• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ نے غور کیا؟ دنیا میں ایک نئی رسم چلی ہے۔ پانچ پانچ لاکھ لوگ سڑکوں پر نکلنے لگے ہیں۔ مطالبہ منوانے کا یہ نیا ڈھنگ ہے۔ اس میں جو مزے کی بات ہے وہ یہ کہ مجمع اپنے حاکم سے کہہ رہا ہے کہ حکومت سے نکل جاؤ۔ اور دلیل یہ دے رہا ہے کہ ہم ہی نے تمہیں چنا تھا، ہم ہی نکال رہے ہیں کہ یہ بھی ہمارا حق ہے۔ بات تو ہے سوچنے کی۔ تازہ مثال یورپ کے ملک رومانیہ کی ہے۔ وہاں ایک مجمع ہی نے کمیونزم کو نکالا تھا، اب اس سے بھی بڑا مجمع جمہوریت کی بنیادوں پر حملہ آور ہے۔ اور دوسری مزے کی بات یہ ہے کہ لفظ ’کرپشن‘ جو ہمارے ماتھے پر لکھا گیا تھا، وہی لفظ وبا بن کر اب جنوبی کوریا سے برازیل تک کتنے ہی ملکوں میں سیاسی نظام کو درہم برہم کرنے پر آمادہ ہے۔ایک زمانہ تھا جب بھید مشکل سے کھلا کرتے تھے۔ سوشل میڈیا کا وجود نہ تھا۔ حکمراں آسانی سے من مانی کرلیا کرتے تھے۔ اب پتہ چلا کہ کرپشن صرف روپے پیسے کا نہیں، دماغ کے خلل کا بھی ہوتا ہے۔ حکمرانوں کا سر گھوم جاتا ہے اور وہ اپنی رائے اور اپنے فیصلے کو مقدم ماننے لگتے ہیں۔ مگر ضروری نہیں کہ ان کے عوام بھی مانیں۔جنوبی کوریا کی ہی مثال لیجئے کہ خاتون وزیر اعظم کے دل و دماغ پر ان کی ایک دوست کا اتنا اثر تھا کہ وہی دوست ملک پر عملاً حکمرانی کرنے لگی تھیں۔ تنگ آکر عوام کو باہر نکلنا پڑا۔ اس کے علاوہ کتنی ہی مثالیں ہیں جہاں حکمرانوں نے جمہوریت پر جھاڑو پھیر کر اپنی مرضی چلانی شروع کردی ا ور ملک و قوم کے اداروں کو راہ سے ہٹا کر اپنا حکم تھوپنے لگے۔تازہ مثال عراق پر اتحادیوں کے حملے کی ہے، ایک دنیا چلّا رہی تھی کہ یہ جنگ نہ کرو۔ لیکن اس وقت کا برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور امریکی صدر بُش اڑے ہوئے تھے کہ حملے کے لئے فضا سازگار ہے، یہی وقت ہے بغداد پر چڑھ دوڑنے کا۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بعد دنیا پہلی جیسی نہ رہی اور نہ پہلے جیسی ہونے کا امکان ہے۔ پورے عالم اسلام کے بخئے ادھڑ رہے ہیں اور نہیں معلوم کس کی آرزو پوری ہو رہی ہے۔جب کبھی تاریخ کی بڑی بڑی حماقتوں کی کتھا لکھی جائے گی اس میں ٹونی بلیئر کا نام سر فہرست ہوگا جو آج بھی سینہ تان کر دعویٰ کررہا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا وہ ٹھیک تھا۔مجھے یاد ہے لندن کی سڑکوں پر نکلنے والا آٹھ لاکھ کا وہ مجمع جس کا نعرہ تھا کہ یہ جنگ نہ چھیڑو۔ مجھے یاد ہے اس ریلی میں بے شمار لوگ، خصوصاً ضعیف ایسے تھے جو زندگی میں پہلی بار کسی جلوس میں شریک تھے۔ مگر پھر کیا ہوا۔آٹھ لاکھ عوام کی بات ہوا میں اڑادی گئی۔ جمہوریت کا سارا تصور خاک میں مل گیا۔ ایسی صورتوں میں بارہا یہ ہوا کہ آتش فشاں پھٹا اور عرصہ دراز سے دبا ہوا لاوا ابل پڑا۔ اب یہ ہمارے سیاسی نظام کی بدنصیبی ہے کہ اپنی اپنی سرزمینوں پر راج کرنے والوں نے سب کچھ کیا پر عبرت نہ پکڑی۔
ایک اور تازہ مثال، اتنی تازہ کہ یہ تحریر شائع ہونے تک صورتِ حال نا معلوم کیا ہو، یہ ہے یورپ کے ملک رومانیہ میں اٹھنے والا عوام کا طوفان۔سبب اس کا وہی تھا جسے سننے کے ہمارے کان بخوبی عادی ہیں۔
با اختیار لوگوں کا سرکاری خزانے میں نقب لگا کر اپنی جیبیں بھرنا۔ یعنی ایک لفظ میں اسے ’کرپشن‘ کہئے۔
صورت حال یہ ہے کہ ہر رات پانچ پانچ لاکھ لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور وزیر اعظم سے کہہ رہے ہیں کہ آپ چلتے بنیں۔ کہتے ہیں کہ سنہ انیس سو نواسی میں ملک سے کمیونزم کو نکالنے کے لئے جو عوامی احتجاج ہوا تھا اس کے بعد اب اتنا ہی بڑا اور پر جوش احتجاج ہو رہا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنا غیظ و غضب دیکھ کر حکومت نے ایک فرمان تیار کیا۔ مگر وہی سیاست دانوں والی چال چلی۔ اس نے لفظوں کا ایک گورکھ دھندا تیار کیا۔ اس میں یہ حکم چھپا ہوا تھا کہ بد دیانت سیاست دانوں کا احتساب ہوگاالبتہ جنہوں نے چوالیس ہزار یورو سے کم خیانت کی ہے انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ اس پر تو مجمع بھڑک اٹھا۔کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت اپنے ہی بہت سے حکام کو بری کرنے چلی ہے۔ مثال کے طور پر رومانیہ کی حکمراں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد پر چوبیس ہزار یورو کی خیانت کا الزام ہے۔ وہ تو یہ فرمان جاری ہوتے ہی ہر جرم سے آزاد ہو جائیں گے۔ حکام کے اس رویّے پر عوام بھڑک اٹھے جس پر حکومت کو اپنا فرمان منسوخ کر نا پڑا۔اس نے سوچا کہ اس سے لوگوں کی برہمی ٹھنڈی پڑ جائے گی۔ حکومت نے ایک نئے فرمان کا مسودہ تیار کرنے کا وعدہ کیا۔ اس پر عوام نے کہا کہ پرانے شکاری اب نیا جال لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سب ہوتا رہے گا، آپ پہلے اقتدار کے سنگھا سن سے نیچے تشریف لے آئیے۔
اب جو منظر ہم ٹیلی وژن پر دیکھ رہے ہیں،انہیں دیکھ کر عقل حیران ہے۔ ہم نے تو سنا تھا کہ عوام کا فیصلہ مقدم ہے۔ کثرت رائے سے جو رائے قائم ہوجائے اسے کوئی رد یا منسوخ نہیں کر سکتا۔ اور یہ تو سن سن کر ہمارے کان پک چکے ہیں کہ قومی فیصلے سڑکوں پر نہیں ہوا کرتے۔ تو پھر یہ کیا ہورہا ہے۔ عوام جو اقتدار کا اسٹیج سجاتے ہیں کیا وہی عوام اسٹیج پر لگا ہوا سیٹ بدل نہیں سکتے۔ جنوبی کوریا میں تو سارے بد دیانت لوگ برہنہ ہوئے، رومانیہ میں یہی ہوتا نظر نہیں آرہا ہے؟ دارلحکومت بخارسٹ میں وزیر اعظم کے دفتر کی عمارت پر رات کے اندھیرے میں لیزر شعاعوں کی مدد سے مظاہرین کے نام پیغام لکھا جارہا ہے :’ڈٹے رہو‘ اور ’استعفیٰ، بس استعفیٰ‘۔
سیدھی سی بات یہ ہے کہ وقت بدل رہا ہے اور بدلنے کی رفتار تیز ہے۔ دنیا اور دنیا والوںکواپنے اصول، اپنے ضابطے اور قاعدے قانون بدلنے ہوں گے۔ نہیں بدلیں گے تو دنیا کی داستانوں میں ان کی داستاں تک نہ ہوگی۔

.
تازہ ترین