• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے لئے پاک امریکہ تعلقات ہمیشہ سے دلچسپی کا محور رہے ہیں ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم پاکستانیوں کی طرف سے انہیں بالعموم حقائق کی نظر سے دیکھا جاتا ہے نہ سنجیدگی سے پرکھا جاتا ہے کبھی تو اتنی گرم جوشی دکھائی جاتی ہے کہ گویا ریاست ’’ہوائی‘‘ کے بعد ہمارا نمبر ہی آتا ہے اور کبھی ایسی سردمہری کہ جو لاتعلقی کی پُراسرار حدوں کو چھوتی ہوئی محسوس ہو۔ ہمارا میڈیا اور دفتر خارجہ پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے جس نوع کے پینترے بدلتا ہے وہ نیچے عوامی سطح تک پہنچتے پہنچتے امریکہ کے لیے ایک گالی کی صورت اختیار کر لیتا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات ٹھوس فکری آدرشوں یا عالمگیر انسانی اقدار کی بنیادوں پر استوار نہیں ہیں بلکہ ان کی نوعیت بالعموم ہنگامی و واقعاتی مفادات یا مطلب براری سے آگے نہیں بڑھ پائی ہے سرد جنگ کے زمانے میں ہم سوویت غلبہ و استیلا کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ بن کر یا کمیونزم کی بیخ کنی کے نام پر امریکہ سے اپنی منواتے رہے ہیں اور مابعد دہشت گردی کے بھوت سے ڈرا کر اپنے ’’اعلیٰ مقاصد‘‘ کا حصول کرتے چلے آرہے ہیں یہی حال امریکیوں کا بھی رہا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف انہوں نے جس طرح چاہا ہمیں استعمال کیا کہ یہی ہمارا مشترکہ پوائنٹ تھا مابعد جہادی باقیات کا قلع قمع ہماری ڈیوٹی ٹھہری۔ جس کے متعلق امریکیوں کا گمان چلا آرہا ہے کہ ہم نے اپنی یہ ڈیوٹی ہمیشہ چالبازی سے سرانجام دی ہے حقیقت کیا ہے؟
ہمارے وزیراعظم نواز شریف کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فون پر جو گفتگو ہوئی ہے اس سے ہم پاکستانی خوشی سے پھول گئے ہیں ہماری کیا بات ہے ہم نے تو نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی لوٹا بنا دیا ہے۔ وہ امریکی صدر جو اپنی انتخابی مہم میں پاکستانیوں کو چھوڑ عامتہ المسلمین کو بھی طرح طرح کی دھمکیاں دے کر خوف زدہ کئے ہوئے تھا۔ اپنی پہلی ہی گفتگو میں مات کھا گیا یا سب کچھ بھول گیا اور کھل کر بولا کہ وہ نہ صرف دورہ پاکستان کے لئے بے چین ہے بلکہ شاندار قوم کی محبت میں بری طرح گرفتار۔ ہے اپنے رقیب کے منہ سے نکلتی ایسی خوبصورت پھلجڑیاں دیکھ کر کون کافر ہے جو اس دلربائی پر فریفتہ نہیں ہو جائے گا۔
کوئی تو بات ہے جو وہ آج اپنی قوم کو یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ وہ اپنے انتخابی وعدوں میں نرمی نہیں کریں گے ’’آپ کے ووٹوں نے مجھے کامیابی دلا کر یہاں تک پہنچایا ہے اب میں آپ سے کئے گئے وعدوں کو آپ کی حمایت سے پورا کروں گا۔ اگر آپ میری مدد نہ بھی کریں گے تب بھی میں یہ وعدے خود پورے کرکے دکھاؤں گا۔ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ کر امریکہ کی نئی خارجہ پالیسی تیار کریں گے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کریں گے۔ داعش کو تباہ کر ڈالیں گے‘‘ ہماری نظر میں ٹرمپ کی ایسی باتوں سے کسی کو پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ پاکستانیوں کو تو بالکل نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ تھیوری اور پریکٹس میں فرق تو ازل سے چلا آرہا ہے اور پھر سیاست کے میدان کا تو یہ خاصا ہے۔ آئیڈیل ازم اور تلخ زمینی حقائق میں تفاوت سے کوئی باشعور انسان انکار نہیں کر سکتا۔ ہمارے قائد سے بڑھ کر بھی بھلا کو ئی بااصول سیاستدان ہے۔ ٹرمپ صاحب تو ان کی گرد کو نہیں چھو سکتے۔ عملیت پسند سیاست دان کے انتخابی نعرے جو بھی ہوں قوم کی بھاری ذمہ داری جب اُس کے کاندھوں پر پڑتی ہے تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جاتا ہے۔ اب سارے سیاستدان ہٹلر یا مسولینی جیسے خود سر تو نہیں ہوتے ہیں نہ فیڈل کا سترو اور قذافی جیسے شعور سے پیدل ’’مردانِ مجاہد‘‘ ہوتے ہیں ہماری رائے میں اکیسویں صدی نے ایسی خودسری و ’’عزیمت‘‘ کی راہیں بڑی حد تک نا پید کر دی ہیں۔اگر ہم زیادہ ملاوٹی سودے کا بیوپار بند کر دیں تو ہماری جغرافیائی سٹرٹیجک پوزیشن اتنی اہم ہے کہ کوئی بھی ہوشمند عالمی قیادت ہمیں نظر انداز نہیں کر سکتی۔ امریکہ کو اگر چائنہ کے بالمقابل طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے انڈیا کی ضرورت ہے تو انڈیا کو اپنی مطابقت میں چلانے یا آگے بڑھانے کے لئے وہ پاکستان کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اب مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ امریکی ٹیکنالوجی یا فوجی و معاشی طاقت یا اس کے عالمی اثر رسوخ سے کون کتنا مستفید ہو سکتا ہے؟ یہ ہر ملک کی اپنی اپنی صلاحیت ہے جس میں کم از کم ہم اس وقت اپنی اسٹیبلشمٹ کے زیر اثر بننے والی پالیسیوں کے کارن کافی حد تک ناکامی سے دوچار ہیں اور ہمارا مدِمقابل بھارت اپنی کھلی پالیسیوں کے سبب سے پوری طرح فیضیاب ہو رہا ہے۔ ہم اٹھتے بیٹھتے اپنے دیرینہ مسئلے کا رونا روتے ہیں اگر ہماری خارجہ پالیسی کا یہی محور ہے تو آنے والے ماہ و سال میں اگر ہم نے اپنی پالیسیوں پر عصری تقاضوں کے مطابق میں نظرثانی نہ کی تو ہمارا یہ محور ہمیں لے ڈوبے گا۔ ہم سچے ہوتے ہوئے بھی دنیا میں جھوٹی اور ناقابلِ اعتماد قوم قرار پائیں گے جبکہ انڈیا کشمیریوں پر ظلم و ستم اور جبر کے پہاڑ توڑتے ہوئے بھی امن پسند قوم کہلائے گا۔ دنیا کی نظر میں افغان صدر اشرف غنی سے بڑھ کر امن و آشتی کا علمبردار کوئی نہ ہوگا جو اس وقت اپنی مظلوم افغان قوم کے تحفظ کی خاطر دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف پوری جانفشانی کے ساتھ نبرد آزما ہے۔ آج کی مہذب دنیا یہ سمجھتی ہے کہ اس عظیم کاز میں وزیراعظم مودی تو اشرف غنی کا دست و بازو بنا ہوا ہے۔میڈیا و خارجہ پالیسی تشکیل دینے والے تمام ذمہ داران کی خدمت میں ہماری التماس ہے کہ وہ زمانی حقیقتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں تمام تنگناؤں کو چھوڑ کر انڈیا دشمنی کے خول سے نکلیں۔ ہماری تعمیرو ترقی پورے خطے کی تعمیرو ترقی اور امن و سلامتی سے جڑی ہوئی ہے ہم الگ جزیرے میں نہیں رہ سکتے۔

.
تازہ ترین