• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب وزیر اعظم میاں نواز شریف ایک مدرسے میں تقریر کرتے ہوئے مسلکی فرقہ پرستی کے خلاف تقریر کرتے ہوئے اقلیتوں کے تحفظ کا ذکر کر رہے تھے تو اسی وقت ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی اتر پردیش (یو پی) میں اپنی مذہب پرستی کی بنیاد پر جیت کا جشن منار ہے تھے۔ میاں نواز شریف بھی کچھ دہائیاں پہلے مذہبی بنیادوں پر قوم پرستی کے نمائندہ تھے اور پیپلز پارٹی کے خلاف مذہبی بنیاد پسندوں کا ساتھ دیتے تھے۔ لیکن دہشت گردی اور انتہا پسندی سے جس طرح ریاست پاکستان میں بربادی پھیلی اس سے میاں نواز شریف سمیت حکمران طبقے کے بہت بڑے حصے نے سبق حاصل کیا کہ تنگ نظر مذہبی فکر کو اپنانا سیاسی خود کشی ہے۔ کیا نریندر مودی بھی وقت کے گزرنے کے ساتھ ہندوتوا کے نظریے کو خیر باد کہتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ عید ملن کریں گے جس طرح میاں نواز شریف نے ہولی کے موقع پر ہندو اقلیت کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا؟
ہندوستان کے ریاستی انتخابات کے نتائج نہایت دلچسپ تھے۔ یوپی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 403 میں 324سیٹیں جیت کر دوتہائی اکثریت حاصل کر لی جبکہ پنجاب میں اسے سخت ہزیمت اٹھانا پڑی جہاں آل انڈیا کانگریس پارٹی نے 117 میں سے 77 سیٹیں جیتیںَ۔ یوپی میں پچھلے کافی عرصے سے سماج وادی پارٹی اور دلتوں کی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی حکومت رہی ہے۔ پنجاب میں سکھوں کی اکالی دل اور بی جے پی کی متحدہ حکومت تھی۔ ایک بات تو واضح ہے کہ ان ریاستوں میں حکمران پارٹیوں کو شکست ہوئی ہے۔ لیکن یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کیا پنجاب (ہندوستانی) اس تجربے سے نکل چکا ہے جو کہ ابھی یو پی میں ہو رہا ہے۔ بی جے پی کی تو بنیاد ہی ہندو قوم پرستی ہے مشرقی پنجاب کی اکالی دل بھی نیم مذہبی نیم سیاسی پارٹی ہے۔ غرضیکہ پنجاب میں مذہب پرست پارٹیوں کی حکومت کو رد کیا گیا ہے۔
یوپی میں نریندر مودی نے مذہبی تفرقے کی سیاست کو اپنایا اور ہندوقوم پرستی کے نعروں پر ووٹ حاصل کئے۔ مثلاً یوپی کی انتخابی مہم میں یہ نعرہ لگایا کہ ’’اگر ہر گاؤں میں قبرستان ہے تو وہاں شمشان گھاٹ بھی ہونا چاہئے۔ اگر رمضان کے موقع پر بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے تو ہولی کے موقع پر بھی ایسا ہی ہونا چاہئے‘‘ اسی طرح سے بی جے پی کے دوسرے رہنماؤں نے مسلمانوں کو غنڈہ گرد اور دہشت پسندوں کے طور پر پیش کیا۔ بی جے پی نے یوپی کا الیکشن ہندوتوا کی بنیادوں پر لڑا اور اوپر کی ذات کے ہندووں کے ووٹ کو یکجا کر لیا۔ بی جے پی نے خالصتاً مذہبی سیاست کا سہارا لیا۔
یہ رجحان ہندوستان کی سیاست میں اسی کی دہائی سے شروع ہوا جب 1980میں بی جے پی کا قیام عمل میں آیا۔ اس سے پہلے اس کی پشت پر کام کرنے والی راشٹریہ سیوک سنگھ نے کئی محاذوں کے حوالے سے کانگریس کو شکست دینے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسی کی دہائی کے بعد حالات میں کیا تبدیلی آئی ہے جس سے مذہب پرستانہ سیاست کو پنپنے کا موقع ملا ہے؟
دلچسپ امر یہ ہے کہ جو کچھ ہندوستان میں ہوا وہی کچھ پاکستان میں ہو رہا تھا۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے ریاست کے اداروں پر مذہبیت کا غلبہ شروع ہو چکا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اندرا گاندھی نے ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ کی اور مذہبی کرداروں (بھنڈراوالا) کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی بنیاد ڈالی۔جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ 1977میں الٹ کر تنگ نظر مذہبی پالیسیاں نافذ کرنا شروع کردیں۔ اسی زمانے میں اندرا گاندھی کو انتخابات میں بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جب 1980میں ضیاء الحق افغان جہاد میں حصہ لے رہے تھے، اسی زمانے میں بی جے پی کا قیام عمل میں آیا اور اس نے ہندوتوا کی بنیاد پر سیاست میں آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ بی جے پی نے تقریباً پندرہ سالوں کی جدو جہد کے بعد نوے کی دہائی میں ہندوستان کی حکومت پر قبضہ کر لیا۔ اسی کی دہائی میں بی جے پی کے ابھار اور پاکستان میں انتہاپسندوں کی نشو و ارتقا کے درمیان کوئی تعلق ضرور ہے۔ اسی زمانے میں مشرقی پنجاب میں خالصتان بنانے کے لئے سکھ مسلح جنگ لڑ رہے تھے۔ بظاہر یہ سب کچھ بے جوڑ نظر آتا ہے لیکن واضح حقیقت یہ ہے کہ پورے شمالی برصغیرمیں مذہب پرست سیاست غالب آ رہی تھی۔ پاکستان میں جو کچھ مذہب کے لئے جہاد اور فرقہ پرستی کے نام پر ہو رہا تھا شمالی ہندوستان میں وہی کچھ ہندوتوا کے فلسفے کے تحت پنپ رہا تھا۔ ہندوستان میں سوائے مشرقی پنجاب کی خالصتانی تحریک کے باقی علاقوں میں پاکستان جیسا متشدد ماحول نہیں تھا لیکن ان کی جہت ایک ہی تھی، یعنی مذہب کو سیاست کی بنیاد بنانا۔ہندوستان میں بھی مذہبی فسادات میں سینکڑوں لوگ مارے گئے،دلی میں سکھوں کا قتل عام اور گجرات میں مسلم کش فسادات ہوئے پاکستان میں بھی عیسائی اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہ ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور شمالی ہندوستان میں مذہب پرستی کے متوازی ابھار کو کیسے سمجھا جائے؟
ہندوستان میں مذہب پرست سیاست کے ابھار کی وجہ پاکستان نہیں ہے بلکہ دوسرے مشترکہ عوامل ہیں۔ اگر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اسی کی دہائی سے پورے خطے میں قدیم پیداواری نظام بدل رہا تھا۔ بیل گڈے اور تانگے کی جگہ ٹریکٹر اور آٹوموبائل آ رہی تھی۔ بجلی، ٹیلیفون، ٹیلیوژن گاؤں گاؤں پہنچ رہے تھے۔ نوے کی دہائی میں گلوبلائزیشن کے نتیجے میں ساری دنیا میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ معاشی تبدیلیوں کے نتیجے میں تقریباً ہر سماج کے سیاسی اور سماجی اداروں کی ترتیب نو ہوئی ہے۔ برطانیہ اور امریکہ میں سفید فام قوم پرستی ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اگر ہندوستان میں نریندر مودی ہندوتواکی قوم پرستی کا جھنڈا اٹھائے ہوئے یو پی کا الیکشن جیتتا ہے تو امریکہ میں بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کا نعرہ بلند کرکے وائٹ ہاؤس تک پہنچ پاتا ہے۔
اگر بحث کو شمالی برصغیر تک محدود رکھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذہب پرست سیاست کا رجحان مزید بڑھے گایا مشرقی پنجاب اور پاکستان کی طرح اس میںکمی آئے گی۔ کیا دس سالوں میں یو پی میں بھی کانگریس کی طرح کی سیکولر پارٹی بی جے پی کا خاتمہ کردے گی؟ کیا مستقبل میں پاکستان اور شمالی ہندوستان میں مذہبی سیاست کا غلبہ بڑھے گا یا وہ زوال پذیر ہو جائے گا؟ لیکن تاریخ سے ایک سبق ضرور ملتا ہے کہ جو بھی ہوگا وہ دونوں ملکوں میں تقریباً ایک جیسا ہوگا۔



.
تازہ ترین