• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خوشی اور کامیابی کے عظیم لمحات دیکھتے ہی دیکھتے ایک تماشا اور ایک نئے سیاسی ہیجان کی تمہیدبن جانے کا تاثر دے رہے ہیں اور مجھے اپنا ادیب فاضل کا امتحان یاد آیا جس کے ایک پرچے میں انسانی نفسیات کے زبردست حکیم غالب# کا ایک سہل مجتمع شعر تشریح کے لیے آیا تھا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
ممتحن نے پوچھا تھا کہ دشت زیادہ ویران تھا یا گھر؟ اِس کا صحیح جوا ب غالباً نہ مجھے اُس وقت آیا تھا نہ آج آتا ہے۔ چند ایام کے دوران اصولوں اور انسانی رشتوں کی جو ویرانی دیکھنے میں آئی ہے  اِس میں یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوتا جا رہا ہے کہ ذہنی افلاس کی وحشت کہاں زیادہ تھی‘آیا بعض سیاسی جماعتوں کی کوتاہ بینی میں‘ الیکشن کمیشن کی بے خبری میں یا سپریم کورٹ کی جلد بازی میں ۔ ہم ایک اچھی اور باعثِ افتخار سیاسی روایت کا نقطہٴ عروج چھونے ہی والے تھے کہ صدارتی انتخاب کو ایک تنازع کی شکل دینے کی غیرجمہوری کوشش کی گئی۔ بلا شبہ ہمارے قابلِ احترام فخرو بھائی گاہے گاہے عالمِ خود فراموشی کے مظاہر پیش کرتے آئے ہیں۔ وہ آرمی چیف جنرل کیانی سے دو گھنٹے تک محوِگفتگو رہے مگر اُنہیں پتہ ہی نہ چلا کہ اُن کے مخاطب کون تھے۔ اِسی طرح صدارتی الیکشن کی تاریخ مقرر کرتے وقت وہ یہ فراموش کر بیٹھے کہ 6/اگست کو 27رمضان المبارک ہو گا جس میں ”صادق اور امین“ قانون سازوں کی اچھی خاصی تعداد یا اعتکاف میں بیٹھی یا عمرے پر ملک سے باہر ہو گی ۔ اُن کی توجہ اِس طرف مبذول بھی کرا ئی گئی  مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ جب نفلی عبادت خطرے میں پڑتی نظر آئی تو مسلم لیگ نون کے چیئرمین راجا ظفرالحق نے عدالت ِعظمیٰ سے رجوع کیا جس میں وفاق اور الیکشن کمیشن کو مدعا علیہ بنایا گیا تھا۔ پہلی سماعت ہی پر الیکشن کمیشن کے ایڈیشنل سیکرٹر ی نے فاضل بینچ کو تاریخ مقرر کرنے کا اختیار دے دیا جس کے بعد30جولائی تاریخ مقررہوئی۔ اس عدالتی کارروائی پر سینیٹر اعتزاز احسن اور سینیٹر رضا ربانی آپے سے باہر ہو گئے اور اُنہوں نے عدالت ِعظمیٰ پر جانب داری اور آئینی اختیارات سے تجاوز کرنے کے سنگین الزامات عائد کیے۔ بعد میں جناب عمران خان نے عام انتخابات میں عدلیہ اور الیکشن کمیشن کا کردار شرمناک قرار دے دیا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن جو عدلیہ کی بحالی میں ایک ڈیڑھ سال قوم کی آنکھوں کا تارا بنے رہے  وہ اب سودوزیاں کا حساب کرنے پر اتر آئے ہیں۔ اُنہی کے اصرار پر پیپلز پارٹی نے صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا اور انتقامی جذبے کے تحت وہ جناب عمران خاں کو بھی بائیکاٹ پر ورغلانے میں کامیاب ہو گئے تھے  مگر جسٹس وجیہہ الدین احمد کی بصیرت اور جمہوریت سے پختہ کمٹمنٹ نے معاملے کو مزید بگڑنے سے بچا لیا تھا۔ پیپلز پارٹی جو اِن دنوں سینیٹر رضا ربانی اور بیرسٹر اعتزاز احسن کی یرغمال بنی ہوئی ہے  اُس نے الیکشن کمیشن سے استعفے کا مطالبہ داغ دیا ہے اور اِس کی پوری کوشش یہ رہی کہ صدارتی انتخاب کا اعتبار قائم نہ ہونے پائے۔ اِس کا یہ رویہ مسلم لیگ نون کی قیادت کے اُس مثبت رویے سے یکسر مختلف ہے جو اُس نے 2008ء میں جناب زرداری کے صدارتی انتخاب کے وقت اختیار کیا اور بی اے کی ڈگری کا معاملہ نظر انداز کر دیا تھا۔
جناب رضا ربانی معاملات کو سلجھانے کے بجائے نت نئے فتنے اُٹھا رہے ہیں۔ان کاواویلا یہ ہے کہ وفاقی حکومت اٹھارھویں ترمیم کے تحت دی ہوئی صوبائی خودمختاری ختم کر کے ملک میں واحدانی نظام قائم کرنا چاہتی ہے۔ وہ دراصل اُن خطرناک نتائج کی پیش بندی کرنا چاہتے ہیں جو آئین میں یک مشت سو سے زائد ترامیم کے نتیجے میں اب ظاہر ہونے لگے ہیں۔ اُنہوں نے دراصل وفاق کی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں اور صوبوں کو ایک ہی جست میں اِس قدر اختیارات سونپ دیے ہیں جن کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی اُن میں صلاحیت اور استعداد موجودہی نہیں۔تھنک ٹینک پائنا نے اس وقت یہ تجویز دی تھی کہ صوبوں کو اختیارات بتدریج منتقل کیے جائیں اور تعلیم کو وفاقی سبجیکٹ رکھا جائے تاکہ قوم کی یکساں طور پر نشوونما کی جا سکے۔ یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ امن عامہ کا قیام وفاق اور صوبوں کی یکساں ذمے داری ہونی چاہیے۔ سابق وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ کہتے تھے کہ مرکز کے پاس قومی وسائل کا صرف 33فی صد رہ گیا ہے جو کبھی 55فی صد تھا۔ آج آئینی صورتِ حال یہ ہے کہ بدترین حالات میں بھی مرکز صوبوں میں گورنر راج نافذ نہیں کر سکتا۔پاکستان میں جو دہشت گردی اور بدامنی قابو میں نہیں آ رہی اور وفاق پر جو ضعف طاری ہے  یہ بہت کچھ پارلیمنٹ کو غوروفکر کا موقع دیے بغیرآئین پر مشقِ ستم فرمانے کا شاخسانہ ہے۔
پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ نے مسلم لیگ نون کی قیادت کو ووٹ مانگنے کے لیے نائن زیرو پر سجدہ ریزی پر مجبور کر دیا کیونکہ اس کے 50 ووٹ صوبہ سندھ کے حوالے سے غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے تھے۔ صدارتی امیدوار جناب ممنون حسین کو سندھ اسمبلی سے جو 64 ووٹ ملے ہیں ان میں ایم کیو ایم کے ووٹوں کا بڑا حصہ ہے۔ مسلم لیگ نون پر اصولوں سے انحراف کا الزام آ رہا ہے کیونکہ 8جولائی 2007ء کو لندن کی آل پارٹیز کانفرنس کا جو اعلامیہ خود نواز شریف نے پڑھ کر سنایا تھا اُس میں یہ نکتہ بطورِ خاص شامل تھا کہ جب تک ایم کیو ایم دہشت گردی سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرتی  اُس سے انتخابی اتحاد ہو گا نہ اسے حکومت میں شامل کیا جائے گا۔ حکمران جماعت کوسندھ کی سطح پر یہ نقصان پہنچاہے کہ وہاں کی قومیت پرست جماعتیں جو قومی دھارے میں آتی جا رہی تھیں  نواب ممتاز بھٹو نے اپنی جماعت مسلم لیگ نون میں ضم کر دی تھی اور ایاز پلیجو آئین کی بات کرنے لگے تھے اور پیر پگاڑہ ایک فعال کردار ادا کر رہے تھے ‘ ان میں شدید ردعمل پیدا ہوا‘ البتہ صدارتی انتخابات کے نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ مسلم لیگ نون کی قیادت نے آخری وقت پر درست حکمتِ عملی اختیار کی جبکہ پیپلزپارٹی نے غیر جمہوری راستہ اپنا کر سراسر گھاٹے کا سودا کیا ہے۔وزیراعظم نے تبدیل شدہ حالات کے مطابق فیصلے کیے اور ایم کیو ایم کودہشت گردی سے کنارہ کش ہونے کا موقع فراہم کیا ہے‘ تاہم صدارتی انتخاب میں جو بڑے جھٹکے لگے ہیں وہ زیادہ تر مس ہینڈلنگ کا نتیجہ ہیں جس پرفوری توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
ہم بھاری اکثریت سے پا کستان کے صدر منتخب ہونے پر جناب ممنون حسین کو مبارک باد پیش کرتے ہیں اور اُمید رکھتے ہیں کہ وہ بے داغ کردار اور سیاسی پختگی سے اِس اعلیٰ ترین منصب کو ایک وقار اور ایک قدرومنزلت عطا کریں گے۔ وہ درمیانہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور کراچی میں ایک شریف النفس اور با اصول انسان کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور نہایت عمدہ شعری اور دینی ذوق رکھتے ہیں۔
ہمیں الله تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ انتقالِ اقتدار کا آخری مرحلہ بھی جمہوری طریقے سے طے پا گیا ہے۔ صدر زرداری اور جناب عمران خان نے منتخب صدر کو مبارکباد پیش کر کے صدارتی انتخاب کی کریڈ یبیلٹی پر مہر ثبت کر دی ہے اور چیف الیکشن کمشنر نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ بائیکاٹ سے صدارتی انتخاب کی آئینی حیثیت پر کوئی حرف نہیں آیا۔ جناب ممنون حسین نے صدر منتخب ہوتے ہی مسلم لیگ نون کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے اور اپنا یہ عزم دہرایا ہے کہ وہ پوری قوم کے غیر جانبدار صدر ہو ں گے۔ان خوش گوارلمحات میں جوایک عجب ماجرا ہوا ‘ اس کے نتیجے میں جناب فخرو بھائی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف استعفیٰ دے دیا ہے اور عدلیہ کے کردار کو ”شرمناک“ قرار دینے پر عمران خان کو توہینِ عدالت کا نوٹس مل گیا ہے۔ یہ واقعات ایک بہت بڑے سیاسی طوفان کو جنم دے سکتے ہیں‘ چنانچہ اس وقت سیاسی قیادت‘ عدلیہ اور میڈیا کو وسعت قلبی اور بالغ نظری سے کام لینا اور جمہوری سسٹم کو نئی آزمائشوں سے محفوظ رکھنا ہو گا۔
تازہ ترین