جب کسی شے کی طلب بڑھتی ہے تو اُس تک رسائی کے اسباب بھی پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ’’جہاں چاہ، وہاں راہ‘‘ کے مصداق انسان ڈھونڈنے پہ آئے تو اُسے خدا بھی مل جائے۔ اسراء کی علمی طلب اگرچہ کتابوں سے ممکن نہیں تھی، لیکن پھر بھی اُس نے ہر اُس کتاب تک کا مطالعہ کیا، جو اس کی دل چسپی کے موضوعات کا احاطہ کر پاتی، مگر ہر مطالعہ، طلب کی شدت کو بڑھا ہی رہا تھا۔ ایسے میں سر ذکریا اُس سمیت ہر طالب علم کےلیےعلم کا گہرا سمندر تھے۔ آج موضوعِ گفتگو، عقل اور دل کا معاملہ تھا، تو اسراء کے ذہن میں موجود لاتعداد سوالات باہر آنے کو مچلنے لگے۔ مگر وہ سوالات وہیں کرتی، جہاں اُسے اُمید ہوتی کہ اُس کےسوالات پرمکمل دلائل کےساتھ جواب دے کر اُسے مطمئن کیا جائے گا۔
’’سر! بہت سے صوفیاء، ادباء اور فلاسفر دل کی راہ پہ چلنےکو کہتے ہیں۔ اُسے عقل سے بہترین جانتے ہیں۔ جب کہ عقل کی راہ کو ناقص سمجھتے ہیں۔ میرا سوال یہ کہ اقبال نے یہ تو کہاکہ ؎ بےخطر کود پڑا آتشِ نمرودمیں عشق… عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نےاپنے خالق و مالک تک پہنچنے کےلیے عقل کاسفر طے کیا تھا، نہ کہ دل کا۔ دیکھیں، جب انھوں نے بتوں کی پرستش سے انکار کیا، تو اس بنیاد پہ کیا کہ جو خود حرکت کرنےکےقابل نہیں، وہ نظامِ کائنات کیسے چلا سکتے ہیں۔ پھر چاند، سورج اور ستاروں کی پرستش کو اس بنیاد پہ رَد کیا کہ عقل اُنھیں دیوتا ماننے سے انکاری تھی۔ تو پھر عشق کو عقل پہ ترجیح کیوں دی جاتی ہے؟ دل،دماغ پر حاوی کیوں رہتاہے؟‘‘
’’اسراء! ساری بات طلب کی ہے۔ طلب سچّی ہو تو عقل صحیح سمت میں رہنمائی کرتی ہے، وگرنہ انسان محض کنفیوژن ہی میں بھٹکتا رہتا ہے۔ مغربی صوفیاء بھی کہتے ہیں کہ ہمارے خیالات اور تصوّرات اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ یہ ہماری زندگیوں کی کہانی کو نیا رُوپ دے سکتے ہیں، ان کا انجام بدل سکتے ہیں۔ یہاں بھی بات طلب کی آجاتی ہے۔ انسان کی طلب بڑھے تو وہ خیالات کی صُورت اس پہ حاوی ہو جاتی ہے اور یہ خیالات اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ پھر انسان جو چاہتا ہے، پا لیتا ہے۔ طلب کا معاملہ دل سے ہے۔ صدیوں سے عقل اور دل کو ایک دوسرے کے مقابل پرکھا جا رہا ہے۔ لیکن دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں۔
دونوں کی منزل بھی ایک ہے۔ فرق بس اتناساہےکہ جس منزل تک پہنچنے کے لیے عقل کو برسوں ریاضت کرنی پڑتی ہے، دل وہاں لمحوں میں پہنچ جاتا ہے۔ دماغ کی آنکھ کو جس حقیقت کو دیکھنے کے لیے کئی خُردبینوں کی ضرورت پڑتی ہے، دل کی آنکھ بغیر کسی تردّد کے اُسے دیکھ لیتی ہے۔ دل، فلسفۂ محبت کی آماج گاہ ہے، جہاں یہ فلسفہ موجود ہو، وہاں باقی فلسفوں کی گتھیاں خود بخود سلجھنے لگتی ہیں۔ محبت طلب کی راہیں ہم وار کرتی ہے اور طلب اِسے فوراً مطلوب تک لے جاتی ہے۔ عقل تو برسوں ہاں، ناں ہی کی کشمکش میں الجھائے رکھتی ہے۔‘‘
………٭٭………
نفسیات دانوں اور انسانی نفسیات میں دل چسپی رکھنے والوں کی زندگی بھی عجیب ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی دل چسپ شخصیت کی گرہیں کھولتے کھولتے خود ذہنی گرداب میں پھنس کر ایک معمّا بن کے رہ جاتے ہیں۔ یہی نایاب کے ساتھ ہو رہا تھا۔ وہ اِس وقت زندگی کے جس مرحلے سے گزر رہی تھی، یہاں پہ آکر اکثر انسان سراب کو حقیقت اور حقیقت کو سراب سمجھنے لگتے ہیں۔ خیالات، احساسات کو ہانکنے لگتے ہیں۔ سوچ،محسوسات کو اپنی مرضی کی سمت دھکیل دیتی ہے۔ شخصیات، نظریات پہ حاوی ہو جاتی ہیں۔
وہ شامیں جن کے حُسن کے قصیدے لکھنا نایاب کا معمول تھا، اب وہی شامیں آنگن میں اُس پہ اداسیوں کا قہر برساتےاُترنے لگی تھیں۔ اِس تبدیلی کی وجہ جاننے سے وہ ابھی قاصر تھی۔ بہار نامے کے جواب میں رسیم کی لکھی گئی تحریر وہ کئی دفعہ پڑھ چُکی تھی۔ لیکن ہر سطر بجائے گرہیں کھولنےکےاُسے مزید پیچیدگیوں کےگرداب میں دھکیل رہی تھی۔ تخلیق کار کسی بھی فن سے وابستہ ہوں، وہ ایک دوسرے سے آگاہ ہوتے ہیں کہ اُن کی دنیا ایک ہوتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو اُس پردے سے ہٹ کر دیکھتے ہیں، جو باقی دنیا سے اپنی حقیقت چھپانے کے لیے انھوں نے خود پہ چڑھا رکھاہوتا ہے۔ لیکن یہاں نایاب ایک نفسیات کی طالبہ کے طور پہ رسیم کو ایک ’’سبجیکٹ آف اسٹڈی‘‘ کے طور پہ لے رہی تھی۔
اپنی ذہنی الجھنوں کو نظم کی صُورت قلم بند کر کےاُس نےاُسے اپنی محبوب ترین ڈائری میں محفوظ کردیا۔ یہ پہلی نظم تھی، جو اس نے بہار کے موسم میں پرندوں، تتلیوں کے جہاں سے ہٹ کر لکھی تھی ؎ اداس شامیں…یادوں کا پیراہن اوڑھے…دُکھوں کا بوجھ اٹھائے…رفتہ رفتہ جب…دہلیز پہ اُترتی ہیں…تو …اِک شور سا اٹھتا ہے…کئی طوفان بپھرتے ہیں…مانوس قدموں کی آہٹ…اجنبی لہجے کی بازگشت…دنیائے دل میں سُنائی دیتی ہے…پھر یہ نامہربان ساعتیں…بے بسی کے قصّے سُنا کر…رگ رگ میں…درد کا زہر گھولتی ہیں…روح کے ساز پہ بھی… پھر اک ہی ترنم گونجتاہے…درد کا ترنم…سنو اے مہرباں…میرے در و دیوار میں روز …یونہی دن کا اختتام ہوتا ہے…کچھ ایسےشام اُترتی ہے…جیسےکوئی مجسّمہ اُداسی کا…ہرشام سُلگتی آہیں…یونہی میراطواف کرتی ہیں۔
………٭٭………
2015ء
آج پھر میں اُسی میوزیم میں موجود تھا۔ اُسی فن پارے پہ اپنی تمام تر توجّہ مرکوز کیے ہوئے۔ میوزیم کے نگران ہمیشہ کی طرح مجھے دیکھ کر ایک آہ بھر کے وہاں سے گزر گئے۔ مَیں نے اِس تاریخی فن پارے کو خریدنے کی بہت کوشش کی، لیکن میوزیم کو اس فن پارے کی فروخت میں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ باقی لوگوں کی نظر میں اِس کی اہمیت ایک قدیم فن پارے سے زیادہ نہ تھی۔ مگر میرے لیے یہ فن پارہ اور اِس پہ بنے نقش و نگار سربستہ رازوں کی تہیں تھیں۔ کچھ نہ کچھ تو اُس میں ایساضرور تھا، جو مجھے اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔ مجھے اپنا ایک حصّہ اس تخلیق میں محسوس ہوتا تھا۔
ابھی تک مجھے اُس کے بارے میں اتنی ہی معلومات تھیں کہ یہ ایک تاریخی مقام کی کُھدائی میں ماہر ارضیات کو باقی نوادرات کےساتھ ملا تھا، جنھوں نے اسے اِس میوزیم کو فروخت کردیا تھا۔ مگر مَیں اس کے بارے میں سب جانناچاہتا تھا۔ مَیں ماضی میں جاکر اِس کےتخلیق کار سےملناچاہتا تھا۔ وقت کی ہم راہی میں واپس پلٹ کر اُن شب و روز کا دیدار کرنا چاہتا تھا، جنھوں نے ایک تخلیق کار کو ایسا تخلیقی ذہن عطاکیا کہ جس کی تخلیق صدیوں بعد بھی کسی کی اندرونی دنیا کو تہہ و بالا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
میری عمومی شامیں جو مصوّری کے نت نئے شاہ کار تخلیق کرنے میں گزرتی تھیں، اب وہ مَیں اس میوزیم میں اس فن پارے کے گرد گزار رہا تھا۔ مجھے نہیں معلوم، لوگ میری اس جنونی کیفیت کو کیا نام دیتے ہیں۔ مجھے دیوانہ سمجھتے ہیں کہ نہیں، مجھے غرض ہے تو بس اس فن پارے سے، جِسے دیکھتے ہی میں ایک اَن دیکھے جہاں کے سفر پہ روانہ ہو جاتاہوں اور پھر گھنٹوں مجھے کوئی ہوش نہیں رہتا۔ کون کیاکہہ رہاہے،کون مجھے دیکھ رہا ہے، کون مجھ پہ ہنس رہا ہے، مجھے کچھ معلوم نہیں۔ مجھے کسی کی پروا نہیں۔
………٭٭………
"رنج و الم کی کیفیت، رُوح کا زخمی ہونا، بکھرنا بھی تو ایک تعمیری عمل ہے۔ آپ ایک کپڑے کی مثال لے لیں، وہ ایک اچھے لباس میں تب تک تبدیل نہیں ہوسکتا، جب تک اُس کو الگ الگ ٹکڑوں میں نہ بانٹا جائے۔ دُکھ تو رُوح کی غذا ہے، جو اُسے ریزہ ریزہ کرکے نئےسانچے میں ڈھالتی ہے۔ رُوح اپنے اصل مقام سےصحیح سالم آتی ہے، مگر اُسے عروج پہ پہنچنے کے لیے نئی ساخت میں ڈھلنا ہوتا ہے اور نئی ساخت تب ہی بنتی ہے،جب پہلی ساخت میں تبدیلی واقع ہو اور یہ تبدیلی دُکھ ہی سے واقع ہوتی ہے۔ رومی کتنےبڑے صوفی ہیں، وہ بھی انسان کے دُکھ کو بانسری کے دُکھ سے تشبیہ دیتے ہیں کہ بانسری کی آواز میں دُکھ کی وجہ اُس کے اصل یعنی بانس سے علیحدگی ہے، اور انسان کا دُکھ بھی یہی ہے، وہ بھی خدا سے علیحدہ ہوچُکا ہے۔
ہم تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن دنیا کا ہر انسان ہی دُکھی ہے، اضطراب کا شکار ہے۔ اس اضطراب کو دُور کرنے کے لیے وہ مختلف طریقے آزماتا ہے، کئی منازل طے کرتا ہے اور آخراپنےاصل مقام سے جا ملتا ہے۔ وجہ تو یہی اضطراب، یہی دکھ ہے، جو اُسے کئی راہوں سے گزارتا ہے۔ حقیقت کی طلب میں، سُکون کی تلاش میں منزل تک پہنچا دیتاہے۔ تو کیا دُکھ کو ہم صرف شیطان کی طرف سے آنے والی مصیبت قراردےسکتے ہیں۔ دُکھ اور اضطراب کا منبع محض شیطانی قوتیں ہو سکتی ہیں؟‘‘ سیمینار کے اسکالر نے دُکھ کو شیطان سے منسوب کیا تو اسراء خود کو مزید خاموش نہ رکھ پائی۔
’’پہلے تو مَیں آپ کو اس قدر غور و فکر پہ داد دیتا ہوں۔ اِس عُمرمیں ان باتوں پہ غوروفکر معمولی بات نہیں۔ میری نظریں آپ کے مستقبل کو دیکھ سکتی ہیں، لیکن ساتھ ساتھ تنبیہ بھی کردوں کہ جس راستے پہ آپ چل رہی ہیں، اُس پر آگاہی کی کئی منازل آتی ہیں۔ مضبوط سے مضبوط انسان بھی اُن کا بار نہیں اُٹھا سکتا۔ آپ کے دل کا نقشہ کھینچ کر ابھی مَیں سب کےسامنے رکھوں تو لوگ اُسے اِس خوف سے دیکھ بھی نہ پائیں کہ اُن کی نظروں کی کاٹ سے وہ زیر و زبر بھی ہو سکتا ہے۔ دُکھ اور غم سے متعلق آپ کا مشاہدہ سو فی صد درست ہے۔ ہر غم شیطان کے بہکاوے کے سبب نہیں ملتا،کچھ تکالیف، ہماری اپنی آزمائشیں بھی ہوتی ہیں۔‘‘
’’کچھ اور کہنے کی اجازت چاہوں گی۔‘‘ اسراء پھر سے اپنی نشست پہ کھڑی ہوئی۔’’آپ نے کہا، آگاہی کی منازل پہ ایک حسّاس دل انسان نہیں چل سکتا،لیکن یہ بھی دیکھیے، ہمارے نبیﷺ سے بڑھ کے کوئی شخص حسّاس نہیں تھا۔ آپ تو بدترین دشمنوں کی تکالیف کو بھی محسوس کرتے تھے۔ پہروں رو کر اپنی اُمّت کے اُن گناہ گاروں کی بخشش طلب کرتے تھے، جو اُس وقت دنیا میں آئے بھی نہیں تھے لیکن اللہ نے اُنھیں آگاہی کی اُس منزل پہ پہنچایا، جہاں کوئی اور نہیں جا پایا۔ بات، بس ثابت قدمی کی ہے۔ قدم نہیں ڈگمگانے چاہیئں۔‘‘
………٭٭………
ہر سمت سے وہ تتلیوں میں گِھری ہوئی تھی۔ بہت خُوشی سے اُن کی ہمرہی میں سرسبز و شاداب باغ میں دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ فضا میں اُس کےقہقہے پرندوں کے سریلے نغموں کے ساتھ کسی لطیف موسیقی کی طرح پھیل چُکے تھے۔ آہ…!! مگر اُس کی آنکھ کُھل گئی۔ وہ حسین سپنا، اب رات کے اندھیرےمیں تبدیل ہو چُکا تھا، جو اُسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔ نرم و نازک بستر کانٹوں کی سیج معلوم ہو رہا تھا۔ ’’کیا ہوتا، اگر یہ سپنا یونہی جاری رہتا؟میرے تو پَر چھین لیے ہیں وقت نے۔ کاش میرا ماضی لوٹ آئے۔ اے کاش! وہ وقت لوٹ آئے، جب میں کسی آزاد پرندے کی مانند ہر سُو دوڑتی پھرتی تھی۔‘‘
زار و قطار روتے ہوئے وہ خود ہی سے مخاطب تھی۔ خواب میں لگائے قہقہے دل کو چیرتے انسوؤں میں بدل چُکے تھے۔ وہ بچّوں کی طرح بلک بلک کے رو رہی تھی، مگر وقت کہاں لوٹ کے آتا ہے۔ انسان ایک مرتبہ بدل جائے، تو پھر اُس کےلیےاپنے پہلے رُوپ میں واپس جانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ مسلسل اشک بہانے کے بعداُس نے اطمینان کی ایک لہر سی اپنے اندر اُترتی محسوس کی۔ پھر اِسی الہامی کیفیت میں اپنی پسندیدہ ڈائری اٹھائی اور اُسے مخاطب کرتے ہوئے وہ سب لکھ ڈالا، جو وہ کسی اور سے نہیں کہہ سکتی تھی۔
’’اللہ نے اِن آنکھوں کو صرف ظاہر کو جانچنے، پرکھنےکی صلاحیت عطانہیں کی۔ کچھ لوگوں کی آنکھوں کو اُس نے انسانی دل، دماغ اور روح میں اُترنے کی قوّت بھی عطا کی۔ نفسیات دان اپنے علم کی بنیاد پر انسان کے اندر کو پرکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کچھ اہلِ علمِ باطن اپنی آنکھوں سے انسان کے باطن کا یوں مشاہدہ کرتے ہیں، گویا فلک پہ موجود بادلوں کے اُتار چڑھاؤ سے موسم کو جانچ رہے ہوں۔ لیکن میرا اِن دونوں سے کوئی تعلق نہیں۔ چوں کہ خدا نے ہر ایک کو اپنی منشا سے کوئی نہ کوئی جدا خُوبی عطا کر رکھی ہے سو، مَیں بھی اِن آنکھوں کی ہمراہی میں کتنے لوگوں کے اندر اُتر کر اُنھیں بےنقاب دیکھ چُکی ہوں۔ مَیں نے خُوشی سے بھرپور چہروں کے مَن کو ویران جزیروں کی مانند اُداس پایا ہے۔
کبھی جگمگاتی صبح جیسے پُرنور چہروں کا باطن بے چاند راتوں کے اندھیرے کی طرح ویران دیکھا ہے، تو کبھی برسات کی مانند برستی آنکھوں میں جھانکا تو توقع کے برعکس ان کے دل کا سکون و اطمینان حیران ہی کرگیا۔ لیکن میری آنکھوں کے اِس سفر نے جب تمہاری روح کی راہ لی، تو میں ایک عرصے تک اپنی آنکھوں دیکھے کو جھٹلانے کی سعی کرتی رہی۔ تمہارے مَن کا سفر حقیقت میں ایک گورستان کا سفر تھا۔ وہی ویرانی، وہی اداسی، وہی جا بجا خواہشوں کی لاشوں پہ پکی قبریں… یہ اس قبرستان کی دردناک خاموشی ہی ہے، جس میں رنگ بھر کر تم اُنھیں خالی پن کی وحشتوں کا نام دیتے ہو۔ تمہیں کیا لگتا ہے، یوں ہر خواہش، ہر آرزو کو تم راہ میں آنے والی رکاوٹ سمجھ کر اُس کا گلا گھونٹ کے خاموشی سے دفن کر دو گے، تو پُرسکون ہو جاؤ گے۔
اناپرست انسانوں کا یہی شیوہ ہے۔ وہ خود بھی انتظار میں رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی انتظار کرواتے ہیں۔ منزل خود نہ چل کر آئے، تو خواہش کے باوجود راہ بدل لیتےہیں۔ راہ سازگار نہ ہو، تو روند کر گزر جاتے ہیں، پھر اپنی فتح پہ پہروں مُسکراتے ہیں۔ لیکن …نہیں جانتے کہ یہ فتح اُن کی روح کو قبرستان میں بدل کے رکھ دیتی ہے۔ پھر اُس قبرستان میں موجود بھٹکتی روحیں اُنھیں کسی پَل چین نہیں لینے دیتیں، یہی تمہارا معاملہ ہے۔ یہ خالی پن نہیں، یہ مردہ خانے کی خاموشی ہے۔ یہ طلب کی پیاسی وحشت نہیں، گورستان کی دہشت ہے۔ تمہاری روح کئی آتماؤں کا مسکن ہے۔ اور اُن ہی آتماؤں کا رنگ اب تمہاری مصوّری میں بہتا ہے۔‘‘ (جاری ہے)