• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا مستقبل عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری، بلاول، مریم نواز، مولانا فضل الرحمٰن، میں اور آپ طے نہیں کریں گے بلکہ اس کی تشکیل اور صورت گری ان کے ہاتھوں میں ہے جو اس وقت 15 سے 29 سال کی عمر کے درمیان ہیں۔ یہ اقوام متحدہ کے ماہرین اور دنیا بھر کے سماجی اور عمرانی محققین کی مسلمہ رائے ہے۔

آج اتوار ہے اپنے مستقبل سے ملنے ملانے، اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کے سوالات کا جواب دینے کا دن۔ وہ آج ضرور دریافت کریں گے کہ یہ کامیاب نوجوان پروگرام کیا ہے۔ کیا واقعی حکمران نوجوانوں کو با اختیار دیکھنا چاہتے ہیں۔ 

کیا ہماری ریاست آنے والے کل کے لئے سرمایہ کاری میں حقیقی دلچسپی رکھتی ہے؟ میں نے اس پروگرام کو کچھ سمجھنے کی کوشش ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کی اور میری عمر میں کئی دہائیوں کا فرق ہے۔ میں اس طرح نہیں ادراک کرسکتا۔ جیسے ہمارے بھتیجے، پوتے، نواسے کرسکتے ہیں۔زیادہ صائب رائے تو ان کی ہوگی۔ 

مجھے یقیناً خوشی ہوگی کہ میری ان سطور پر جن آنکھوں کی توجہ ہے، ان میں اگر 15سے 29 برس کی جوان آنکھیں بھی ہیں تو میں کامیاب بزرگ ہوں۔ آپ جو اس عنفوانِ شباب میں ہیں، آپ میری صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں۔ جمہوریت کا دَور ہے اکثریت کی حکومت ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت اللہ کے فضل سے 15 سے 29 سال والے اکثریت میں ہیں۔ 

بتایا جارہا ہے کہ اس عمر والے 64 فی صد ہیں۔ کتنے خوش قسمت ہیں ہم پاکستانی۔ کتنا بلند بخت ہے پاکستان۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بوڑھوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ نوجوان دست و بازو دے رہا ہے تواس لئے کہ ہم اپنی خامیاں دور کریں۔ اپنی محرومیوں کو بہرہ وری میں تبدیل کریں۔ یہ 64فی صد جو قریباً 14کروڑ بنیں گے۔ ذرا تصور کیجئے۔ 

کتنی توانائیاں، کتنی تمنّائیں، کتنے عزائم۔ یہ عمر ہی تو ہے عشق کرنے کی، جولانیاں دکھانے کی، چٹانوں پر کمندیں ڈالنے کی، سمندروں میں غوطہ زنی کی، دریا تیر کر پار کرنے کی، خواب دیکھنے کی۔ ہر سال 40لاکھ نئے نوجوان کام کی عمر میں داخل ہورہے ہیں۔ یعنی میٹھا پانی موج در موج ہمارے دریائوں میں بڑھ رہا ہے۔یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ان 14کروڑ میں 29فی صد بالکل اَن پڑھ ہیں۔ 57فی صد بے روزگار ہیں۔ 

افسوس یہ کہ انہیں کام کی جستجو بھی نہیں ہے۔ یہ سوچ ان کی گزشتہ چار دہائیوں کے حالات نے پختہ کی ہے کیونکہ اتنی مایوسیاں، ناکامیاں رہی ہیں کہ یہ احساس پیدا ہوگیا ہے کہ اس ملک میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ مجھ جیسے خبطی بھی اپنی تحریروں، ٹی وی مذاکروں میں یہی رونا روتے ہیں کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ یہاں کچھ ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ 

نوجوان جب ہم تجربہ کار، عمر رسیدہ لوگوں کی یہ منطق سنتے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ یہی خیال کرتے ہیں کہ اس ملک میں تگ و دو کا کوئی حاصل نہیں ہے۔مگر جدید ٹیکنالوجی اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا پروگرام ’کامیاب نوجوان‘ یہ نوید دے رہا ہے کہ حالات بدلے جاسکتے ہیں۔

کامیاب نوجوان جیسے پروگرام حالات سے پنجہ آزمائی ہی ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کو اپنے طور پر تو حالات سے لڑنا ہی پڑتا ہے مگر جب ریاست، حکومت، ماہرین اور بینک بھی اس کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تو اس کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں۔ 

آواز آرہی ہے۔ Generation Stand Up Start Up۔ نسلو کھڑی ہوجائو اور شروع کردو۔ہر حکومت ہی ایسے پروگرام شروع کرتی آئی ہے۔ گزشتہ ادوار میں بھی نوجوانوں کو طاقت ور بنانے کے لئے بہت سی اسکیمیں جاری کی گئی ہیں مگر انہیں تسلسل نہیں مل سکا۔ 

الزامات عائد ہوتے رہے کہ ارکان اسمبلی نوجوانوں کے قومی شناختی کارڈ اکٹھے کرکے قرضے حاصل کرلیتے ہیں۔ کوئی کاروبار کمپنیاں شروع نہیں ہوتی ہیں۔ اب نئی ٹیکنالوجی کی موجودگی میں شاید یہ انتخابیے پرانا شکار نہ کرسکیں۔ لیکن ان کی نظریں تو بہرحال ان اربوں روپوں پر ہوں گی۔

اقوام متحدہ اور دوسرے ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نوجوانوں کو یہ ریکارڈ اکثریت حاصل ہے۔ کیا یہ سنہری موقع نہیں ہے کہ ہم اسے فیصلہ کن موڑ بنالیں۔ حکمران اور اپوزیشن اپنی ضد چھوڑیں۔ 

اپنے پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کی محفوظ زندگی اور روشن مستقبل کے لئے نوجوانوں کے لئے ایسے پروگراموں کی متحد، متفق ہوکر تائید کریں۔ حکومت کی تبدیلی ایسے پروگراموں کی تنسیخ کا موجب نہیں بننی چاہئے۔ یہ ہمارے مستقبل کی فصل بوئی جارہی ہے۔ 

ہماری آئندہ نسلیں ہی اسے کاٹیں گی۔ اس کے حاصل سے ان کی آبیاری ہوگی۔ یہ نوجوان آبادی اب تکہمارا قیمتی اثاثہ نہیں بلکہ بوجھ بن رہی ہے۔ ہماری غفلت اور آپس کی محاذ آرائی کے نتیجے میں کبھی ان توانا نوجوانوں کو انتہا پسند لے اڑتے ہیں۔ کبھی وہ دہشت گردوں کی نفری بن جاتے ہیں۔ 

کبھی لسانی عصبیت والے انہیں اپنا ہتھیار بنالیتے ہیں۔ کبھی نسلی شدت پسند انہیں نسلی خبط میں مبتلا کردیتے ہیں۔ وہ اپنے دست و بازو کی توانائیاں اپنے لئے، اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں کے لئے استعمال نہیں کر پاتے۔ کتنا جوہر ضائع ہوجاتا ہے۔

پروگرام میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں۔ عملدرآمد میں یقیناً بہت دیر ہوگی۔ اس عرصے میں انتخابات بھی ہوسکتے ہیں۔ 22کا ہندسہ ہمارے وزیر اعظم کے لئے نیک شگون بھی ہوسکتا ہے اور خطرناک بھی۔ انہوں نے 22سال جدو جہد کی۔ ملک کے 22ویں وزیر اعظم ہیں اور 2022 میں داخل ہونے والے ہیں۔ 

22بہت سے حوالوں سے ایک حساس سال ہوگا۔ ملکی طور پر، علاقائی اعتبار سے اور عالمی سطح پر بھی۔ خان69سال کے ہوچکے ہیں۔ مقابلہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں مگر ان کی ٹیم میں ٹیم والا جذبہ نہیں ہے۔ کامیاب نوجوان پروگرام ٹیکنیکل حوالے سے۔ 

مالی لحاظ سے خوش نما لگ رہا ہے مگر نوجوانوں کو رہنمائی کی شدید کمی ہے کہ وہ قرضہ لے کر کس بزنس میں جائیں جو ملک کی ضرورت بھی ہو اور جس میں کچھ حاصل بھی ہو۔ یہ نہ ہو کہ سب کھانے پینے کی چیزوں میں ہی پڑ جائیں۔ 

کوئی سرکاری ادارہ، ایوان ہائے صنعت و تجارت، چیمبرز، یونیورسٹیاں ان کو رہنما خطوط دیں تاکہ یہ منصوبہ اپنے مقاصد حاصل کرسکے۔ یہ کئی لاکھ نوجوان ملک کے کفیل بن سکیں۔ ان کے خاندانوں کی بھی تقدیر بدل جائے۔ کرپشن کے دیوتا ان کو یرغمال نہ بنائیں۔

تازہ ترین