لاہور (صابرشاہ) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے 8نومبر کو بڑے کرنسی نوٹ ختم کرنے کے اعلان کے بعد اب پورے بھارت میں ہنگامہ برپا ہے۔ مودی سرکار کی جانب سے 500 اور 1000روپے کے کرنسی نوٹ ختم کرنے کے اعلان کے حامی بھی ہیں جبکہ سخت ناقد بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں وزیراعظم مودی نے مذکورہ کرنسی نوٹوں کو ختم کرنے کا مقصد کالے دھن اور کرپشن کا خاتمہ بتایا ہے ٹیلی ویژن خطاب کے دوران انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ ختم کئے گئے کرنسی نوٹ دہشت گردی کی مالی مدد کے لئے استعمال ہو رہے تھے۔ اس کے علاوہ اس اقدام کا مقصد انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس سے منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام ہوگی شہریوں سے کہا گیا تھا کہ وہ 30دسمبر تک پرانے کرنسی نوٹ بینک سے تبدیل کرا سکتے ہیں 10سے 13نومبر تک بینکوں سے ایک دن میں 10ہزار اور ایک ہفتہ میں 20ہزار روپے نکلوانے پر بھی پابندی عائد کی گئی 14نومبر سے اس مد میں اضافہ کر کے 24ہزار کر دیا گیا اے ٹی ایم مشینوں سے ابتدا میں 50 اور 100 کے نوٹ بھی برآمد ہوتے تھے اور ایک دن میں صرف 2ہزار روپے ہی نکلوائے جا سکتے تھے 14نومبر کے بعد اے ٹی ایم مشینوں سے 500 اور کے نئے نوٹ حاصل کئے جا سکتے ہیں تاہم اس کی حد 2500روزانہ ہے جن اے ٹی ایم مشینوں سے صرف 50اور 100کے نوٹوں کا اجرا ہوتا ہے وہاں رقم نکلوانے کی حد 2 ہزا روپے روزانہ ہے ریزرو بینک آف انڈیاکے مطابق 28اکتوبر 2016 کو بھارت میں گردشی کرنسی نوٹوں کی مالیت 260ارب ڈالر تھی مارچ 2016 کو240ارب ڈالر کے گردشی نوٹوں میں 500اور 1000 روپے کے نوٹوں کی مالیت 210ارب ڈالرتھی ،بھارت کے مرکزی بینک کی رپورٹ کے مطابق 90ارب 26کروڑ ڈالر کے بینک نوٹوں میں سے 24فیصد یعنی 22ارب 3کروڑ ڈالر مالیت کے نوٹ گردش میں ہیں یاد رہے کہ رواں سال جون سے ستمبر کے درمیان بھاری حکومت نے کالے دھن کو ظاہر کرنے کی سکیم شروع کی تھی اور 45فیصد ٹیکس اور جرمانہ ادا کر کے کالے دھن کو سفید کرنے کی پیشکش کی گئی تھی، اِس سکیم کے تحت 6کھرب 52ارب روپے ظاہر کر کے ان پر ٹیکس و جرمانہ ادا کیا گیا، یوں حکومت کو اپنے کل ریونیو کا 45فیصد حاصل ہوا۔ بڑے کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کی سکیم کو بھارتی صدر پرناب مکھرجی نے سراہا تھا اور اسے جرات مند اقدام قرار دیا۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی اسقاط زر کی سکیم کی بدولت معاشی نظام کی تطہیر ہو گی اور اقتصادی حجم اور ریونیو میں اضافہ ہو گا۔ اپوزیشن جماعت کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجیوالا نے اس اقدام کو تو سراہا مگر اس کے اثرات پر شک و شبہ کا اظہار کیا۔ بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اور آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ نارا نیڈو نے بھی اسقاط زر کی اس سکیم کی تعریف کی۔ سٹیٹ بینک آف انڈیا کے چیئرمین ارون دھاتی بھٹہ چاریہ، کاروباری شخصیات آنند مہندر، نریانہ مرٹھی اور سجن جنداں نے بھی اس سکیم کی حمایت کی۔ آئی ایم ایف نے کرپشن کے خلاف مودی سرکار کی مذکورہ سکیم کی حمایت میں بیان جاری کیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ 2014ء وزیراعظم مودی کی جماعت بی جے پی نے کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کی مخالفت کی تھی اس کا موقف تھا کہ اس اقدام سے ناخواندہ اور سادہ عوام جن کی بینکوں تک رسائی نہیں اسے مشکلات پیش آئیں گی۔ انتہا پسند ہندو جماعت شیو سینا نے کہا کہ کرنسی نوٹوں کی تبدیلی سے پیدا ہونے والی صورت حال میں جلد بہتری نہ آئی تو وہ بینکوں کو لوٹنا شروع کر دے گی۔ اس سے غریب عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی سینٹ میں سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے کہا کہ اس سکیم سے چھوٹا صنعتکار اور کسان متاثر ہوں گے۔ جی ڈی پی 3فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔ مغربی بنگال کے وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے کرنسی کی تبدیلی کو ایک ڈرامہ قرار دیا، انہوں نے بھارتی صدر سے اپیل کی کہ وہ اِس سکیم کو بند کرائیں۔ ممتا بینرجی کی طرح دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجری وال نے بھی 17نومبر کو کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کے خلاف احتجاج کیا۔ انڈین نیشنل لیگ کی جانب سے مدراس ہائی کورٹ میں مذکورہ سکیم کے خلاف درخواست دائر کی گئی، عدالت نے درخواست مسترد کر دی۔ سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ تاحال نہیں ہوا۔ عالمی بینک کے سابق چیف اکانومسٹ کوشک باسو کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کی مذکورہ سکیم سے فائدے کی بجائے نقصان زیادہ ہو گا۔