پاکستان میں حکومت اور کھیلوں کی فیڈریشنوں کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے، وزیر اعظم عمران خان کی حکومت آنے کے بعد اس بات کی توقع تھی کہ دیگر شعبوں کی طرح کھیلوں میں بھی مثبت تبدیلی آئے گی مگر ایسا نہ ہوسکا اور اس شعبے کی بیورو کریسی نے ایسا جال تیار کر لیا ہے جو موجودہ حکومت کی عالمی سطح پر کھیل کے میدان میں بدنامی کا باعث بنے گا، پاکستان اسپورٹس بورڈ اور وزارت بین الصوبائی رابطے میں برسوں سے موجود افسران نے ٹوکیو اولمپکس گیمز سے قبل اور موجودہ حکومت کے ابتدائی تین سال تک ملک کے اہم ترین ادارے پاکستان اسپورٹس بورڈ میں ڈی جی کی تقرری ہی نہیں ہونے دی جس کی وجہ سے کئی معاملات ٹھپ پڑے رہے۔
اولمپکس گیمز کے لئے کھلاڑیوں کی تیاریوں کے حوالے سے پیش کی گئی سفارشات پر عمل در آمد نہ ہوسکا، تین سال کے عرصے میں وفاقی ڈاکٹر فہیمیدہ مرزاکی جانب سے خاموشی نمایاں رہی، وہ اس وقت متحرک ہوئیں جب فیفا نے پاکستان فٹبال کی رکنیت معطل کردی، تین سال کے دوران ملک میں متوزای فیڈریشنوں کے خاتمے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، یہ مسئلہ عالمی فیڈریشنوں کی مشاورت سے ایک ماہ میں ہی حل ہوسکتا تھا۔
جس فیڈریشن کو اس کی عالمی تنظیم تسلیم کرتی ہو اسی کو ملک میں کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئے، حکومت نے پچھلے ایک سال سے نئی قومی اسپورٹس پالیسی کا سوشہ چھوڑ رکھا ہے اور تادم تحریر وہ منطور نہیں ہوسکی، نئی اسپورٹس پالیسی لانے کے بجائے تین سال میں2005 کی اسپورٹس پالیسی پر اس کی اصل روح کے مطابق کام اور عمل کرلیا جاتا تو ملک میں کھیل کے شعبے میں بہتری کے آثار نمایاں ہونے لگتے۔
حیرت انگیز طور پر سندھ سے تعلق رکھنے والی وفاقی وزیر نے تین سال کے دوران اپنےصوبے کے کراچی، یا صوبے کے کسی دوسرےشہر میں میڈیا سے بات چیت نہیں کی انہیں پریس کانفرنس کی مدد سے اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں کی، ان کے نیشنل کوچنگ کراچی کے دورے کو میڈیا سے خفیہ رکھا گیا، ٹوکیو اولمپکس گیمز کے بعد عوام کی اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے پی او اے میں تبدیلی کا نعرہ لگایا جارہا ہے، حکومت عالمی دبائو، اور ایکشن کے خوف سے پی او اے کے خلاف کوئی قدم اٹھانے میں گھبراہٹ کا شکار ہے اور اسی قسم کا دبائو اسے نئی کھیلوں کی پالیسی منظر عام پر لانے سے روک رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے کھیلوں کے اداروں پر پی او اے کا ساتھ چھوڑنے کے دبائو کی شکایت مل رہی ہے، ان حالات میں اداروں کو اپنے فنڈ ٹیموں کے بجائے صوبائی اور ریجنل سطح پر استعمال کرنے کو کہا گیا ہے جس سے ملک میں کھیل کا شعبہ مزید تباہی اور بر بادی کا شکار ہوجائے گا، مالی اور معاشی پریشانیوں سے دوچار کھلاڑی اور بھی زیادہ مشکلات میں پھنس جائیں گے، کوئی ادارہ کیوں صوبائی ٹیموں پر اپنا فنڈ خرچ کرے گا،ملازمت کی صورت میں تو ادارہ کھلاڑیوں سے دفتری ذمے داری بھی لے لیتا ہے مگر دوسری صورت میں اسے اپنے ادارے میں ایک نیا ملازم رکھنا پڑے گا، مو جودہ حکومت کے آنے کے بعد کر کٹ میں احسان مانی کی تقرری، اورکر کٹ کے ڈھانچے میں تبدیلی کا تجربہ ناکام ہوچکا ہے۔
احسان مانی جاچکے ہیں،جبکہ صوبائی ٹیموں کی کوچز پر نئے چیئر مین رمیز راجا نے عدم اعتماد کا اظہار کردیا، موجودہ حکومت کے آغاز میں احسان مانی کی سر براہی میں ملک میں کھیلوں میں بہتری کے لئے بنائی گئی ٹاسک فورس کی رپورٹ اور سفارشات کہاں گئی، اس پر کس قدر عمل کیا گیا، اس فورس میں وہ لوگ شامل تھے جن کو کھیل اور کھلاڑیوں کے مسائل کا کوئی تجربہ اور واقفیت نہیں تھی،س بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ پچھلی حکومت کے دور میں ملک میں متوازی نیشنل اولمپکس کمیٹی کا تجربہ ناکام ہوچکا ہے، حکومت نے آئی او سی کو تحریری طور پر پی او اے میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
اس کامیابی اور سر خرو ہونے کے بعد پی او اے کے حکام کی بھی ذمے داری تھی کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلتے ماضی کے اختلافات کو فراموش کر کے ملک میں کھیلوں کی ترقی کے لئے ان سے مشاورت کرتے، ان کے مسائل کو بھی اپنا مسئلہ سمجھتے، مگر دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ پی او اے موجودہ اثاثوں نے جنہوں نے اس ادارے کو اپنی وراثت سمجھ رکھا ہے، ایسیے مشورے دئیے جس کی وجہ سے دوری بڑھتی رہی ،ملک میں کھیلوں میں بہتری کے لئے تمام اسٹیک ہولڈر کو اپنی غلطیوں اور خامیوں کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی ذمے داریوں کا بھی احساس کرنا ہوگا، کھلاڑی پریشان حال ہیں، قومی ٹیبل ٹینس ٹیم حکومتی این او سی میں تاخیر کی وجہ سے قطر میں جاری ایشین ٹیبل ٹینس چیمپئن شپ کے ٹیم مقابلوں میں حصہ نہیں لے سکی۔
این او سی نہ ملنے کی وجہ سے جرمانے کے خوف سے فیڈریشن نے انٹری ہی نہیں بھیجی جس کا کہنا ہے کہ ماضی میں عدم شر کت پردو مر تبہ نو ، نو ہزار ڈالرز کا جرمانہ لگ چکا ہے، ٹیم کی عدم شر کت اور این او سی میں تاخیر پراگر فیڈریشن کی کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ فیڈریشن کے صدر توقیر مہاجر اور سکریٹری احمر ملک نے میڈیا کو اعتماد میں نہیں لیا۔
سکریٹری احمر ملک کے حوالے سے یہ شکایت بھی سامنے آئی کہ انہوں نے میڈیا تو دور کی بات قومی ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کو بھی اصل حقائق سے آگاہ نہیں کیا اور نہ ہی کھلاڑیوں کے فون بھی اٹینڈ نہیں کئے،کھلاڑیوں کے اہل خانہ نے میڈیا سے رابطہ کیا تو پی ایس بی اور وفاقی وزارت کے حکام کو این او سی جاری کرنا پڑا،ورنہ فیڈریشن کے حکام تو بانسری بجانے میں مصروف تھے۔