• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اٹک شہر، صوبہ پنجاب کے شمال میں دریائے سندھ کے بائیں کنارے واقع ہے، جسے انگریز سامراج کے ایک افسر مسٹر کیمبل نے 1904ء میں کیمبل پور کے نام سے آباد کیا تھا۔ تاہم، شہر سے تھوڑے فاصلے پر اٹک خورد (چھوٹا اٹک) کے نام سے ایک گاؤں پہلے سے ہی آباد تھا۔ دریائے سندھ پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا کو اٹک کے مقام پر تقسیم کرتا ہے۔ 

کہاجاتا ہے کہ ماضی میں حملہ آوروں کو دریائے سندھ کی وجہ سے یہاں رکنا پڑتا تھا۔ مغل شہنشاہ اکبر نے اس علاقہ کی دفاعی اہمیت کے پیش نظر 16ویں صدی میں جب قلعہ تعمیر کروایا تو اس کا نام اٹک قلعہ رکھا۔ یہ قلعہ دریائے سندھ کے کنارے راولپنڈی سے 58میل اور پشاور سے جرنیلی سڑک پر 47میل کی مسافت پر سطح سمندر سے بلند دو چٹانوں کملیہ اور جلیلہ کے درمیان واقع ہے۔

قلعہ کے چاروں اطراف بےشمار دشمن قبائل کی سکونت کی وجہ سے دفاعی اعتبار سے اس مقام کی خاص اہمیت تھی۔ اسے خالصتاً فوجی مقاصد کے لیے تمام جنگی ہتھیاروں کے استعمال کو مدنظر رکھ کر تعمیر کیا گیا۔ اسی وجہ سے اس میں اٹھارہ برج بنائے گئے جو تمام کے تمام گولائی میں ہیں ماسوائے ایک کے جو زاویہ قائمہ (Right angle)پر ہے۔ برجوں کی تعمیر مقامی چٹانی پتھر سے کرکے ان پر چونے کی دبیز تہہ چڑھائی گئی ہے۔ 

قلعہ کے ایک برج کی بنیاد ازراہ دور اندیشی دریا میں رکھی گئی تاکہ اگر دشمن کے حملے کی وجہ سے قلعہ بند ہو نا پڑے تو قلعہ میں پانی کی محتاجی نہ ہو کیونکہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے اس میں سوائے دریا کے پانی کے کنویں کا پانی حاصل ہونا ممکن نہ تھا۔ چار صدیوں سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود قلعہ کا برج آج بھی اسی استحکام سے دریا میں موجود ہے اور اس طرح مضبوط ہے کہ گویا حال ہی میں تعمیر کیا گیا ہو۔ قلعہ اٹک کی تعمیر سے یہ علاقہ صدیوں شمالی حملہ آوروں کی یلغار سے محفوظ رہا۔ خواجہ شمس الدین خوافی کی زیرِ نگرانی اس قلعے کی تعمیر میں دو سال (1581ءتا 1583ء) کا عرصہ لگا۔

اٹک قلعہ مغل حکمرانوں کےمخصوص طرزِ تعمیر کا عکاس ہے ۔ قلعہ میں فن تعمیر کا بہترین نمونہ اس کی چار دیواری کی تعمیر ہے جو چاروں اطراف سے ایک میل طویل ہے۔ قلعے کے برجوں کو آپس میں ملانے کے لیے دیوار کے ساتھ ساتھ ایک راہداری (گیلری) بھی تعمیر کی گئی ہے، جس کے نیچے گارڈز کے لاتعداد کمرے ہیں ۔ اسی طرح کے کمرے میناروں کے نیچے بھی موجود ہیں۔

راہداری حملہ آوروں سے بچانے کا ایک ٹھوس ذریعہ تھی، جس کے زیادہ تر حصے کی چھت اخروٹ کی لکڑی سے بنی ہے مگر ایک جگہ سنگ مرمر کی موٹی سلیب بھی بنائی گئی ہے۔ شمالی درمیانی راستے کے مینار کی اوپری دیوار سے دریائے سندھ کا نظارہ بخوبی ہوتا ہے اور اسی درمیانی راستے سے چار دروازوں والا حصہ جو مینار کے سامنے ہے، ایک چھجہ سے آراستہ ہے اور پورے قلعہ میں یہی وہ عمارت ہے جو محض رہائش کے لیے بنائی گئی ہے اور آج تک اسی مقصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

قلعے میں چار بڑے دروازے (دلی گیٹ، لاہوری گیٹ، کابلی گیٹ اور موری گیٹ) ہیں۔ ان داخلی دروازوں کی تعمیر میں سرخ پتھر استعمال کیا گیا ہے جبکہ قلعہ کا دیگر حصہ لاجوردی ٹائلز سے بنا ہے۔ ان بلند و بالا دروازوں پر خوبصورت نقش کاری کی گئی ہے۔ آہنی راڈوں سے مزین دلی اور کابلی گیٹ مست ہاتھیوں کے حملوں کی روک تھام کے لیے بنائے گئے تھے۔ دلی گیٹ کے پاس ایک بڑا گاڑڈ روم موجود ہے، جو قیام پاکستان سے قبل تک کوارٹر گارڈ کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ قلعہ کے اندر داخلہ موری گیٹ کے راستے سے ہے جو پرانے جی ٹی روڈ کے عین سامنے واقع ہے۔

لاہوری گیٹ قلعہ کا پرانا دروازہ ہے اور زیادہ تر سپاہی یہی دروازہ استعمال کرتے تھے جو بازار کو جاتا تھا۔ قلعہ کا اسلحہ خانہ 1857ء میں بنایا گیا تھا جو پرانے لاہوری گیٹ کی جگہ پر تھا۔ دلی گیٹ کے اندر سے گزرتے ہوئے قلعہ کے نیچے اور اوپر والے حصے میں داخل ہوا جاسکتا ہے۔ پرانا جی ٹی روڈ لاہوری گیٹ کے اندر سے گزر کر شہر کے بازار سے گزرتا ہوا کابلی گیٹ سے ملاحی ٹولہ گیٹ کی طرف دریاکے کنارے نکل جاتا تھا۔

دلی گیٹ سے اندر جائیں تواس طرف ایک بہت بڑا سامعین کا ہال ہے۔ قلعہ کے اوپری حصہ میں خواتین کے لیے ترکی کی طرز پر منفرد حمام ہےجو کہ مغلوں کا ایک خاصہ ہے۔ حمام سے پہلے ایک داخلی ہال اور چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں۔ یہاں ستونوں کو خوبصورتی سے مزین کیا گیا ہے۔ داخلی ہال میں خواتین کے لیے سردی اور گرمی کے لیے مخصوص کمرے ہیں جہاں وہ اپنی مرضی سے گرم یا ٹھنڈے پانی کا استعمال کرتی تھیں۔ 

دوہری دیوار آج بھی دیکھی جاسکتی ہے جہاں پانی گرم کرکے بھاپ مہیا کی جاتی تھی۔ اس حصہ سے ایک خفیہ سرنگ لاہوری گیٹ کو جاتی ہے جو زیر زمین ہال تک چلی جاتی ہے، جہاں شاہی بیگمات آرام کرتی تھیں۔ قلعہ کے نچلے حصے میں روشنی کا نظام مہیا کیا گیا ہے۔

جنگی اہمیت اور ہیت کے اعتبار سے ضلع اٹک کی خاصی اہمیت ہے۔ انگریز سامراج نے اپنے توپ خانے کیلئے اٹک کو ہی چنا تھا، تقسیم ہند کے بعد اٹک قلعہ کو پاکستان آرمی کے ساتویں ڈویژن کا ہیڈکوارٹر بنا دیا گیا۔ 1956ء کے بعد قلعے کو اسپیشل سروسز گروپ آف پاکستان آرمی (SSG) کے حوالے کر دیا گیا۔ یہاں ایک پرانی سرائے بھی ہے، جو مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد میں تعمیر کی گئی تھی۔ 

اٹک قلعہ کے گردو نواح میں خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک مقام باغ نیلاب ہے۔ اس کے علاوہ پانی کا پھیلاؤ اور کالا چٹا کی سر سبز پہاڑیاں (جن کی بلندی 3800فٹ ہے) اس علاقے کی خوبصورتی میں خاطر خواہ اضافہ کرتی ہیں۔

تازہ ترین