• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ہاں خودرو جھاڑیاں اتنی جلدی نہیں اگتیں جتنی تیز رفتاری سے سرکاری ادارے اور محکمے بنائے جاتے ہیں۔ اگلے ماہ ہونے والی مردم شماری میں وفاقی اور صوبائی سطح پر قومی خزانے سے پل رہے ان اداروں کو بھی شامل کر لیا جائے تو نوازش ہو گی ورنہ میں نے تو جتنی مرتبہ ان اداروں کو شمار کرنے کی کوشش کی، گنتی کرتے ہوئے میرے ساتھ اعداد و شمار کا بھی سانس پھول گیا۔ محکمہ ماہی پروری، محکمہ تحفظ نباتات، محکمہ تحفظ جنگی حیات اور جو جانور در آمد کئے جاتے ہیں ان میں سے بیمار جانوروں کو ـ’’قید تنہائی‘‘ میں رکھنے کے لئے الگ محکمہ قائم ہے۔ صرف محکمے ہی کیا، چہار اطراف بورڈز، کمیشنز، کونسلز، سینٹرز اور اتھارٹیز کا بھی ایسا خوفناک جال بچھا ہوا ہے جس میں چھوٹی موٹی مچھلیاں تو پھنس جاتی ہیں لیکن مگر مچھ باآسانی گزر جاتے ہیں۔ فیڈرل فلڈ کمیشن، سینٹر فار ارتھ کوئیک اسٹڈیز، نیشنل انرجی ریزرویشن سینٹر، متبادل ذرائع توانائی بورڈ، پاکستان کونسل فار رینوئل انرجی اور نہ جانے کیسے کیسے ’’گہر ہائے آبدار‘‘ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ انصاف کی کرسی پر متمکن ایک اہم شخصیت کے بھائی کی سربراہی میں غربت ختم کرنے کیلئے ایک ادارہ برسہا برس سے کام کر رہا ہے، اس ادارے میں کیا گل کھلائے جارہے ہیں اس پر پھر کبھی بات ہوگی کیونکہ اس حوالے سے دستاویزات کا پلندہ الگ کالم کا متقاضی ہے۔
عمومی تصور یہ ہے کہ ان سرکاری محکموں میں بدنیتی، ہڈ حرامی اور سرکاری ملازمین کی کاہلی کے باعث کام نہیں ہوتا۔ اس تصور کو ختم کرنے کے لئے اور بیوروکریسی کو لگام ڈالنے کے لئے خادم اعلیٰ پنجاب نے یہ حل نکالا کہ سرکاری خرچ پر 1984ء کے کمپنیز آرڈیننس کے تحت مختلف کمپنیاں بنائی جائیں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ عین ممکن ہے یہ اقدام ایسٹ انڈیا کمپنی کی بے مثال کارکردگی سے متاثرہو کر اٹھایا گیا ہو۔ بہر حال گزشتہ آٹھ برس کے دوران پنجاب بھر میں سرکاری محکموں اور اداروں کے جنگل میں کمپنیوں کے شجر سایہ دارکا جال بچھا دیا گیا ہے۔ پنجاب صاف پانی کمپنی، پنجاب منرل کمپنی، پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی، پنجاب انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ کمپنی، پنجاب ایگری کلچر اینڈ میٹ کمپنی، پنجاب ہیلتھ اینی شیٹو کمپنی، پنجاب میونسپل ڈویلپمنٹ کمپنی، لاہور سالڈ ویسٹ منیجمنٹ کمپنی، لاہور پارکنگ کمپنی، جنوبی پنجاب جنگلات کمپنی وغیرہ وغیرہ۔ پنجاب میں انرجی ڈیپارٹمنٹ بدستور کام کر رہا ہے مگر توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے پنجاب بائیو انرجی کمپنی تشکیل دی گئی، پھر پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کمپنی بنائی گئی اور اب پنجاب بھر میں جتنے پاور پروجیکٹس کام کر رہے ہیں ان سب کوکمپنی کا درجہ دیدیا گیا ہے مثال کے طور پر قائد اعظم ہائیڈل پاور کمپنی، قائد اعظم سولر پاور کمپنی۔ ان کمپنیوں کے علاوہ کئی قسم کی اتھارٹیز بھی بنائی گئی ہیں لیکن ان پر بھی پھر کبھی بات ہو گی۔ کمپنیز آرڈیننس کے تحت رجسٹر کروائی گئی ان کمپنیوں کا کمال یہ ہے کہ ان کے لئے تمام تر وسائل قومی خزانے سے خرچ ہو رہے ہیں، ان میں کام کرنے والے افسران کا تعلق سول سروس سے ہے اور وہ سرکاری ملازم ہیں مگر ان پر پبلک پری کیورمنٹ ریگولیشنز یعنی سرکاری محکموں کے لئے بھرتیوں اور وسائل کی دستیابی کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ باالفاظ دیگر یہ کمپنیاں ایک جزیرے یا حکومت کے اندر حکومت کی مانند ہیں۔ انہوں نے اپنا ضابطہ اخلاق خود بنانا ہے، اپنی پالیسیاں خود مرتب کرنا ہیں، اپنے پے اسکیل خود طے کرنا ہیں۔
چند روز قبل چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پی کی تنخواہ بڑھانے کا نوٹیفکیشن سامنے آیا تو ہاہاکار مچ گئی کہ سرکاری خزانے کی اس قدر فضول خرچی۔ اس نوٹیفکیشن کے مطابق چیف سیکرٹری کو ماہانہ چار لاکھ روپے اور آئی جی پی کو ماہانہ تین لاکھ پچھتر ہزار روپے اسپیرئر ایگزیکٹو الائونس دینے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن شور و غوغا کرنے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ خادم اعلیٰ کس قدر فیاض اور سخی واقع ہوئے ہیں۔ ان کے بیسیوں چہیتے سرکاری افسر چیف سیکرٹری سے بھی کئی گنا زیادہ تنخواہ لے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر قائد اعظم تھرمل پروجیکٹ کے چیف ایگزیکٹو آفسیر کی تنخواہ بیس لاکھ روپے ہے۔ جناب 20ویں گریڈ کے سرکاری افسر ہیں اور ان کے ساتھ سول سروس میں آنے والے اس گریڈ کے دیگر تمام افسران کی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اسی طرح صاف پانی کمپنی کے سی ای او جنہیں نیا سال شروع ہونے سے چند دن پہلے او ایس ڈی بنا دیا گیا ان کی تنخواہ مبلغ گیارہ لاکھ روپے تھی اور اب 19ویں گریڈ کے ہی کسی افسر کو اس عہدے پرتعینات کیا جائے گا تو اس کا مشاہرہ بھی یہی ہو گا جبکہ اسی گریڈ کے سرکاری افسر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے۔
ان پرکشش مراعات اور بھاری تنخواہوں کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ نجی شعبہ میں تنخواہیں بہت زیادہ ہیں اس لئے اچھی کارکردگی کے لئے مارکیٹ ریٹ کے مطابق تنخواہیں دینا بہت ضروری ہے۔ لیکن یہ بات میرے لئے جیومیٹری اور الجبرا سے بھی زیادہ مشکل ہے کہ جو سول سرونٹ سرکاری محکمے میں رہتے ہوئے نااہل، کام چور اور نکمے ہوتے ہیں وہ کسی کمپنی میں جاتے ہی قابل، ذہین اور فرض شناس کیسے ہو جاتے ہیں؟ایک ہی گریڈ کے افسروں کی تنخواہوں میں انیس بیس کے بجائے زمین اور آسمان کا فرق کیوں ہے؟اگر سول سرونٹس کی تنخواہیں کم ہیں اور اس وجہ سے سرکاری اداروں کی کارکردگی ناقص ہے تو پھر کمپنیوں کے نام پر نئے جزیرے بسانے کے بجائے تمام سول سرونٹس کے پے اسکیل پر نظرثانی کیوں نہیں کی جاتی؟قانون تو یہ کہتا ہے کہ کسی سول سرونٹ کو اگر اپنے محکمے سے کسی اور ادارے میں بھیجا جاتا ہے تو وہ صرف ڈیپوٹیشن الائونس کا حقدار ہے، تنخواہ اسے اپنے پے اسکیل کے مطابق ہی ملے گی۔ اگر ان کمپنیوں کو نجی شعبہ کی طرز پر چلانا ہے تو پھر کلیدی عہدوں کے لئے سول سرونٹس کا انتخاب کیوں؟سب کے لئے میدان کھلا ہو، سرکاری ملازمین کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنی ملازمت سے مستعفی ہو کر اپلائی کریں یا کم ازکم نوکری لینے کے بعد بطور سرکاری افسر مستعفی ہو جائیں تاکہ انہیں بھی معلوم ہوا کہ نجی شعبہ میں کام کرنے والے اپنے نوکریاں بچانے کے لئے عدم استحکام کے کس عذاب سے دوچار ہوتے ہیں۔ اگر ان کمپنیوں کی بیساکھیوں سے ہی گڈ گورننس کو چلانا ہے توپھر حکومت بھی کسی کمپنی کو ہی سونپ دیں۔ اور تکلف برطرف، کمپنی سرکار ہی درکار تھی تو پھر ایسٹ انڈیا کمپنی میں کیا برائی تھی؟

.
تازہ ترین