• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ میں بھی بالآخر بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے تمام مراحل مکمل ہو چکے ہیں ۔ بلدیاتی اداروں کے منتخب مئیرز ، ڈپٹی مئیرز ، چیئرمین اور وائس چیئرمین 30 اگست کو اپنے عہدوں کا حلف اٹھائیں گے ، جس کے بعد منتخب مقامی حکومتیں اپنا کام شروع کر دیں گی ۔ ایک نئے سیاسی عہد کا آغاز ہو رہا ہے ۔ پہلی مرتبہ منتخب جمہوری حکومتوں کے دور میں منتخب مقامی حکومتیں بھی فعال ہو رہی ہیں ۔ایک جمہوری معاشرے کیلئے یہ اچھی اور قابل فخر بات ہے لیکن اس امر کا تذکرہ کرتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ مقامی حکومتیں زیادہ بااختیار نہیں ہیں ۔ دیگر صوبوں سے موازنہ کیا جائے تو سندھ میں مقامی حکومتوں کے اختیارات تشویش ناک حد تک کم ہیں ۔ سندھ کا موجودہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ دراصل 1979 کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ ہی ہے ۔ دوسرے صوبوں میں بھی لوکل گورنمنٹ ایکٹس کو مقامی حکومتوں کے اختیارات کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ سندھ سے قدرے بہتر ہیں ۔
جمہوریت میں بلدیاتی اداروں کا انتہائی اہم اور بنیادی کردار ہوتا ہے ، جس طرح ہم وفاقی اکائیوں ( صوبوں ) کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینے کی وکالت کرتے ہیں اور 18 ویں آئینی ترمیم کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم کارنامہ قرار دیتے ہیں ۔ اسی طرح ہمیں صوبوں سے مقامی حکومتوں کو بھی زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے کی بات کرنی چاہئے ۔ جمہوریت کی اصل روح یہ ہے کہ اختیارات نچلی سطح پر عوام کو منتقل کئے جائیں اور جمہوری عمل میں ان کی زیادہ سے زیادہ شراکت کو یقینی بنایا جائے ۔ بااختیار بلدیاتی ادارے جمہوریت کے اصل مقصد کو پورا کرتے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے جمہوریت کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں ۔ سندھ کی مقامی حکومتوں کو دوسرے صوبوں کیلئے رول ماڈل ہونا چاہئے ۔ انہیں دیکھ کر لوگ یہ کہیں کہ ایک جمہوری سیاسی جماعت نے نچلی سطح کے جمہوری اداروں کو زیادہ مضبوط اور بااختیار بنایا ہے ۔ سندھ میں بلدیاتی اداروں کے انتخابی مراحل کی تکمیل میں بہت تاخیر ہو چکی ہے ۔ اگرچہ اس تاخیر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ بعض قانونی مسائل پیدا ہو گئے تھے اور کچھ لوگ عدالتوں میں چلے گئے تھے ۔ عدالتوں نے بھی قانونی اور آئینی نکات کی وضاحت کرنے اور فیصلے دینے میں کوئی تاخیر نہیں کی بلکہ ان فیصلوں تک پہنچنے کیلئے اتنا وقت لگنا ضروری تھا ۔ سندھ میں یونین کونسلز اور یونین کمیٹیز کے انتخابات تین مراحل میں ہوئے ۔ مرحلہ وار انتخابات کا تجربہ بہت کامیاب رہا ۔ پہلے مرحلے میں 31 اکتوبر 2015 کو 8 اضلاع میں ، دوسرے مرحلے میں 29 نومبر کو 12 اضلاع میں اور تیسرے مرحلے میں 15 دسمبر کو کراچی کے 6 اضلاع میں انتخابات ہوئے ۔ توقع کی جا رہی ہے کہ جنوری 2016 تک باقی انتخابی مراحل بھی طے کر لئے جائیں گے اور بلدیاتی ادارے کام شروع کر دیں گے ۔ قانونی پیچیدگیوں اور عدالتوں میں مقدمات کی وجہ سے 8 ماہ کی تاخیر ہو گئی ۔ 24 اگست 2016 کو مئیرز ، ڈپٹی مئیرز ، چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کے انتخاب کا آخری مرحلہ بھی مکمل ہوا ۔ اس تاخیر کا پیپلز پارٹی کی حکومت کو کسی بھی مرحلہ پر ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ سندھ حکومت کو نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی منظوری کے حوالے سے دیگر صوبوں پر سبقت حاصل تھی ۔ سندھ حکومت نے ہمیشہ تعاون کیا ۔ 22 اگست کو کراچی میں ہونے والے پرتشدد واقعات کی وجہ سے حالات ایسے پیدا ہو گئے تھے کہ 24اگست والے انتخابی مرحلے کو ملتوی کرنے کا جواز موجود تھا ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے انکشاف کیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے یہ انتخابی مرحلہ ملتوی کرنے کے بارے میں استفسار کیا تھا لیکن وزیر اعلیٰ سندھ نے انتہائی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابات ملتوی نہیں ہونے دیئے ۔
گزشتہ رمضان المبارک میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی طرف سے چیف منسٹر ہاؤس میں دیئے گئے افطار ڈنر میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سندھ کی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد واضح طور پر یہ بیان دیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت بلدیاتی اداروں کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور پیپلز پارٹی ان بلدیاتی اداروں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دے گی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ماضی میں فوجی آمروں نے بلدیاتی اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اور بلدیاتی اداروں سے نئی قیادت پیدا کرکے اسے پرانی سیاسی قیادت کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ۔ آمرانہ حکومتوں کے ان سیاسی عزائم کے باوجود بلدیاتی ادارے جمہوریت کی بنیاد ہیں ۔ اور سیاسی اور جمہوری قوتوں کو یہ تاثر ختم کرنا چاہئے کہ وہ بلدیاتی اداروں کی مخالف ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے نہ صرف کھلے دل سے منتخب مقامی حکومتوں کے قیام کیلئے کوششیں کیں بلکہ انہیں زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے کے عزم کا بھی اظہار کیا ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان میں ایک نئے سماجی معاہدے کی بات کیا کرتی تھیں اور کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ پاکستان کی ریاست اور عوام کے مابین سماجی معاہدہ ختم ہو چکا ہے لہٰذا نئے معاہدے کی ضرورت ہے ۔ شہید بی بی کے اس سماجی معاہدے کے کئی اہم نکات تھے ۔ ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ اضلاع کی سطح پر مضبوط حکومتیں قائم کی جائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے تحت لوگ مقامی حکومتوں کو مثالی اور رول ماڈل کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ کراچی اور حیدر آباد کے شہری علاقوں کے علاوہ باقی پورے سندھ میں تقریباً تمام بلدیاتی ادارے پیپلز پارٹی کے منتخب لوگوں کے پاس ہیں ۔ کراچی اور حیدر آباد کے دیہی علاقے بھی پیپلز پارٹی کے پاس ہیں ۔ کراچی ڈسٹرکٹ کونسل اور کراچی کی دو ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز بھی پیپلز پارٹی کے پاس ہیں ۔ کراچی ایک میٹروپولیٹن شہر ہے ، جس میں تمام مذاہب ، مسالک ، رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے اور زبانیں بولنے والے لوگ موجود ہیں ۔ کراچی سب کا شہر ہے اور یہاں کے بلدیاتی انتخابات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہاں مختلف نسلی اور لسانی گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگ منتخب ہو کر آئے ہیں ۔ بلدیاتی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے کراچی سمیت پورے صوبے میں بلدیاتی اور شہری مسائل سنگین نوعیت اختیار کر چکے تھے ۔ اب اگر بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہیں دیئے گئے تو وہ ان مسائل سے نہیں نمٹ سکیں گے ۔ بلدیاتی ادارے جس قدر موثر طریقے سے کام کریں گے ، اس کا کریڈٹ پاکستان پیپلز پارٹی کو جائے گا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ پرویز مشرف والے مقامی حکومتوں کے نظام میں صوبوں کی اہمیت کو کم کیا گیا تھا ۔ وفاق اور ضلعی حکومتیں زیادہ مضبوط تھیں ۔ وہ ماڈل ٹھیک نہیں تھا لیکن 1979 کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ والا ماڈل بھی مناسب نہیں ہے ۔ بلدیاتی اداروں کو مالیاتی اور انتظامی اختیارات دینا پڑیں گے ۔ صوبے کا ان بلدیاتی اداروں پر کنٹرول ہونا چاہئے لیکن یہ اس قدر صوبائی حکومت پر انحصار نہ کریں کہ کوئی کام بھی نہ کر سکیں ۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ مقامی حکومتوں کو زیادہ اختیارات منتقل کرکے انہیں موثر بنائے تاکہ نچلی سطح پر عوام اپنے مسائل خود حل کر سکے اور جمہوری عمل میں ان کی زیادہ سے زیادہ شرکت ممکن ہو سکے ۔


.
تازہ ترین