• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سہون شریف کے قلندر کی درگاہ یا دوسرے مقامات پر حملہ کرنے والے اب ’’نامعلوم افراد‘‘ میں شمار نہیں ہوتے بلکہ ان کے چہرے گو مختلف ہیں مگر ان سب کے مکروہ ماتھوں پر ’’پاکستان دشمن‘‘ کی اسٹیمپ لگی ہوئی ہے ۔یہ لوگ اسلام کا نام لیتے ہیں اور مسلمانوں کو بموں سے اڑانے میں لگے رہتے ہیں۔یہ ہمارے جسموں پر صرف زخم ہی نہیں لگاتے ہماری روحوں کو بھی زخمی کرتے ہیں۔ مختلف ناموں سےکام کرنے والے یہ قاتل ابھی تک اپنے اصل مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے اور نہ آئندہ کبھی ہوں گے۔ ان کی ’’قتل و غارت گری‘‘ کا مقصد ملک میں خانہ جنگی کرانا اور یوں پاکستان کو برباد کرنا ہے چنانچہ یہ طبقہ مختلف مسالک کے لوگوں کو خود قتل کرتا ہے تاکہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے ہم سب باہم دست و گریباں ہو جائیں مگر الحمد للہ ہم پاکستانی اتنا شعور ضرور رکھتے ہیں کہ دوست اور دشمن میں پہچان کرسکیں چنانچہ ان کا یہ منصوبہ نہ کامیاب ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا۔
گزشتہ روز ان بدبختوں نے قلندر کی درگاہ پر اس وقت خودکش حملہ کیا جب زائرین دھمال ڈال رہے تھے۔ یہ دھمال کیا ہے؟ یہ ایک سرمستی کا عالم ہے۔ جس کے دوران سب لوگ اپنی قومیت، اپنا مسلک اور اپنی انا بھول کر، سب کے سب قلندری بن جاتے ہیں۔ سب ایک ہو جاتے ہیں، یہاں کوئی غریب، غریب نہیں لگتا اور کوئی امیر اپنی امارت دکھاتا نظر نہیں آتا۔ یہاں سب انسان ہیں، سب پاکستانی ہیں، سب کا کلچر ایک ہے، کوئی نیک ہو یا کوئی گنہگار، یہاں یہ سب فرق مٹ جاتے ہیں۔ قلندری رشتہ انسان کاانسان سے اور پھر بالواسطہ خدا سے رشتہ ہے۔ فضا میں بلند ہونےوالے ہاتھ اس برتر ذات کی حقانیت کا اعتراف کرتے ہیں جس نے سب کو ایک سا پیدا کیا۔ یہ مستی اس عاجزی کااظہار ہے کہ سب کچھ اس کا ہے۔ ہم کچھ نہیں ہیں۔ہم فقط اس کے عاجز بندے ہیں۔ دھمال ذات کی نفی اور خودسپردگی کی علامت ہے۔ سیہون شریف کی قلندری درگاہ پر خودکش حملہ کرنے والے جان لیں کہ نفی ٔ ذات کی علامت یہ دھمال رُکے گی نہیں۔
ایک دوست کی یہ باتیں مجھے بہت اچھی لگیں لیکن اس سانحہ کے حوالے سے وزیراعظم میاں نوازشریف اور ہمارے آرمی چیف جنرل قمر جاویدباوجوہ کا جوردعمل سامنے آیا ۔ وہ بہت شدید ہے۔اس بار اس عزم میں بہت شدت ہے۔ وزیراعظم نے اس موقع پر جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ ایک منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا’’یہ ترقی پسند پاکستان پر حملہ ہے اور یہ جناح کے افکارپر حملہ ہے۔‘‘ ان جملوں میں بہت کچھ آ گیا ہے اورضرورت ہے کہ آئندہ حکومتی پالیسیوں میں اس لائن کو ’’ٹو‘‘ کردیا جائے اور ان عناصر کو نیست و نابود کر دیا جائے جن کا ’’اسلام‘‘ اسلام کے خلاف باقاعدہ ایک سازش کی حیثیت رکھتا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاویدباوجوہ کا لہجہ بھی بہت سخت تھا اوراس وقت اسی لہجے کی ضرورت تھی۔ انہوں نےکہا کہ حملہ آور افغانستان سے پاکستان آ رہے ہیں اوراب ہم نہ صرف یہ کہ اپنا دفاع بھی کریںگے بلکہ جواب بھی دیںگے!
تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بڑی طاقت کو درمیان میں ڈال کر پاکستان اور افغانستان کے خلاف کارروائیاں کرنے والے گروہوں کا سدباب بات چیت کے ذ ریعے بھی کیاجائے۔ یہ ایک ناسور ہے جو اسلام کے نام پر کچھ جاہل اور کچھ تنخواہ دارانڈین ایجنٹ عالم اسلام میںانجیکٹ کر رہےہیں۔ یہ ایجنٹ پاکستان کےاندر موجود ہیں اورگزشتہ دنوں انڈیا کے سابق آرمی چیف نے ایک ٹاک شو میں پاکستان کو تباہ کرنے کا ایجنڈا پیش کرنےکے دوران یہ اعتراف کیا کہ ’’پاکستان میں ایسے لوگ کثیر تعداد میں موجود ہیں جو بہت کم پیسوں پر ہمارے لئے کام کر رہے ہیں، چنانچہ ہمیں ان پر انحصار زیادہ سے زیادہ کرناچاہئے‘‘یہ ایجنٹ ہمارے درمیان ہی موجود ہیں جو دہشت گردوں کے لئے سہولت کار کا کام کرتے ہیں۔ضرور ت ہے کہ انہیں ڈھونڈ ڈھانڈ کر نشان عبرت بنا دیاجائے۔
تاہم میرے نزدیک کرنے کاایک بہت بڑا کام یہ ہے کہ دہشت گردوں کے ان مدارس کا سراغ لگایا جائے جہاں ان کی فکری نشوونما کی جاتی ہے۔ اس تلاش کے دوران ایک حقیقت یہ بھی سامنے آئے گی کہ ان میں سے کچھ لوگ غیرمسلم ہوں گے جنہیں وہ اسلام ازبر کرادیا گیا ہوتاہے جو ایک ترقی پسنداور ترقی پذیر پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرسکتا ہو۔ ان خفیہ درس گاہوں میں نوجوانوں کو جنت کی حوروں اور ان کی خوبصورتیوں کی تفصیل بتائی جاتی ہے۔ انہیں وہ ویڈیوز بھی دکھائی جاتی ہیں جن میں دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے دوران ان کی مسخ شدہ لاشیں بکھری پڑی ہوتی ہیں اور یوں ان کو حوروں کے انعام کے علاوہ شہادت کے فضائل سے آگاہ کرکے ان ’’اسلام کے شیدائیوں‘‘ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تیار کیا جاتا ہے جو جوابی کارروائی میں واصل جہنم ہوگئے تھے۔ جب تک یہ خفیہ مدارس تباہ و برباد نہیں کئے جاتے حوروں کے ’’طلب گار‘‘خودکش بمبار نوجوان تیار ہوتے رہیں گے اور ہم اپنے پیاروں کی لاشیں اسی طرح اٹھاتے رہیں گے!!


.
تازہ ترین