ڈاکٹر نصرت جبیں
ایسوسی ایٹ پروفیسر ،ڈیپارٹمنٹ آف مائیکرو بایولوجی ،یونیورسٹی آف کراچی
وائرس کرّۂ اَرض پر پائی جانے والی حیاتی موجودات (Biological Entities) میں سے ایک ایسی حیات ہے جونہ صرف ہر جگہ موجود ہے بلکہ زمین پر موجود ہر قسم کے جاندار خواہ وہ سمندروں میں رہتے ہوں، خشکی پر ہوں یا ہوا میں یہاں تک کہ بیکٹیریا جیسی سادہ ترین حیات بھی اس کے اثر سے محفوظ نہیں۔
ارتقائی لحاظ سے سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ وائرس باقاعدہ زندگی کی ابتدا سے بھی پہلے سے موجود ہیں اور باقاعدہ خلیاتی زندگی یعنی ’’Cellular Life‘‘ کے آغاز کا باعث بنتے ہیں۔ سائنسدانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ وائرس شاید موبائل جینٹک ایلیمنٹ جینیاتی عناصر سے پیدا ہوئے ہیں ۔جنہوں نے اپنے میزبان جانداروں کے مختلف خلیات میں خود اپنی نشو و نما (Replication) کرکے دیگر خلیات کے درمیان منتقل ہونے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔
اسی لئے وائرس کو ’’Intracellular Parasite‘‘ یعنی کسی دُوسرے جاندار کے جسم میں رہ کر نشوو نما پانے والا جاندار کہا جاتا ہے۔ یہاں تک انسان جینیاتی مادّے کے تجزیئے سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انسانی جینیاتی مادّے (Genome) کا تقریباً 45 فی صد حصہ دراصل وائرسز کے جینیاتی مادّے پر مشتمل ہے۔ یعنی یہ وقتاً فوقتاً ارتقائی عمل کے دوران انسان کو متاثر کر کے اس کے جینوم کا حصہ بنتے گئے۔ اسی لئے وائرسز کو ’’Drivers of Evolution‘‘ یعنی ایک طرف سے ارتقائی عمل کو بڑھانے والی ایک طاقت مانا جاتا ہے۔
وائرس جو کہ سائز کے لحاظ سے انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں اور صرف اور صرف الیکٹران مائیکرو اسکوپ کے ذریعے ہی دیکھے جا سکتے ہیں جب کہ ساختی اعتبار سے بھی ان کا جسم صرف چند اجزاء پر ہی مشتمل ہوتا ہے،جس میں اس کا مختصر سا جینیاتی مادّہ جو کہ DNA یا RNA پر مشتمل ہوتا ہے ایک خاص قسم کے خول جسے کیپسڈ ’’Capsid‘‘ کہا جاتا ہے ،اس میں بند ہوتا ہے جب کہ کئی قسم کے وائرسز میں ایک اور بیرونی خول بھی موجود ہوتا ہے جسے ’’Envelop‘‘ کہا جاتا ہے جو کہ وائرس کو بیرونی عوامل سے محفوظ رکھتا ہے۔اس کے علاوہ کچھ وائرسز کی بیرونی سطح پر خاص قسم کی پروٹینز مختلف قسم کی ساخت میں موجود ہوتی ہیں، جس کی ایک مثال کورونا وائرس کی سطح پر موجود Spike نامی پروٹین ہے جو کہ کورونا وائرس کو اپنے میزبان خلیے سے جڑنے اور اپنے جینیاتی مادّے کو میزبان سیل کے اندر داخل کر کے انفیکشن پھیلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
جب کہ جینیانی مادّے یعنی DNA یا RNA میں موجود معلومات وائرس کو اپنے میزبان سیل میں داخل ہو کر اپنی تعداد بڑھانے یعنی ’’Replication‘‘ کرنے، میزبان جسم کی مشینری کو قابو کرنے، خود کو میزبان جسم کے مدافعتی نظام سے بچا کر جسم میں انفیکشن پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وائرس اپنی نمو کے لئے زیادہ تر اپنے میزبان ہی کی سیلولر مشینری پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کرۂ ارض پر ہزاروں اور لاکھوں قسم کے وائرس موجود ہیں جن کی تعداد شاید کھربوں میں ہے۔ یہ وائرس ساختی اور جینیانی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ وائرسز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وائرس ’’Host Specific‘‘ ہوتے ہیں ۔یعنی ہر وائرس ہر جاندار کو متاثر نہیں کرتا مثلاً Plant Virus صرف پودوں کو ہی متاثر کر سکتا ہے جب کہ Animal Virus صرف جانوروں میں بیماری پھیلاتے ہیں۔
جب کہ Bacterial Virus صرف بیکٹیریا ہی پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ انسانوں کو بیمار کرنے والے وائرس زیادہ تر صرف انسانوں ہی میں بیماری پھیلاتے ہیں۔ یہاں تک کہ خاص وائرس خاص قسم کے اعضاء یا خلیوں کو ہی متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وائرس نہ صرف Host Specific ہوتے ہیں بلکہ ’’Tissue Specific‘‘ بھی ہوتے ہیں۔
کیوںکہ ارتقاء ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ۔لہٰذا کچھ وائرس ارتقائی عمل سے گزر کر اپنا میزبان یعنی Host بدل کر نئے Host کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں، جس کی واضح مثال کورونا وائرس ہے جو کہ اصل میں چمگادڑوں میں بیماری پیدا کرتا تھا ،مگر ارتقاء کے نتیجے میں اب انسان بھی اس کے نشانے پر ہیں۔
یوں تو انسانوں میں بیماری پیدا کرنے والے وائرس کی تعداد سیکڑوں میں ہے جو کہ انسانوں میں مختلف قسم کی بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ جن میں معمولی نزلہ زکام سے لے کر انسانی جسم میں خون، معدہ، پھیپھڑوں، جلد اور جگر وغیرہ کو متاثر کرنے والے ڈینگی (Dengue)، ایبولا (Ebola)، روٹا (Rota)، کورونا (Corona)، ہرپیس (Herpes) اور ہیپاٹائٹس (Hepatitis) نامی وائرس شام ہیں۔ ان کے علاوہ کئی ایسے وائرسز بھی ہیں جو کہ نا صرف عام انفیکشن بلکہ کینسر (Cancer) تک پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جن کو انکوجینک (Oncogenic) وائرس یا ٹیومر وائرس کہا جاتا ہے۔
انکو جینک وائرس کی تاریخ
1911ء میں Parous نامی جانوروں کے ایک ڈاکٹر نے سب سے پہلے مرغیوں میں ایسے کینسر کی جانچ کی جس کی وجہ خاص قسم کے ریٹرو وائرس (Retro Virus) تھے۔ اس کے بعد 1930ء سے لے کر 1950ء کی دہائی میں سائنس دانوں کے گروہ نے ایسے کئی تجربات کے ذریعے لیبارٹری میں استعمال ہونے والے جانور مثلاً خرگوشوں اور چوہوں میں کینسر پیدا کرنے والے وائرسز کا مشاہدہ کیا۔ جن میںریٹرو وائرس کے علاوہ Mouse Mammary Tumor Virus، Mouse Leukemia Virus، Mouse Polyoma Virus شامل ہیں۔
سائنس دانوں نے مسلسل تحقیق کے بعد 1960ء میں پہلی بار انسانوں میں بیماری پیدا کرنے والے Epstein Barr Virus جسے EBV بھی کہا جاتا ہے کے کینسر پیدا کرنے کی صلاحیت کا سُراغ لگایا۔ اس کے بعد 1970ء میں انسانوں میں بیماری پیدا کرنے والے ایک اور وائرس ہیپاٹائٹس بی (Hepatitis B) جسے HBV بھی کہا جاتا ہے کے جگر کا کینسر کرنے کی صلاحیت کا مشاہدہ کیا گیا۔
اور یوں سائنس دانوں نے اب تک انسانوں میں کینسر پیدا کرنے والے سات مختلف قسم کے وائرسز جن میں کینسر پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے کا کھوج لگایا ہے۔ ان سات وائرسز میں جن کو انکو جینک (Oncogenic) یا ٹیومر وائرس بھی کہا جاتا ہے۔وہ ذیل میں موجود ہیں ۔
* ایپسٹن بار وائرس (Epstein Barr Virus) EBV
* ہیپاٹائٹس بی وائرس (Hepatits B Virus) HBV
* ہیومن ٹی لمفوٹراپک (Human T-Lymphotropic ) HILV1
* ہیومن پیپی لوما وائرس (Human Papilloma Virus) HPV
* ہیپاٹائٹس سی وائرس (Hypatitis-C Virus) HCV
* کاپوسی سارکوما ہرپیس وائرس (Koposi,s Sarcoma Herpes Virus) KSHV
* مرکل سیل پولیوما وائرس (Merkel Cell Polyoma Virus) MCPy V نامی وائرسز شامل ہیں۔
انکوجینک وائرس بھی اپنی ساخت اورجینیاتی مادّے کے لحاظ سے ایک دُوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً EBV اور KSHV نامی وائرس کا جینیاتی مادّہ DNA پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ یہ سائز میں بھی نسبتاً بڑے ہوتے ہیں۔ HPV اور MCPYV بھی DNA وائرس ہوتے ہیں، مگر ان کا سائز نسبتاً چھوٹا ہوتا ہے جب کہ HBV وائرس بھی DNA وائرس ہے، مگر یہ سائز کے لحاظ سے انتہائی چھوٹا وائرس ہے جب کہ HCV اور HILV-1 ان دونوں وائرس کا جینوم RNA پر مشتمل ہوتا ہے۔
تحقیقات سےیہ ثابت ہوا ہے کہ یہ ٹیومر وائرسز انسانی جسم میں کینسر پیدا کرنے کے لئے اپنے میزبان جسم کے خاص سیل (Cell) کو اپنا ہدف بناتے ہیں اور پھر ان سیلز یعنی خلیوں میں ہونے والی مختلف قسم کی سالماتی سرگرمیوں (Cellular Pathways) میں مداخلت کر کے سیل میں ہونے والی معمول کی سرگرمیوں کو متاثر کرتے ہیں اور نتیجتاً ایک نارمل سیل کینسر سیل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
انکو جنیس کی میکانیات
گو کہ یہ وائرسز ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ،مگر یہ ساتوں ٹومر وائرسز نہ صرف شدید یعنی Acute بلکہ دائمی بھی Chronic قسم کے انفیکشن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور پھر اس دائمی انفیکشن میں یہ وائرس خود کو انسانی جسم میں غیرفعال یعنی Inactive کر لیتے ہیں جسے سائنسی زبان میں Latency کہا جاتا ہے۔
اس عمل میں وائرس زیادہ تر اپنے جینوم کو میزبان کے جینوم میں ضم (Integrate) کرا دیتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ Latency کے دوران دراصل وائرس اپنے جینیاتی مواد کو انسانی خلیےکے سائٹو پلازم یا نیوکلیس میں محفوظ کر لیتے ہیں اور پھر عرصہ گزر جانے کے بعد یہ وائرس پھر سے فعال یعنی Active ہوتا ہے، جس میں وائرس اپنے جینیاتی مواد میں موجود معلومات کے ذریعے سے اپنی پروٹینز بناتا ہے اور پھر نہ مر کر اپنی تعداد بڑھا کر (Replication) بیماری میں شدت پیدا کرتا ہے اور بالآخر کینسر کا سبب بن جاتا ہے۔اور جیسا کہ اُوپر بتایا گیا کہ وائرسز کینسر پیدا کرنے کے لئے میزبان جسم کے خاص خلیات میں ہونے والی معمول کی سرگرمیوں (Cellular Pathways) میں شامل پروٹین کو قابو میں کر کے ان سرگرمیوں کو متاثر کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں نارمل سیل کینسر سیل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
انسانی جسم میں کئی ایسی پروٹین موجود ہوتی ہیں جن کا کام عام خلیات یا نارمل سیلز کو ٹومیر سیلز بننے سے روکنا یعنی سیلولر ٹرانسفارمیشن کے خلاف دفاع فراہم کرنا ہے۔
جب انکو جینک وائرس خلیات کو متاثر کرتے ہیں تو نتیجے میں سیلز شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ،جس کے نتیجے میں متاثر سیل کی نارمل سرگرمیاں بند ہو جاتی ہیں، جس کو Cell Cycle Arrest کہتے ہیں۔ یا پھر متاثرہ سیل کی موت واقع ہو جاتی ہے جسے Apoptosis کہا جاتا ہےاور یوں وائرس کینسر پھیلانے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اس عمل کو مکمل کرنے کے لئے سیل کئی قسم کی پروٹینز بناتے ہیں جن میں ایک سرفہرست پروٹین کا نام P53 ہے جو کہ Tumor Suppressor ٹیومر دبانے یا ختم کرنے والی پروٹین کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے تمام ہی ٹیومر وائرسز ایسی پروٹین بناتے ہیں جو کہ P53 نامی پروٹین کی معمول کی سرگرمیوں کو متاثر کرتے ہیں اور کامیابی سے نارمل سیل کو ٹیومر یعنی کینسر سیل میں تبدیل کر کے اسے جسم میں پھیلا دیتے ہیں۔
کسی بھی جاندار میں نئے خلیات کے بننے کا عمل کئی مخصوص قسم کے نیٹ ورک جسے Cellular Signaling Pathways کہا جاتا ہے کے ذریعے سے کنٹرول کیا جاتا ہے اور یہPathways مختلف اوقات اور ماحول میں اپنا اپنا کام انجام دیتے ہیں۔جن میں AKT-mTor، MAPK، NOTCH اور WNT نامی Sighnaling Pathway سرفہرست ہیں۔
تقریباً یہ تمام ٹیومر وائرسز ہی انسانی خلیات میں ہونے والی ان میکانیات کو متاثر کر کے سیل کو ٹیومر سیل بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہاں تک یہ وائرسز خود کو اپنے میزبان کے مدافعتی نظام سے بھی باآسانی بچا کر کینسر کو جسم میں پھیلا دیتے ہیں۔
ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کچھ وائرس اپنے جینیاتی مادّے کی مدد سے ایسے پروٹین بھی بناتے ہیں جو کہ اپنے میزبان خلیہ کے DNA سے جڑ کر میزبان خلیہ کو ایسی پروٹین بنانے سے روک دیتا ہے جو کہ اس کی اپنی نشو و نما یعنی Replication کے عمل میں رُکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے اور یوں ایک نارمل سیل کے اندر شدید تنائو پیدا ہوتا ہے اور سیل اپنی سالمیت (Intigrity) کھو دیتا ہے جو کہ وائرس کو جسم میں کینسر کے پھیلائو میں انتہائی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
انکو جینک وائرس اور ان سے پیدا ہونے والے کینسر
* ایپسٹن بار وائرس EBV
اس کا تعلق Herpes Virus کی فیملی سے ہے اس وائرس کا جینوم DNA پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ 85 قسم کی پروٹینز بناتے ہیں۔ جن میں سے ایک پروٹین جسے EBNA1کہا جاتا ہے۔ انسانی جسم میں ٹیومر پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اسی وجہ سے اس پروٹین کو اونکو پروٹین بھی کہا جاتا ہے۔
EBV انفیکشن کی ابتدا میں بخار، سر درد، گلے کی سوزش لمف نوڈ اور جگر میں سوزش پیدا کرتا ہے۔ Chronicانفیکشن کے نتیجے میں یہ وائرس کئی قسم کے کینسر کا باعث بنتا ہے ،جس میں سرفہرست کئی قسم کے خون کے کینسر جن میں B-Cell Lymphoma، Burisitts Lymphoma ، Hodgkin's Lymphoma اور Diffuse Large Cell B-Cell Lymphoma شامل ہیں۔
EBV خون کے علاوہ دیگر خلیوں کو بھی متاثر کرتا ہے اور مختلف قسم کے کینسر پیدا کرتا ہے، جس میں معدے (Gastric) اور Naso Pharyngeal کینسر شامل ہیں۔
* ہیپاٹائٹس بی وائرس HBV
وائرس کا تعلق وائرس کی فیملی Orthohepadna virus سے ہے۔ اس وائرس کا جینوم بھی DNA سے بنا ہوتا ہے، جس میں صرف 4 جینز موجود ہوتی ہیں۔ ان چار جینز میں سے ایک ایسی جین بھی ہوتی ہے جو کہ نہ صرف وائرس کی خود کی سیل میں نشو و نما (Replication) بلکہ کینسر پیدا کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسی وجہ کے اس اہم جین کو ٹیومر جین بھی کہا جاتا ہے جب کہ اس کے انتہائی منفرد جین ہونے کی وجہ سے اس کو Genex کا نام دیا گیا ہے۔
HBV بھی Acute اور Chronic دونوں طرح کے انفیکشن پیدا کرتا ہے، مگر Chronic انفیکشن کے نتیجہ میں انسانی جگر میں کینسر پیدا کر دیتا ہے جسے Hepatocellular Carcinoma کہتے ہیں۔
* ہیومن ٹی لمفو ٹراپک (HiLV1) وائرس
اس کا تعلق Human Retro Virus سے ہے۔ اس وائرس کا جینوم RNA پر مشتمل ہوتا ہے یہ وائرس بھی کئی قسم کی پروٹین بناتا ہے جو کہ وائرس کی Replication سے لے کر انفیکشن اور کینسر پیدا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ دوسرے ٹیومر وائرس کی طرح اس وائرس کے پاس بھی ایک انکو پروٹین ہوتی ہے جسے Tax پروٹین کہتے ہیں جو کہ انسانی خلیوں میں کینسر پیدا کرتے ہیں۔ یہ وائرس خون میں موجود T-Cell جس کا تعلق مدافعتی نظام سے ہے کو متاثر کرتا ہے اور Lymphoma اور leukemia جیسے کینسر کا باعث بنتا ہے۔
* ہیومن پیپی لوما وائرس (HPV)
اس کا تعلق Rapilloma Viridae سے ہے۔ اس وائرس کا جینوم بھی DNA پر مشتمل ہوتا ہے جو 8 مختلف قسم کی پروٹین بناتا ہے جو کہ وائرس کی Life Cycle میں اہم کرادر ادا کرتے ہیں، مگر ان پروٹین میں سے HPV کے پاس دو ایسے پروٹین بھی ہوتے ہیں جو کہ ٹیومر یعنی کینسر پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ دو نوں پروٹین E6 اور E7 کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ وائرس بھی انسانی جسم میں کئی قسم کے کینسر پیدا کرتا ہے جن میں Cervical، Anogenital، Penile اور Naso Pharyngeal جیسے کینسر شامل ہیں۔
* ہیپاٹائٹس سی وائرس (HCV)
اس وائرس کا تعلق فیملی Flaviviridae سے ہے اس کا جینوم DNA کے بجائے RNA پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ دس مختلف قسم کی پروٹین بناتے ہیں جو کہ وائرس کی Repliaction اور انفیکشن میں اہم کرادر ادا کرتی ہیں۔ HCV وائرس بھی HBV وائرس کی طرح جگر میں کینسر پیدا کرتا ہے جب کہ تحقیقات کے مطابق HCV کی چار پروٹین Core، NS3، NS5A اور NS5B کا شمار oncoproteinکے طور پر کیا جاتا ہے جو کہ میزبان خلیہ میں ہونے والے Cellular Pathways میں مدافعت کر کے کینسر کا باعث بنتا ہے۔
* کاپوسیسارکوما ہرپیس (KSHV)
اس وائرس کا تعلق Herpesviridae سے ہے۔ اس وائرس کو ہیومن ہرپیس وائرس (HHV8) بھی کہا جاتا ہے۔ اس وائرس کا جینوم بھی DNA پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ تقریباً 90 مختلف قسم کی پروٹین اور کئی قسم کے مائیکرو RNA بھی بناتا ہے جو کہ وائرس کے Replication سے لے کر میزبان خلیوں میں انفیکشن پھیلانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ وائرس بھی دوسرے ٹیومر وائرس کی طرح Latency میں چلا جاتا ہے اور پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعددوبارہ سے فعال ہو کر کئی قسم کے کینسر کی وجہ بنتا ہے۔
یہ وائرس نہ صرف خون میں موجود B-Cells بلکہ Macro Plages جو کہ انسانی مدافعتی نظام کا اہم رکن ہے ۔اس کے علاوہ خلیہ پر موجود Karabiocytes نامی سیل کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اس وائرس میں موجود L-ANA نامی پروٹین وائرس کی خلیہ میں کینسر پھیلانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ یہ وائرس بھی نہ صرف خون کا کینسر یعنی Primary Cfforsion Lymphoma بلکہ ایڈز (AIDS) کے مریضوں میں جلد(Skin) کا کینسر پیدا کرتے ہیں جسے Kaposi Sarcowa کہا جاتا ہے۔
* مرکل سیل پولیوما وائرس (MCPyV)
اس کا تعلق Polyomaviridae سے ہے۔ یہ وائرس بھی DNA وائرس ہے جو کہ پانچ طرح کی مختلف پروٹین بناتا ہے۔ اس وائرس میں موجود دو جینز LT اور ST کو اونکو جین کہا جاتا ہے یہ جینز وائرس کو انتہائی خطرناک قسم کا جلد (Skin) کا کینسر پیدا کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے ،جس کو Merkel Cell Carcinoma کہتے ہیں۔ یہ وائرس بھی دیگر وائرسز کی طرح اپنے جینوم کومیزبان جسم کے خلیہ میں موجود جینیاتی مواد میں ضم (Intergrate) کر کے Latency فیز میں رہتا ہے اور پھر فعال ہو کر خطرناک ٹیومر بناتا ہے۔
مختصراً وائرسز کا میزبان سیل کی مشینری کو استعمال کر کے نہ صرف اپنی Replication یعنی نمو کرنا بلکہ میزبان جسم کے مدافعتی نظام کو چکما دے کر میزبان سیل کے سیلولر مشینری کو قابو کرنا اورسیل کے نارمل نظام کوتبدیل کر کے اسے ٹیومر سیل بننے پر مجبور کر دینا ان وائرسز کی بہترین حکمت علمی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اب تک سوائے HBV اور HPV وائرس کے علاوہ کسی بھی اور ٹیومر وائرس سے تحفظ کے لئے کوئی ویکسین موجود نہیں گو کہ دنیا بھر کے سائنس داں اس کوشش میں جڑے ہوئے ہیں جب کہ ٹیومر وائرسز دنیا میں ونے والے 10 سے 20 فیصد کینسر کی وجہ بنتے ہیں۔
وائرس کی حالیہ وباء کو دیکھتے ہوئے اور وائرس کی کینسر پھیلانے کی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرورت اس امرکی ہے کہ ملک میں وائرولوجی کے شعبے قائم کئے جائیں اور ایسی لیبارٹری کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں اس شعبے پر زیادہ سے زیادہ تحقیق ممکن ہو۔