• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ کے عوام میں اور خاص طور پر سندھ کی نوجوان نسل میں اس وقت اس بات پر سخت تشویش ہے کہ اگر اتنے عرصے کے بعد ہونے والی مردم شماری شفاف نہ ہوئی تو سندھ کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے، نوجوان نسل کے علاوہ بھی سندھ کے کونے کونے سے آنے والی اطلاعات سے پتہ چل رہا ہے کہ اس وقت سندھ سویا ہوا نہیں ہے مگر ساتھ ہی سندھ کی نوجوان نسل کا کہنا ہے کہ سندھ کا وجود باقی رہتا ہے یا نہیں؟ اس سے سندھ کے زرداروں، جاگیر داروں، پیروں اور سرمایہ داروں کو کوئی سروکار نہیں، ان کے مفادات کا سندھ کے جغرافیائی اور تاریخی مفادات سے کوئی تعلق نہیں، یہی وجہ ہے کہ جس طرح میں نے اپنے پچھلے کالموں میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ مجھے کئی ماہ سے سندھ کے مختلف علاقوں سے کئی نوجوانوں کے ٹیلی فون آرہے ہیں جن میں مختلف ایشوز کے حوالے سے اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ سندھ کے جائز حقوق کے تحفظ کے لئے زرداروں اور جاگیرداروں وغیرہ سے کوئی توقع نہ رکھیں مگر اس کے لئے سندھ کی نوجوان نسل کو تیار ہوکر خود میدان میں اترنا پڑے گا، ایک بات اور بھی ہے کہ نوجوان نسل میں پیدا ہونے والے اس شعور کے علاوہ آج کل سندھ کے دانشور اور ذہنی طور پر سمجھدار لوگ بھی کافی سرگرم ہو گئے ہیں، اس وقت سارے سندھ میں ایک رائے یہ بن رہی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت سندھ کئی حساس مسائل کے گھیرے میں ہے مگر ان لوگوں کی رائے کے مطابق اس وقت سندھ کے وجود کو باقی رکھنے کے لئے شفاف مردم شماری کی سب سے زیادہ اہمیت ہے، یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ بلوچستان کی قیادت بھی مردم شماری کو بہت اہمیت دے رہی ہے، ان کی رائے کے مطابق اگر افغانیوں اور باہر کے دیگر لوگوں کو بلوچستان سے نکالے بغیر مردم شماری کرائی گئی تو ہو سکتا ہے کہ بلوچستان کے عوام نہ فقط اس مردم شماری کا بائیکاٹ کر دیں مگر اس مردم شماری کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیں، ایسی ہی رائے سندھ کے وسیع حلقوں میں بھی پیدا ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں کوئی دن نہیں جاتا جب سندھ کے کسی نہ کسی حصے میں اس سلسلے میں کانفرنس نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں کچھ دن پہلے حیدرآباد میں ’’سندھ پروگریسو کمیٹی‘‘ جو سندھ کے ترقی پسند اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاسی عناصر پر مشتمل ہے، کی طرف سے ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں مردم شماری کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ ’’مردم شماری سے پہلے اقوام متحدہ کے ماتحت اس ایشو پر اسٹڈی کرائی جائے‘‘۔ دیکھا جائے تو اس مطالبے کو اتنی آسانی سے مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا، اس وقت ملک بھر میں مردم شماری کی نگرانی شماریات ڈپارٹمنٹ کررہا ہے۔ یاد رہے کہ ایک دو ماہ پہلے اسلام آباد میں مردم شماری پر ایک کانفرنس ہوئی تھی جس سے خطاب کرتے ہوئے اس محکمے کے سربراہ نے آئین کے تحت ہر دس سال کے بعد مردم شماری کرانے کی تائید تو نہیں کی مگر ایک عجیب و غریب بات کر دی۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہر ملک میں دس سال کے بعد مردم شماری کرانے کا ذکر تو ہے مگر کیا ایسا کرنا ضروری ہے؟ جس محکمے کے سربراہ کی رائے یہ ہو اسے یہ ذمہ داری کیسے دی جاسکتی ہے۔ آئین کے تحت مردم شماری کے بارے میں سارے ایشوز کونسل آف کامن انٹرسٹ کو طے کرنا ہیں مگر کیا ہم یہ پوچھ سکتے ہیں کہ یہ ایشو اب تک سی سی آئی میں کتنی بار زیر غور لایا گیا ہے، ان وجوہات کی بنا پر اگر چھوٹے صوبوں کو مرکزی حکومت پر اعتماد نہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ مردم شماری اقوام متحدہ کے ذریعے کرائی جائے تو کیا یہ بات غیر مناسب ہوگی؟ اس مرحلے پر میں 2010 ء اور 2011 ء میں کراچی بدامنی کیس میں اس وقت کی سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کی گئی کچھ اہم رولنگز کا ذکر کروں گا۔ ایک رولنگ کے ذریعے سپریم کورٹ نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ کراچی میں تقریباً 35لاکھ غیر قانونی تارکین وطن آباد ہیں، اس رولنگ کے مطابق ان میں سے اکثر کو نہ فقط نادرا کی طرف سے این آئی سی جاری کیے گئے ہیں مگر ان میں سے کئی کے نام ووٹر فہرستوں میں بھی شامل ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ایک سیاسی تنظیم جسے سندھ سے اپنا تعلق ظاہر کرنے پر تو عار ہے مگر وہ ان غیر قانونی تارکین وطن کو گھسیٹ گھسیٹ کر اپنا ووٹر بنا رہی ہے، غیر قانونی تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد فقط کراچی میں ہی آباد نہیں، اب تو وہ سندھ کے طول و عرض میں بھی پھیل چکے ہیں، ان میں بڑی تعداد افغانیوں کی ہے۔ واضح رہے کہ غیر قانونی تارکین وطن میں افغانی، بنگالی، برمی، بہاری اور ہندوستانی شامل ہیں۔ سندھ میں افغانیوں کے پھیلنے کی وجہ موٹر وے اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی بھی ہے اگر کوئی کراچی سے نکلے اور سندھ، پنجاب بارڈر تک گاڑی میں سفر کرتے ہوئے روڈ کے دونوں طرف نظر دوڑاتے ہوئے جائے تو پتہ چل جائے گا کہ روڈ کے دونوں طرف قائم ہوٹلوں اور پیٹرول پمپوں کی اکثریت کن عناصر کی ملکیت ہیں۔ سپریم کورٹ کی 2011ء کی رولنگز میں اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ کراچی میں حلقہ بندیاں متعلقہ قانون کے تحت کرنے کی بجائے نسلی بنیادوں پر کی گئی ہیں، یہ نہ فقط قانون کے خلاف ہیں بلکہ ملک کے بھی مفاد میں نہیں ، اب کئی حلقے اس بات کی بھی حمایت کر رہے ہیں کہ جس طرح ہندوستان کے آئین کی ایک شق کے تحت مقبوضہ کشمیر میں باہر سے آنے والا نہ زمین خرید سکتا ہے اور نہ شہریت حاصل کر سکتا ہے، سندھ اور بلوچستان کے عوام کا بھی مطالبہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں بھی ایسی شق شامل کی جائے۔ سندھ کے اکثر دانشور کہتے ہیں کہ سندھ میں دیگر صوبوں کے رہائش پذیر لوگوں کی الگ الگ ووٹر فہرستیں بنائی جائیں اور سندھ میں رہائش پذیر دوسرے صوبوں کے لوگ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنے اپنے صوبوں میں ووٹ دیں۔ اسی طرح جو سندھی دوسرے صوبوں میں ہیں وہ بھی پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنے صوبے میں ووٹ دیں اور اگر آئندہ مردم شماری ان اصولوں کے تحت نہ کرائی گئی تو قوی امکان ہے کہ سندھ ’’کالونی‘‘ بن جائے اور سندھی ’’ریڈ انڈین‘‘ بن جائیں۔ سندھ کے کچھ حلقوں نے اس بات کو خوش آئند قرار دیا ہے کہ آئندہ مردم شماری میں فوج کا بھی ایک اہم کردار ہوگا، یہ عناصر کہتےہیں کہ کم سے کم کراچی شہر میں گھر شماری فوج سے کرائی جائے۔



.
تازہ ترین