی پایا۔ تم جانتی ہو یہ واحد مصوّر ہے، جو میرے تصوّرات میں رنگ بھر رہا ہے۔ مَیں روحانی طور پہ خود کو ان تصوّرات کے بہت ہی قریب محسوس کرتی ہوں۔‘‘ ’’مَیں محسوس کر رہی ہوں کہ تم کسی لاعلاج مرض کا شکار ہونے جا رہی ہو، لیکن ایک بات یاد رکھنا، کبھی خود کو کھونا مت۔‘‘’’مگر میری پیاری سَکھی! خود کو کھوئے بغیر خود کو پانا بھی ناممکن ہے۔‘‘نایاب ایک جذب کے عالم میں بولی، تو عنزہ وہاں سے اُٹھ کے ہی چل دی۔

عنزہ کے جاتے ہی اُس پہ عجیب کیفیت طاری ہو چُکی تھی۔ ’’بہار‘‘ پہ ایک مفصّل تحریر لکھ کر اُس نے رسیم کی آفیشل ای میل آئی ڈی پہ بھیج دی، جو کل ہی اُسے بہت تگ ودو کے بعد حاصل ہوئی تھی۔ اُسے نہیں پتا تھا کہ اپنی تباہی کی ابتد وہ خود اپنے ہاتھوں سے کرنےجا رہی تھی۔

………٭٭………

پیاری نایاب!

تمہارا ’’بہار نامہ‘‘ ملا۔ حیرت ہے، تم نے ایک خزاں پرست روح کو بہار کے قصیدے لکھ بھیجے۔ تم تو جگنو کی مانند ہو، جو روشنیوں کےدائرے سے کبھی باہر نہیں نکلتا اور اِسی روشنی پہ اپنی جان لُٹا دیتا ہے یا پھر خُوب صورت رنگوں والی اُس نادان تتلی کی طرح، جو اپنے گرد بُنے رنگ و بو کے جہاں ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتی ہے۔ بہاریں حسین ہیں بہت حسین… مصوّری کے بہت اعلیٰ شاہ کار کےمثل کہ جس پہ نگاہیں پڑتی ہیں، تو پلٹنا بھول جاتی ہیں۔ لیکن یاد رکھنا ایک اچھی تخلیق صرف وہ نہیں ہوتی، جو آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے، ایک لازوال تخلیقی شاہ کار وہی کہلاتا ہے، جو انسان کو ظاہری دنیاسے نکال کر ایک پوشیدہ جہاں کی طرف لے جاتا ہے۔

اور جانتی ہو، یہ طاقت خزاں کے اُجڑے رنگوں میں ہے۔ بہار، کائنات کا جسم ہے، مگر خزاں اُس کی روح ہے۔ جسم تو ایک پردہ ہے اور روح حقیقت۔ کائنات کوسمجھناہےتو روح کو پرکھو۔ آج مَیں اِس گہرے نیلے آسمان تلے، نئی پُھوٹتی کونپلوں کو تکتے ہوئے بھی خزاں کی یادوں میں گِھرا ہوا ہوں۔ پرندوں کی خُوشی ان کے نغموں اور چہل پہل سے ظاہر ہے۔ لیکن میرے وجود میں ہر سُو، زرد پتّے ہی محو رقص ہیں۔ پت جھڑ کی ہواؤں کی اُداس موسیقی مجھے ابھی بھی اپنے سحر سے باہر نہیں نکلنے دے رہی۔ 

بہار کی اس دل فریبی کی چُبھن مجھے اپنی روح میں زخم کی طرح محسوس ہو رہی ہے۔ جس طرح رات کے پرندوں کی بصارت، دن کی روشنی نہیں دیکھ پاتی، بالکل ایسے ہی بہار کے شیدائی خزاں کی حقیقت سے مکمل بےخبر رہتے ہیں۔ بہار ایک ابتدا ہے تو خزاں اُس کی انتہا۔ اور یہی انتہا حقیقت ہے۔ بہاریں تو فقط وہ نغمہ ہیں، جو وقتی طور پہ انسان کو شاد کرتی ہیں، پرخزاں وہ گہری موسیقی ہے، جو روح میں اُتر کے ہمیشہ کے لیے اُسے اپنا مسکن بنالیتی ہے۔ میری روح میں یہی موسیقی خاموشی کو اپنے گرداب میں جکڑے رہتی ہے، سو بہار کے نغموں کو نہ تو یہ دل قبول کرتا ہے، نہ میری خزاں پرست روح۔ (جاری ہے)

تازہ ترین