پاکستان اسپورٹس بورڈ کا قیام عمل میں آیا تو بریگیڈیئر راڈھم کو اسکا پہلا ڈائریکٹر جنرل بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ 1963ء سے 1972ء تک کاطویل عرصہ پاکستان سپورٹس کے ڈی جی رہے۔ بریگیڈیئر راڈھم برطانوی شہری تھے اور انکا تعلق برٹش آرمی سے تھا۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد بریگیڈیئر راڈھم کی پاکستان سے محبت کی وجہ سے انکی خدمات پاکستان آرمی نے حاصل کرلیں۔بریگیڈیئر راڈھم ایک پیشہ ور اور منجھے ہوئے فوجی افسر کے ساتھ ساتھ کھیلوں سے محبت کرنیوالے انسان تھے۔ اس لئے انہوں نے پاکستان آرمی کے کھیلوں کے شعبے کو بھی دیکھنا شروع کردیا۔
وہ سارا دن جی ایچ کیو میں دفتری امور نمٹانے کے بعد شام کو اپنی سائیکل پر آرمی اسٹیڈیم کا رخ کرنے اور کھلاڑیں کو تربیت حاصل کرتے دیکھتے ۔ انہوں نے اپنی سائیکل کے کیریئر کے ساتھ ایک فولڈنگ اسٹول بھی رکھا ہوتا وہ سائیکل کھڑا کرکے اسٹول اتارتے اور گراؤنڈ کے کسی کونے میں بیٹھ جایا کرتے۔ وہ کھلاڑیوں کو تربیت حاصل کرتے دیکھتے اور انکی تربیت کے بعد نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کرتے بلکہ انکے مسائل سنتے اور فوری حل کرنے کے احکامات صادر کرتے بلکہ ایک کھلاڑی جو ایشین گولڈ میڈل تھے، کے خلاف ایک کیس کی وجہ سے انہوں نے ذاتی کوشش کرکے اسکی جان بچائی ، کیونکہ وہ ایک گولڈ میڈل اتھلیٹ کو مقدمات اور لڑائی کی نذر نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ چونکہ وہ غیرشادی شدہ اور پاکستان میں اکیلے تھے۔ اس لئے وہ اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ کھیلوں اور کھلاڑیوں پر صرف کردیا کرتے تھے۔ انکی والدہ برطانیہ میں تھیں وہ کبھی کبھار ان سے ملنے جایا کرتے، لیکن انکی وفات کے بعد وہ بالکل پاکستان کے ہوکر رہ گئے۔ کھیلوں سے لگاؤ اور محبت بریگیڈیئر راڈھم کی آخری سانس تک باقی رہی وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنی سائیکل اور فولڈنگ اسٹول کے ساتھ گراؤنڈ میں آتے رہے۔ اور کسی قسم کا پروٹوکول حاصل کرنے کی بجائے اپنی روایت کے مطابق کسی کونے میں اسٹول رکھ کر بیٹھ جاتے اور کھیلوں کے مقابلوں سے لطف اندوز ہوتے۔ انکے دور میں آرمی کے اتھلیٹس غلام رازق ، محمد نواز، مبارک شاہ اور محمد اقبال نے کامن ویلتھ گیمز اور ایشین گیمز تک میں میڈلز حاصل کئے۔
بیرون ملک عالمی مقابلوں میں پاکستانی کھلاڑیوں کو بھیجتے ہوئے بریگیڈیئر راڈھم کے دور میں ٹیم کے ہمراہ پاکستانی باورچی کو پاکستان مسالا جات کے ساتھ بھیجنے کی روایت بھی تھی تاکہ کھلاڑی غیرملکی کھانوں کی ناپسندیدگی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا شکار نہ ہوجائیں۔ وہ ٹیم کے ہمراہ جب بھی جایا کرتے اپنے ذاتی اخراجات کے ساتھ قیام و طعام کرتے۔ بریگیڈیر راڈھم کی کھیلوں سے محبت کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں نکلتا اور ہمارے کھلاڑی ہاکی کے علاوہ اتھلیکٹس، کشتی اور دیگر کھیلوں میں بھی میڈلز حاصل کرتے اور ملک کا نام روشن کرتے۔ ہماری کھیلوں کی تاریخ میں بریگیڈیئر راڈھم کے علاوہ عبدالحفیظ کاردار، ایئر مارشل نور خان،بریگیڈیئر عاطف، بریگیڈیئر سرفراز ، ذاکر حسین سید اور بریگیڈیئر عارف صدیقی جیسے نام بھی شامل ہیں۔ لیکن آج معاملات بالکل الٹ چل رہے ہیں۔
عالمی سطح پر کھیلوں کے نتائج دیکھیں تو چند کھلاڑیوں کی ذاتی کاوشوں اور ٹیلنٹ نے پاکستان کا ہلالی پرچم اونچا رکھا ہوا ہے۔ ورنہ ہمارے کھیلوں کے اداروں میں نالائق لوگوں کی بھرمار اور کھیلوں کی تنظیموں میں کھینچا تانی اور حصول اقتدار کی خاطر نہ صرف لڑائیاں عروج پر ہیں بلکہ جگ ہنسائی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن دو ریٹائرڈ جرنیلوں کے درمیان میدان جنگ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ دونوں جرنیل پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں ایک کو انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی سپورٹ کر رہی ہے اور دوسرے جرنیل کو حکومت کی سپورٹ حاصل ہے اور ملک میں کھیلوں اور کھلاڑیوں کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے ۔ کھیل جو پاکستان میں قومی یکجہتی ، نوجوان نسل کے اندر اعتماد اور مثبت سرگرمیوں کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں لیکن لڑائی کی نذر ہورہے ہیں ۔
لیکن اگر وزیراعظم محمد نوازشریف یا چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی ذرا سی توجہ دیں تو کھیلوں میں جگ ہنسائی کا یہ معاملہ ایک ہی دن میں حل ہوسکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم یا آرمی چیف ،کون پہل کرکے ملک میں کھیلوں کو تباہی سے بچاتا ہے۔